"MIK" (space) message & send to 7575

نئے ’’سٹیک ہولڈرز‘‘ اور امیدوں کی گرم بازاری

قوم نے بدھ کو ووٹ کی پرچی کی زبان میں جو فیصلہ سنایا ہے‘ وہ اب قدرے واضح ہوکر سامنے آگیا ہے۔ نئے اسٹیک ہولڈرز سامنے آئے ہیں اور امیدوں کی گرم بازاری بھی نقطۂ عروج پر ہے۔ انتخابی نتائج اور پارٹی پوزیشن کے حوالے سے ابہام دور ہوتا جارہا ہے‘ مگر ایسا نہیں ہے کہ سب کچھ درست ہے۔ ابھی بہت کچھ ہے ‘جسے اپنی اصل جگہ پر آنا ہے۔ ہر بار کی طرح اس بار بھی انتخابات کے چولھے پر چڑھائے جانے والے سیاسی پتیلے میں کھچڑی پکی ہے۔ پاکستانی معاشرے کے عمومی مزاج اور رجحانات و میلانات کو ذہن نشین رکھیے‘ تو کھچڑی کا پکنا کچھ حیرت انگیز نہیں۔ سندھ اور خیبر پختونخوا کا معاملہ بالکل واضح ہے۔ خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک ِانصاف ہی حکومت بنائے گی اور سندھ میں بھی کچھ نہیں بدلا۔ پیپلز پارٹی نے ہیٹ ٹرک کی ہے۔ ہیٹ ٹرک‘ یعنی شعبدہ‘ ٹوپی سے کچھ نکال کر دکھانے کا گُر! پورا ملک انتخابات کے ہاتھوں تبدیلی کے مرحلے سے گزرا ہے‘ مگر آصف علی زرداری سندھ کو بچا لے گئے ہیں۔ سندھ کے طول و عرض میں پیپلز پارٹی نے شادیانے بجاے ہیں۔ سندھ کو تبدیلی کی لہر سے بچانا آصف زرداری کا بڑا سیاسی کارنامہ سمجھیے۔ اُنہوں نے واقعی ٹوپی سے کبوتر نکال کر دکھایا ہے۔ 
خیر‘ دوبارہ ''کھچڑی‘‘ کی طرف چلتے ہیں۔ پاکستان تحریک ِانصاف کو وفاق میں حکومت بنانے اور خیبر پختونخوا میں حکومت برقرار رکھنے کا موقع ملا ہے ‘تو یہ شادمانی کی گھڑی ہے‘ مگر شادیانوں کی گونج میں سب کچھ نظر انداز نہ کیا جائے۔ عمران خان اور اُن کی ٹیم کو یاد رکھنا ہوگا کہ اقتدار لوہے کے چنے چبانے جیسا ہی کام ہے‘ جنہوں نے مینڈیٹ دیا ہے اُن کی توقعات پر پورا اترنا بچوں کا کھیل نہیں۔ بقولِ جگرؔ ؎ 
یہ عشق نہیں آساں‘ بس اتنا سمجھ لیجے 
اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے 
ایسا بہت کچھ ہے جو عمران خان اور اُن کے رفقائے کار کو کل تک بہت اچھا لگتا تھا ‘مگر ایک آنکھ نہ بھائے گا۔ دھرنے‘ احتجاج‘ ریلیاں‘ مظاہرے ... یہ سب کچھ پی ٹی آئی کی قیادت کے نزدیک اب شجر ممنوعہ کا درجہ پائے گا۔ 
پنجاب میں پاکستان تحریک انصاف حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہے اور آثار یہی ہے کہ وہ حکومت بنانے میں کامیاب ہو جائے گی۔ مسلم لیگ ن نے اب تک ہتھیار نہیں رکھے ہیں۔ وہ اپنی سی کوشش کر رہی ہے کہ بھاگے چور کی لنگوٹی کے مصداق انتخابات کی زنبیل سے اور کچھ نہ سہی‘ پنجاب میں حکمرانی برقرار رکھنا ہی برآمد ہو جائے۔ مسلم لیگ ن پنجاب میں ایک بار پھر حکومت بنانے میں کامیاب ہو بھی جائے تو اُسے چلانا لوہے کے چنے چبانے جیسا ہی ہوگا۔ وفاق اور خیبر پختونخوا میں اقتدار پانے والی تحریک انصاف مسلم لیگ ن کو پنجاب پر حکومت کرنے نہیں دے گی۔ 
پورا ملک تماشا دیکھ رہا ہے۔ بدھ کو انجام پانے والی رائے دہی کی مشق نے بیک وقت بہت کچھ کھول کر سامنے رکھ دیا ہے۔ نئی نسل نے پاکستان تحریک ِانصاف کا ساتھ دے کر ملک میں تبدیلی کی راہ ہموار کرنے کی قابلِ قدر اور قابلِ ستائش کوشش کی ہے۔پاکستان تحریک انصاف نے کرپشن کو ہدف بناکر نئی نسل تک اپنی بات پہنچائی‘ نتیجہ سامنے ہے۔ پاکستان تحریکِ انصاف میں ولولہ نمایاں ہے۔ قیادت اور کارکن دونوں ہی کچھ کرنے‘ بلکہ کر دکھانے کے موڈ میں ہیں۔ پاکستان جیسے ممالک میں کسی بھی سیاسی جماعت کے لیے کچھ کر دکھانا‘ سسٹم کو قابلِ ذکر و قابلِ ستائش حد تک درست کرنے میں کامیاب ہونا ناممکن نہ بھی ہو تو انتہائی دشوار ضرور ہے۔ ایسے معاشروں میں بہت تیزی سے بہت کچھ بدلنے کا عزم رکھنا بھی دیوانگی کے زمرے میں آتا ہے۔ عمران خان اور اُن کی آواز پر کچھ کر دکھانے کے عزم کے ساتھ گھروں سے نکلنے والوں نے دیوانگی کا مظاہرہ کیا ہے‘ جو کچھ وہ کرنا چاہتے ہیں وہ ایسا آسان نہیں کہ محض کہنے سے ہو جائے‘ جہاں معاملات نے بگڑنے میں سات عشروں کا وقت لیا ہے وہاں کوئی بھی اہم تبدیلی راتوں رات یقینی نہیں بنائی جاسکتی۔ پاکستان تحریک ِانصاف کے لیے اقتدار کانٹوں کا بستر نہیں‘ تو پھولوں کی سیج بھی نہیں۔ عوام بصارت بھی رکھتے ہیں اور سماعت بھی۔ یہ بات بہت حد تک حیرت انگیز محسوس ہو رہی ہے کہ سندھ میں صرف کراچی کی حد تک کچھ اکھاڑ پچھاڑ ہوئی۔ تبدیلی کی لہر اندورنِ سندھ کو چھوئے بغیر گزر گئی۔ تین صوبوں کے عوام نے سیاسی شعور کا مظاہرہ کیا اور سندھ میں یہ نعمت کہیں دکھائی ہی نہیں دی۔
اگر تبدیلی کارکردگی کی بنیاد پر رونما ہوتی ہے‘ تو سوال یہ ہے کہ سندھ میں تبدیلی کیوں نہیں آئی۔ سندھ میں ایسا کیا ڈلیور کردیا گیا تھا‘ جس کی بنیاد پر لوگ اپنی رائے بدلنے پر ذرا بھی آمادہ نہ ہوئے۔ کراچی میں جو کچھ ہوا وہ حیرت انگیز تھا‘ نہ غیر متوقع۔ ایم کیو ایم نے تین عشروں کے دوران بے عملی کی صورت میں جو کچھ بویا تھا وہی کاٹا۔ 2016 ء میں بلدیاتی انتخابات کی بدولت ایم کیو ایم کو ریکارڈ کی درستی کا آخری موقع ملا تھا‘ اگر اُس نے اس سنہرے موقع کو بروئے کار لاکر عوام کی خدمت پر توجہ دی ہوتی‘ تو آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔ اہلِ کراچی نے معقول حد تک سیاسی شعور کا مظاہرہ کرتے ہوئے تبدیلی کو راہ دی ‘ مگر بے عملی ہی کے مظاہرے پر پاکستان پیپلز پارٹی کیسے آبرو بچا گئی؟ 
