دنیا بھر میں عوام کے جذبات بھڑک اٹھنے کا رجحان ہر دور میں رہا ہے ‘مگر اب یہ معاملہ تمام منطقی حدود سے بہت آگے کا ہے۔ پس ماندہ معاشروں میں عوام کے جذبات کا بھڑک اٹھنا ‘اب معمول کا درجہ حاصل کرچکا ہے۔ جہالت سے لدے ہوئے‘ افلاس زدہ اور بیشتر معاملات میں انتہائی پچھڑے ہوئے معاشرے اب ہجوم کی نفسیات کے اسیر ہوچلے ہیں۔ کسی بھی بات پر عوام کا بھڑک اٹھنا‘ سڑکوں پر نکل آنا اور قانون کو ہاتھ میں لینا عام ہوگیا ہے۔ یہ رجحان انتشار کی کیفیت کو تیزی سے بڑھاوا دے رہا ہے۔
پاکستانی معاشرہ بھی ہجوم کی نفسیات سے متعلق تمام علامات سے ''مزیّن‘‘ ہے۔ بہت سے معاملات محض اس لیے دب دباکر رہ جاتے ہیں کہ عوام غیر معمولی حد تک اُن میں الجھ کر رہ جاتے ہیں۔ دھرنے کی سیاست بھی‘ تو مجموعی طور پر یہی ہے۔ بات مثبت ہو یا منفی‘ جب عوام کے ہتّھے چڑھتی ہے ‘تو اپنا مفہوم کھو بیٹھتی ہے۔ اس کے بعد جو کچھ بھی ہوتا ہے‘ وہ عوام کی خوہش اور نفسیات کے تابع ہوتا ہے۔ بہت سے مواقع پر ہم نے دیکھا ہے کہ جب کوئی معاملہ عوام کے ہتّھے چڑھا‘ تو بازی ہی پلٹ گئی اور بسا اوقات بازی ''سٹیک ہولڈرز‘‘ کے خلاف پلٹی۔ جب بھی کوئی سیاسی جماعت معاملات کو اپنے ہاتھ میں لینے اور صورت ِحال پر چڑھ دوڑنے کے لیے ''موبو کریسی‘‘ یعنی ''ہجومیت‘‘ کو بروئے کار لاتی ہے‘ تب معاملات کسی کے ہاتھ میں نہیں رہتے۔ کبھی کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ جنہیں استعمال کیا جارہا ہوتا ہے ‘وہ معاملات اپنے ہاتھ میں لے کر اپنے ہی آقاؤں کو اشاروں پر نچانا شروع کردیتے ہیں!
''موبو کریسی‘‘ یا ہجوم کی غنڈہ گردی کے بدترین مظاہرے بالعموم وسیع البنیاد فسادات کے دوران دکھائی دیتے ہیں۔ بھارت میں بڑے پیمانے پر برپا کیے جانے والے مسلم کش فسادات کے دوران ہجوم کی نفسیات سے فائدہ اٹھانے والی ہندو انتہا پسند جماعتیں اپنے مفادات کو زیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم کرنے میں کامیاب رہی ہیں۔ 1969ء میں گجرات (مغربی بھارت) کے سب سے بڑے شہر احمد آباد کے مسلم کش فسادات میں ہجوم کی نفسیات پہلی بار کھل کر سامنے آئی تھی۔ اس کے بعد 1985 ء 1993ء اور 2002ء کے مسلم کش فسادات میں انتہا پسند ہندو جماعتوں نے ہجوم کی نفسیات کو بلا دریغ استعمال کیا۔ ایودھیا کے رام جنم بھومی مندر کے نام پر اور بعد میں گائے کی حفاظت کی آڑ میں مسلمانوں کو نشانے پر لینے کا باضابطہ عمل شروع کیا گیا۔
اب جبکہ کوئی بڑا اشو باقی نہیں رہا‘ بھارتیہ جنتا پارٹی نے اپنا ووٹ بینک برقرار رکھنے کے لیے ''ہندُتوا‘‘ (ہندو ازم) کا سہارا لیتے رہنے کا پختہ ارادہ کرلیا ہے اور اس ارادے پر کار بند بھی ہے۔ نریندر مودی کی وزارتِ عظمیٰ کے دور میں سارا زور اس بات پر رہا ہے کہ ہندوؤں کی اکثریت کو کسی نہ کسی طور مسلمانوں کے خلاف متحرک رکھا جائے اور اس کے لیے اگر کوئی بڑا یا مؤثر اشو نہ ہو تو کوئی بات نہیں۔ اشو کھڑا کرنے میں کیا دیر لگتی ہے؟ ہندو انتہا پسندوں کے پاس جب کوئی بڑی بات نہیں ہوتی‘ تو وہ گائے کو سیاست میں لے آتے ہیں۔ گائے کا ذبیحہ روکنے کی کوشش میں گائے کی تجارت اور نقل و حمل پر بھی قدغن لگائی جانے لگتی ہے۔ اس وقت بھارت میں یہی کچھ ہو رہا ہے۔ کسی ٹرک میں گائیں اور دیگر مویشی لاد کر لے جائے جارہے ہوں ‘تو ٹرک کو روک کر دیکھا جاتا ہے کہ ڈرائیور یا مویشیوں کا مالک مسلمان تو نہیں؟ اگر مسلمان نکل آئے ‘تو لازم ہے تو اُسے گھیر کر مار دیا جائے یا اس قدر زخمی کردیا جائے کہ اس کا انجام دیکھ کر پھر کسی کو گائیں منتقل کرنے کی ہمت نہ ہو۔ ایسے واقعات بھی رونما ہوئے ہیں کہ کوئی مسلمان اپنے باڑے کے لیے گائیں خرید کر چلا تو اُسے گھیر لیا گیا۔ متعلقہ کاغذات دکھانے پر بھی انتہا پسند ہندو نہ مانے اور گائیں چھین کر اُن کے مسلمان مالک کو شہید کر ڈالا۔
گائے کے ذبیحے کی روک تھام کے نام پر مسلمانوں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ اب اس قدر طول پکڑ گیا ہے کہ ایک طرف تو بھارت کے چیف جسٹس کو نوٹس لینا پڑا ہے اور دوسری طرف مرکزی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے میڈیا کی طرف سے پڑنے والے دباؤ کے ہاتھوں مجبور ہوکر تمام ریاستوں (صوبوں) کو ہدایت کی ہے کہ وہ ہجوم کے ہاتھوں کسی کو بھی نشانہ بنانے کے رجحان کی بیخ کنی کریں اور اس حوالے سے ہر ریاست خصوصی ٹاسک فورس تشکیل دے۔ تمام ریاستی حکومتوں کو یہ ہدایت بھی کی گئی ہے کہ وہ ہر ضلع میں ایس پی کی سطح کے افسر کو معاملات کنٹرول کرنے کی ذمہ داری سونپیں اور فرائض سے غفلت برتنے والے ہر افسر اور اہلکار کے خلاف فوری اور سخت کارروائی کی جائے۔
بھارت کے چیف جسٹس دیپک مشرا کو بھی گائے کے نام پر ہجوم کی بے لگام ہوتی ہوئی نفسیات کے خلاف میدان میں آنا پڑا ہے۔ انہوں نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ عوام کو بے لگام چھوڑ دینا اور اُن کی بد اعمالیوں پر گرفت نہ کرنا انتہائی خطرناک ہے۔ لازم ہوگیا ہے کہ عوام کو قانون ہاتھ میں لینے کے رجحان کا اسیر ہونے سے روکا جائے۔ جسٹس دیپک مشرا کہتے ہیں کہ قانون ہاتھ میں لینے والوں سے آہنی ہاتھ سے نپٹنے کی ضرورت ہے اور اگر اس کے لیے مرکزی حکومت کو نیا قانون بھی لانا پڑے‘ تو اس معاملے میں گریز پا رہا جائے‘ نہ دانستہ تاخیر کی جائے۔ جسٹس دیپک مشرا‘ جسٹس اے ایم خانوِلکر اور جسٹس ڈی وائے چندر چُوڑ پر مشتمل بینچ نے مرکزی اور ریاستی حکومتوں کو مشتعل ہجوم کے ہاتھوں تشدد اور ہلاکت کا سلسلہ روکنے کے اقدامات کی ہدایت کی ہے اور ان اقدامات سے متعلق رپورٹ جمع کرانے کا پابند بھی کیا ہے۔
بھارت کے چیف جسٹس نے عوام کو گمراہ کرنے‘ ورغلانے اور تشدد پر اکسانے کے حوالے سے سوشل میڈیا کے گھناؤنے کردار کی طرف بھی توجہ دلائی ہے۔ جسٹس دیپک مشرا نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ سوشل میڈیا پر پوسٹ کیے جانے والے ہر بیان‘ تصویر یا ویڈیو سے پلک جھپکتے میں متاثر نہ ہوں اور جذبات کی رَو میں بہتے ہوئے قانون کو ہاتھ میں لینے سے گریز کریں۔ جسٹس دیپک مشرا کا استدلال ہے کہ سوشل میڈیا کے غیر ذمہ دارانہ استعمال اور اُس پر پوسٹ کیے جانے والے مواد سے متاثر ہونے میں عجلت اور جذباتیت کا مظاہرہ انتہائی خطرناک رجحان ہے‘ جس سے معاشرے کی بنیادیں ہل کر رہ گئی ہیں۔
نریندر مودی کی وزارتِ عظمیٰ کے تحت بھارتیہ جنتا پارٹی نے ہندو دھرم اور روایات کو لاحق خطرات کا رونا روکر عام ہندو کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ مقصود صرف یہ ہے کہ ''ہندُتوا‘‘ کی بنیاد پر قائم ووٹ بینک برقرار رہے۔ معاشرے کے بنیادی مسائل پر متوجہ رہنے کی بجائے بی جے پی نے مسلمانوں کو نشانے پر لے کر ''عوامی غنڈہ گردی‘‘ کو شرمناک حد تک بڑھاوا دیا ہے۔ یہ رجحان پورے معاشرے کی بنیادیں ہلا رہا ہے‘ جڑیں کھوکھلی کر رہا ہے۔ ہجوم کی بے لگام نفسیات کو لگام دینا لازم ہوچکا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو ششی تھرور زیادہ ٹھوس انداز سے اپنا یہ دعویٰ پیش کرسکیں گے کہ بی جے پی پھر آئی‘ تو بھارت جلد یا بدیر ''ہندو پاکستان‘‘ میں تبدیل ہو رہے گا۔
٭٭٭