یورپ اور امریکا نے جو ترقی کی ہے‘ وہ بے مثال بھی ہے اور مثالی بھی۔قریباً تمام بنیادی مسائل حل کرلیے گئے ہیں۔ یورپی معاشروں پر طائرانہ سی نظر ڈالنے سے اندازہ و احساس ہونے لگتا ہے کہ کرنے کے لیے ‘اب وہاں کرنے کے لیے کوئی کام نہیں رہا۔ بجلی‘ پانی‘ گیس‘ صحت‘ تعلیم‘ بیمہ‘ ماس ٹرانزٹ‘ روزگار‘ کیریئر‘ ترقی ... کون سا معاملہ ہے‘ جس میں فقید المثال ترقی نے یورپ کا دامن نہیں تھاما؟ ترقی کا یہ معیار دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ حواس پر چھایا ہوا سِحر کمزور پڑتا ہے‘ تو رشک پیدا ہوتا ہے اور پھر رشک بڑھتے بڑھتے حسد میں تبدیل ہو جاتا ہے‘ جو بیشتر شعبوں میں واضح ناکامی سے دوچار ہوں‘ اُن کے پاس حسد کے سوا کوئی آپشن نہیں ہوتا!
مگر اس قدر ترقی کا حاصل؟ کسی بھی طرح کی اور کسی بھی شعبے کی بھرپور ترقی زندگی کو آسان بنانے کے لیے ہوتی ہے‘ نہ کہ الجھانے کے لیے۔ یورپ اور امریکا کا معاملہ یہ ہے کہ ترقی کا گراف ‘جس قدر بلند ہوتا جاتا ہے‘ ذہنی الجھنوں کا گراف بھی اُسی قدر بلندی سے ہم کنار ہونے پر بضد رہتا ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ ساری کی ساری ترقی صرف مادّی ہے۔ انسان کو جسمانی صحت کے لیے جو کچھ درکار ہے‘ وہ وافر مقدار میں اور ضرورت کے تناسب سے دستیاب ہے‘ پھر بھی زندگی میں اچھی خاصی کمی دکھائی دیتی ہے۔ ہے نا حیرت کی بات؟ یقینا۔ معاملہ صرف اتنا ہے کہ جسم کو یاد رکھا گیا ہے اور روح کو بھلا دیا گیا ہے۔ روح کو بھلانے یا نظر انداز کرنے کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ معاملات کھوکھلے پن کا شکار ہوگئے ہیں۔ بیشتر معاملات کا سَر دکھائی دیتا ہے‘ نہ پَیر۔
ہر چمکیلی چیز سونا نہیں ہوتی۔ چمک دمک سے کچھ نہیں ہوتا۔ جب ہم کسی شے کی حقیقت پر نظر ڈالتے ہیں‘ تب اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ہے کیا۔ مغربی تہذیب کا یہی تو معاملہ ہے۔ چمک دمک بہت زیادہ ہے‘ اصلیت کی تلاش میں نکلیے‘ تو مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بھرپور مادّی ترقی کے توسط سے مغرب نے کیا پایا ہے؟ اس سوال سے بڑھ کر یہ سوال ہے کہ مغرب نے کیا کھویا ہے؟ کھویا زیادہ ہے‘ پایا کم ہے۔ انسان کو متوازن زندگی بسر کرنے کے لیے بہت کچھ اور درست ترین تناسب سے درکار ہوتا ہے۔ جسم کو خوراک چاہیے۔ ہم جسم پر رک جاتے ہیں۔ روح کو بھی تو خوراک درکار ہوتی ہے۔ جسم کی ضرورت کا بھرپور خیال رکھا جاتا ہے۔ جسم جو کچھ طلب کرتا ہے ‘وہ اُسے بر وقت اور مطلوبہ مقدار و تناسب سے دیا جاتا ہے‘ مگر روح کی ضرورت کا خیال رکھنے کی کوشش نہیں کی جاتی‘ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ اس حوالے سے سوچنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی جاتی۔ عام تصور یہ ہے کہ جسم ہی سب کچھ ہے‘ روح کی کوئی حقیقت نہیں ‘یعنی انسان کو جسم سے ہٹ کر کچھ بھی درکار نہیں۔ جب جسم سے ہٹ کر کسی چیز کا وجود تسلیم ہی نہیں کیا جاتا ہے ‘تو اُس کی ضرورت کیونکر تسلیم کی جائے گی؟
یہ ہے ‘مغربی یا انتہائی ترقی یافتہ تہذیب کا اصل مخمصہ۔ جب بنیادی مسائل حل کرلیے جائیں‘ صحت اور تعلیم جیسے معاملات بھرپور کامیابی سے طے کرلیے جائیں اور معاش کے معاملے کو قابلِ رشک حد تک نمٹالیا جائے‘ تو کرنے کے لیے کچھ نہیں رہتا۔ روحانی معاملات کو ویسے خدا حافظ کہہ دینے کی ذہنیت پنپ چکی ہے۔ ہر معاملے کو خالص مادّہ پرستانہ نقطۂ نظر سے دیکھنے کا یہی نتیجہ برآمد ہوسکتا ہے۔ مغرب کے ترقی یافتہ معاشرے صرف چمک دمک کے پنجرے میں قید ہوکر رہ گئے ہیں۔ زندگی کے ہر پہلو خالص غیر روحانی یا مادّہ پرستانہ انداز سے پرکھنے کی کوشش نے زندگی کو بہت سے معاملات میں انتہائی کھوکھلا کردیا ہے۔ مغربی معاشروں نے صدیوں کی محنت سے جو کچھ پایا ہے‘ وہ صرف ایک اعتبار سے قابلِ رشک ہے ... یہ کہ زندگی کو پرُسکون انداز سے بسر کرنے کے لیے ‘جو چیزیں درکار ہوا کرتی ہیں‘ ان کا حصول آسان بنادیا گیا ہے اور معیار بھی بہت بلند ہے۔ ان معاشروں میں عمومی معیارِ زندگی قابلِ رشک ہے۔ بیشتر بنیادی مسائل اس طور حل کیے جاچکے ہیں کہ اب اُن کے دوبارہ ابھرنے کا امکان دکھائی نہیں دیتا۔ عام آدمی کو سسٹم کے تحت زندگی بسر کرنے پر تمام بنیادی سہولتیں ہی نہیں‘ بلکہ آسائشیں بھی آسانی سے میسر ہوتی ہیں۔ یہ سب کچھ بہت اچھا لگتا ہے ‘مگر کبھی آپ نے غور کیا ہے کہ مغربی معاشروں سے بہت کچھ یوں نکل گیا ہے کہ خود اُن معاشروں کے لوگوں کو بھی احساس نہیں‘ مثلاً: خاندانی نظام نام کی چیز برائے نام رہ گئی ہے۔ جب رشتے ہی نہ بچے ہوں‘ تو کسی کو رشتوں کی نزاکتوں کا کیا احساس؟ لوگوں کے دلوں میں ایک دوسرے کا احترام بھی ہے اور کسی کو بلا سبب تکلیف نہ پہنچانے کا خیال بھی ‘مگر یہ سب کچھ بہت حد تک سسٹم کی ''برکت‘‘ سے ہے۔ سسٹم کام کر رہا ہے‘ تو سب کام کر رہے ہیں۔ معاملہ بہت حد تک میکانیکی ہے۔ ریاست نے تمام معاملات کی ذمہ داری اپنے سَر لے لی ہے اور فرد کو ہر معاملے کی ادائیگی کا پابند کردیا ہے۔ ناروے‘ ڈنمارک‘ سویڈن‘ فن لینڈ وغیرہ میں پیدا ہونے والے ہر بچے کو زندگی کی تمام بنیادی سہولتیں فراہم کرنے کی ذمہ داری ریاست کی ہے۔ اس کے عوض ریاست بہت کچھ وصول بھی کرتی ہے۔ جب فرد کی ذمہ داری ریاست نے لے لی ‘تو وہ کسی کا بھی احسان کیوں قبول کرے گا یا مانے گا؟ یہی سبب ہے کہ طلاق ہونے کی صورت میں بھی بچے کے لیے مسائل پیدا نہیں ہوتے۔ ریاست اس کی بہتر زندگی کی ذمہ دار ہے۔ جب کسی فرد کو یہ معلوم ہو کہ اُسے ریاست سب کچھ فراہم کرے گی ‘تو اُس کے دل سے ماں باپ‘ بھائی بہن اور دیگر قریبی رشتوں کا وہ ابدی و روایتی تصور خود بخود نکل جائے گا ‘جو اب تک معاشروں کی بنیاد رہا ہے۔
ہم ہزار خرابیوں‘ خامیوں اور کمزوریوں کے باوجود ایک ایسے معاشرے میں جی رہے ہیں‘ جس میں دوسروں کی کفالت فخر کے احساس کے ساتھ کی جاتی ہے۔ ''امریکن سسٹم‘‘ کی لعنت موجود ضرور ہے‘ مگر بہت چھوٹے پیمانے پر۔ ''میں اپنا معاملہ دیکھوں‘ تو اپنا معاملہ دیکھ‘‘ والی ذہنیت اب تک ہمارے ہاں پنپ نہیں سکی۔ ہم آج بھی اپنا پیٹ کاٹ کر اہلِ خانہ کی ضرورتیں پوری کرنے کو صرف فرض ہی نہیں سمجھتے‘ ایسا کرنے میں مسرت بھی محسوس کرتے ہیں۔ ترقی ناگزیر ہے۔ ہمیں بھی اپنے مسائل حل کرنے ہیں‘ مگر اس طور نہیں کہ سب کچھ ہاتھ سے نکل جائے۔ مغرب کی اندھی تقلید سے گریز کیا جائے۔ مغرب نے بہت کچھ پایا ہے‘ تو دوسری طرف بہت کچھ کھویا بھی ہے۔ اُس نے جو کچھ کھویا ہے‘ اُس پر بھی نظر رکھی جانی چاہیے۔ رشتے‘جذبات‘ احساس‘ اخلاص‘ بے لوث لگاؤ‘ حقیقی انسان دوستی اور دوسری بہت سی نعمتیں تج کر محض مادّی ترقی کا حصول ہماری ترجیح نہیں ہونی چاہیے۔ مغربی معاشروں میں انسانوں کا خیال رکھنا‘ ریاست نے اپنی ذمہ داریوں میں شامل کرلیا ہے‘ اس لیے وہاں اب حیوانات سے محبت کا آپشن رہ گیا ہے۔ وہاں کے لوگ حیوانات سے جتنا پیار کرتے ہیں ‘اُسے دیکھ کر یہ اندازہ نہ لگایا جائے کہ وہاں انسان کی کتنی وقعت ہوگی! چمک دمک کے پیچھے چھپی ہوئی تاریکی پر بھی نظر رکھی جائے‘ تاکہ اندازہ ہو کہ ترقی کی کیا قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔ ترقی ضرور یقینی بنائی جائے‘ مگر اُس کی قیمت کسی طور نظر انداز نہ کی جائے۔
٭٭٭