پنجاب میں حکومت کوئی بھی بنائے‘ بیشتر معاملات ایسے مقام پر رہیں گے جہاں سے اُنہیں خرابی کی طرف دھکیلنا زیادہ دشوار نہ ہوگا۔ مسلم لیگ ن قومی اسمبلی میں ہاری ہے‘ مگر اس حقیقت کو نظر انداز نہ کیا جائے کہ پنجاب میں عوامی سطح پر اُس کی پوزیشن گئی گزری نہیں۔ اُس کے امیدوار ہارے بھی ہیں تو معمولی فرق سے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہر حلقے میں جتنے لوگ پاکستان تحریکِ انصاف کے حامی ہیں‘ اُس سے کہیں زیادہ حامی مسلم لیگ ن اور دیگر جماعتوں کے ہیں! کسی بھی حلقے سے کامیاب ہونے والے پاکستان تحریک انصاف یا مسلم لیگ ن کے امیدوار کو یہ حقیقت نظر انداز نہیں کرنی چاہیے کہ پورا حلقہ اُس کا نہیں ہوگیا۔ آزمائش یہ ہے کہ سب کی توقعات پر پورا اترا جائے۔ پنجاب میں معاملہ زیادہ پیچیدہ یوں ہے کہ ملک کی سیاست کا رخ وہاں کی سیاست کی وساطت سے متعین ہوتا ہے۔ پاکستان تحریک ِانصاف نے بھی پنجاب ہی پر متوجہ ہوکر بھرپور کامیابی حاصل کی ہے۔ سندھ کے برعکس پنجاب کی صورت ایسے اکھاڑے کی ہے ‘جس میں دونوں ہی پہلوان برابری کے ہوں اور فتح کے لیے پورا دم لگا رہے ہوں۔ جنوبی پنجاب کے گِلے شِکوے دور کرنا بھی پنجاب میں بننے والی ہر حکومت کے لیے ایک بڑا دردِ سر ہوتا ہے اور اس دردِ سر سے عمران خان کو بھی استثنیٰ نہیں مل سکے گا! 
عمران خان کو کراچی پر بطورِ خاص متوجہ رہنا پڑے گا۔ ملکی‘ علاقائی اور عالمی حالات کے تناظر میں اس شہر کا پُرامن اور مستحکم رکھا جانا ناگزیر ہے۔ اس وقت شہر میں کوئی بھی جماعت اس پوزیشن میں نہیں کہ سیاسی سطح کے احتجاج کے نام پر کاروبارِ زندگی کو خطرناک حد تک متاثر کرسکے‘ پھر بھی عمران خان کو کراچی کے مسائل حل کرنے کے حوالے سے غیر معمولی دانش مندی اور سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا پڑے گا۔ احتجاج کے نام پر کی جانے والی سیاست کی گنجائش اب برائے نام بھی نہیں رہی۔ لوگ صرف یہ دیکھنے کے لیے بے تاب ہیں کہ جس پارٹی کے لیے انہوں نے اپنے ''اسٹیک ہولڈرز‘‘ کو ایک طرف ہٹادیا ہے‘ وہ کچھ ڈلیور بھی کرسکے گی یا نہیں اور ایک کراچی پر کیا موقوف ہے‘ ملک بھر میں لوگ پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے کچھ کر دکھانے کے منتظر ہیں۔ امید کی جانی چاہیے کہ عوام کو مایوسی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں