"MIK" (space) message & send to 7575

اندھے کی لاٹھی

کس طرح ممکن ہو کہ کسی کا اپنا گھر درست نہ ہو اور وہ دوسروں کے گھروں میں درستی یقینی بنانے میں کامیاب ہوجائے؟ دوسروں کی آنکھ میں تنکا دیکھ کر ''تڑپنے‘‘ والے ایسے ''خدائی خدمت گار‘‘ بھی آپ نے دیکھے ہوں گے‘ جن کی اپنی آنکھ میں شہتیر پڑے ہیں‘ مگر اُنہیں یہ شہتیر نکالنے کی کیا‘ اُن کے بارے میں سوچنے کی بھی فرصت نہیں۔ ع 
سب کا تو گریباں سی ڈالا‘ اپنا ہی گریباں بھول گئے 
اپنی خزاؤں سے بہ طریقِ احسن نپٹنے کی ذرا بھی فکر نہیں۔ کوئی غم اگر ہے‘ تو بس یہ کہ دوسروں کی زندگی میں بہار آجائے۔ کسی کو اس روش پر گامزن دیکھ کر دنیا کیا کرسکتی ہے؟ صرف ہنس سکتی ہے‘ اور کیا! 
انسان مسائل اور پیچیدگیوں کا مجموعہ ہے۔ اُس کی ایک بڑی نفسی پیچیدگی یہ بھی ہے کہ اپنے آپ کو راہِ راست پر گامزن کرنے کی بجائے پوری دنیا کو اپنی مرضی کے راستے پر چلانے کے لیے کوشاں رہتا ہے! کچھ ایسی ہی نفسی پیچیدگی کا مظاہرہ بھارت کی انتہا پسند ہندو لیڈر سادھوی پراچی نے بھی کیا ہے۔ وشو ہندو پریشد کی رہنما نے مسلم لڑکیوں کو ''راہِ راست‘‘ پر لانے کی اپنی سی کوشش کرتے ہوئے ''مخلصانہ‘‘ مشورہ دیا ہے کہ وہ ہندو اِزم کو اپنائیں اور ہندو لڑکوں سے شادی کرکے پُرسکون زندگی بسر کریں۔ 
میڈیا سے گفتگو کے دوران اسلام کے خلاف بلا تکان بولنے اور مسلم لڑکیوں کو ہندو ازم کی سائے میں پناہ لینے کا مشورہ دینے والی سادھوی جی کو اچانک یاد آگیا کہ خود ہندو ازم میں عورت کی حیثیت ایسی گئی گزری ہے کہ اس معاملے کا دفاع کرتے ہوئے انسان کو ظرف اور ضمیر سمیت بہت کچھ ایک طرف رکھ دینا پڑتا ہے! کچھ دن قبل ہمیر پور کے ایک مندر میں کوئی عام عورت نہیں‘ بلکہ حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کی ایک ایم ایل اے (ریاستی اسمبلی کی رکن) نے قدم رکھا‘ تو ہنگامہ برپا ہوگیا۔ مندر کے مہا پجاری اور انتظامیہ کو یہ بات ذرا بھی نہ گوارا تھی کہ ایک عورت مندر میں قدم رکھے۔ اس ایم ایل اے کے جانے کے بعد مندر کو اچھی طرح دھوکر پاک کیا گیا! یہ بات سادھوی پراچی کے بھی علم میں تھی۔ انہوں نے مسلم لڑکیوں کو ہندو ازم اپنانے کا مشورہ دینے کے ساتھ ساتھ ہندو ازم میں عورت سے روا رکھے جانے والے اس گندے سلوک کی مذمت بھی کی۔ انتہا پسند ہندوؤں کا ایک انتہائی بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ وہ جب اسلام اور مسلمانوں کے حوالے سے کچھ سوچنے بیٹھتے ہیں‘ تو سوچنے کی مشین ‘یعنی دماغ کا سوئچ آف کردیتے ہیں! ایک ہی سانس میں کئی متضاد باتیں کر جاتے ہیں اور پھر ہر تضاد کا جواز پیش کرنے کی کوشش میں کامیڈی تھیٹر کا ماحول کھڑا کردیتے ہیں! سادھوی جی نے بھی کچھ ایسا ہی کرنے کی کوشش کی ہے۔ 
مشکل یہ ہے کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک جیسے جدید ترین طریقوں کے تحت اور عام فہم زبان میں تبلیغ کرنے والوں نے پڑھے لکھے ہندوؤں کو غیر معمولی حد تک متاثر کیا ہے۔ آج بھی ہندو لڑکیاں تیزی سے اسلام اس لیے قبول کر رہی ہیں اُنہیں اپنے معاشرتی تانے بانے اور مذہبی سوچ میں پناہ لینے کی گنجائش دکھائی نہیں دیتی۔ 
مسلمانوں نے اہلِ ہند‘ یعنی مقامی باشندوں پر کم و بیش آٹھ صدیوں تک حکومت کی۔ اس دوران حکمرانی کا معیار مجموعی طور پر خاصا بلند رہا۔ مسلم حکمرانوں نے اسلامی تعلیمات کو‘ شعوری یا تحت الشعوری طور پر‘ کسی نہ کسی حد تک پھیلایا۔ ہندو معاشرے میں جو گھٹن ہزاروں سال سے جڑ پکڑے ہوئے تھی‘ وہ اسلام نے دور کی اور عدمِ مساوات سے آلودہ معاشرے کو مساوات کے درشن کرائے۔ اسلامی تعلیمات اور مسلمانوں کی اجتماعی روش دیکھ کر لاکھوں‘ کروڑوں ہندوؤں نے اسلام قبول کیا۔ 
مسلمانوں نے تو ہندوؤں پر آٹھ صدیوں تک حکومت کی ‘مگر ہندو ایک دن بھی اُن پر حکومت نہ کرسکے‘ کیونکہ مسلمانوں سے اقتدار انگریزوں نے چھینا تھا اور اُن کے جانے کے بعد جمہوریت آگئی! انتہا پسند ہندوؤں کے نزدیک مسلمانوں سے آٹھ سو سالہ محکومی کا بدلہ لینا بالکل جائز ہے۔ زمانہ کس حد تک بدل چکا ہے‘ اس کی اُنہیں چنداں پروا نہیں۔ وہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ کسی نہ کسی طور مسلمانوں کو مزا چکھایا جاتا رہے۔ 
ہندوؤں کی انتہا پسندی اندھے کی لاٹھی ہے‘ یعنی کسی بھی طرف چل سکتی ہے‘ کسی کا بھی سر پھاڑ سکتی ہے اور پھاڑ رہی ہے۔ 1947ء کے بعد دو غم ہندو انتہا پسندوں اور بنیاد پرستوں کی جان کا روگ ہوئے۔ ایک طرف تو مسلمانوں سے محکومی کا بدلہ نہ لیا جاسکا اور دوسری طرف پاکستان کے قیام کی صورت میں اکھنڈ بھارت اکھنڈ نہ رہا۔ اب اور کچھ تو ممکن نہیں تھا ‘اس لیے بھارت میں صدیوں سے بسے ہوئے مسلمانوں ہی کو الگ تھلگ کرنے کی ٹھانی گئی۔ مسلمانوں کو معاشرے کے مرکزی دھارے سے الگ کرنے کی سوچ پر اب تک عمل کیا جارہا ہے۔ دس دس بارہ بارہ نسلوں سے بھارتی سرزمین پر بسے ہوئے لوگوں کو غیر ملکی قرار دے کر اُن سے گلو خلاصی کی کوشش کی جارہی ہے۔ 
باضابطہ شہریوں کا ڈیٹا آج کل نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز (این آر سی) کے زیر عنوان تیار کیا جارہا ہے۔ آسام میں 40 لاکھ افراد کو این آر سی سے باہر رکھا گیا ہے۔ ان میں بڑی تعداد مسلمانوں کی ہے۔ مغربی بنگال کی وزیر اعلٰی ممتا بینرجی‘ جو بالعموم مسلمانوں کے لیے دل میں نرم گوشہ رکھتی ہیں‘ کھل کر میدان میں آئی ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش سے آنے والے بنگالی مسلمانوں کو الگ تھلگ کرنے کے نام پر آسام‘ مغربی بنگال اور تری پورہ میں صدیوں سے بسے ہوئے‘ یعنی مسلمانوں کو بھی ملک سے نکالنے کی یا کم از کم شہریت کے تحت تمام حقوق سے محروم رکھنے کی سازش کی جارہی ہے۔ ممتا بینرجی نے اس معاملے کو اجاگر کرتے ہوئے انتباہ کیا ہے کہ مسلمانوں کو الگ تھلگ کرنے کے بھونڈے طریقے اپنائے جاتے رہے‘ تو خانہ جنگی بھی چھڑ سکتی ہے! کانگریس سے تعلق رکھنے والے سابق مرکزی وزیر ششی تھرور پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ انتہا پسند ہندوؤں کی منافرت پرور پالیسیوں سے بھارت میں کئی پاکستان کھڑے ہوسکتے ہیں۔
نریندر مودی بھارت کو براہِ راست مریخ تک لے جانے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ اس طرح کے خوابوں کو شرمندۂ تعبیر کرنے کے لیے سوچ بھی بلند ہونی چاہیے‘ اگر کچھ بننا ہے‘ کچھ کر دکھانا ہے‘ تو اندھے کی لاٹھی والی سوچ ترک کرکے وسیع النظری اپنانے ہی کا آپشن بچا ہے۔ مودی جی کو یاد رکھنا چاہیے کہ انتہا پسندی کو پروان چڑھانے والی ‘اُن کی پالیسی نے بھارت کو اندرونی سطح پر شدید عدم استحکام سے دوچار کر رکھا ہے۔ اب اُنہیں اندھے کی لاٹھی توڑ دینی چاہیے۔

ہندوؤں کی انتہا پسندی اندھے کی لاٹھی ہے‘ یعنی کسی بھی طرف چل سکتی ہے‘ کسی کا بھی سر پھاڑ سکتی ہے اور پھاڑ رہی ہے۔ 1947ء کے بعد دو غم ہندو انتہا پسندوں اور بنیاد پرستوں کی جان کا روگ ہوئے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں