جتنے ذہن اتنے خیالات۔ جتنے منہ اتنی باتیں۔ جتنی باتیں اتنے بتنگڑ۔ اور جتنے بتنگڑ اتنی خرابیاں۔ خرابیاں ہیں کہ بڑھتی چلی جاتی ہیں۔سیاست کے دریا کی طغیانیوں کی خیر۔ قوم کا کیا ہے‘ جہاں اور بہت کچھ جھیلا ہے وہاں مزید بہت کچھ جھیل ہی لے گی۔ مگر اس کا نتیجہ؟ مزید خرابیاں‘ اور کیا!
انتخابات کے بعد کی صورتحال نے اب تک سکون کا سانس نہیں لیا ہے۔ بیان بازی کا مقابلہ دھوم دھڑاکے سے جاری ہے۔ سانس پھولا جارہا ہے مگر بیان داغنے والے دم لینے کو تیار نہیں۔ قوم حیران ہے کہ آخر یہ تماشا کیا ہے۔ اور ہمیں اس امر پر حیرت ہے کہ قوم کو یہ سب کچھ بہ نگاہِ استعجاب کیوں دیکھ رہی ہے۔ کیا نیا ہے جو حیران کرے۔ کراچی کی صورتحال اب تک اتنی بہتر نہیں ہوئی کہ اطمینان کا سانس لیا جاسکے۔ مخالف اور متضاد بیانات کا سلسلہ جاری ہے۔ ایک طرف تال میل کی کوششیں اور دوسری طرف معاملات خراب کرنے کی سازشیں۔ یہ تو ایک ہاتھ میں آگ اور دوسرے میں پانی والا معاملہ ہے۔ کراچی میں پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم کے درمیان تال میل اہلِ شہر کے لیے انتہائی خوش آئند امر ہے۔ کراچی کے سابق ''ایبسولیوٹ سٹیک ہولڈرز‘‘ کو پولنگ ڈے پر جس ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا ‘وہ کم ہی لوگوں کے لیے حیرت انگیز تھی‘ اور اِس کے بعد پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم میں رابطوں کا پیدا ہونا اور ہم آہنگی کا پروان چڑھنا بھی ''سیاسی روایات‘‘ کی روشنی میں کچھ خاص حیرت انگیز نہیں۔ دنیا بھر میں ہمیشہ یہی تو ہوتا آیا ہے کہ جب بھی کوئی پارٹی انتخابات میں واضح اکثریت حاصل کرتی ہے‘ تب چھوٹی جماعتیں کچھ نہ کچھ پانے کی امید میں اس کی طرف لپکتی ہیں‘ اس کے دامن سے وابستہ ہونے اور وابستہ رہنے کی کوشش کرتی ہیں۔ پی ٹی آئی نے ایم کیو ایم کو ساتھ ملانے کی کوشش کی ہے تو اس میں بُرا کیا ہے۔ اور ایم کیو ایم بھی اپنے بچے کھچے سٹیکز کو بچانے کی بھرپور کوشش میں حکمراں جماعت کے ساتھ جانے کو تیار ہے تو اِس میں ہرج ہی کیا ہے۔
معاملہ ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی میں ہم آہنگی کے فروغ اور حکومت چلانے کے معاملے میں بھرپور تال میل سے کہیں زیادہ کراچی کے سٹیکز کا ہے۔ شہرِ قائد محض شہر نہیں بلکہ ملک کی معیشت کا مرکز و محور ہے۔ سب کچھ بہت حد تک اسی شہر کے بھرپور تحرّک پر منحصر ہے۔ ملک بھر کے لوگ بہتر معاشی امکانات کی تلاش میں اس شہر کا رخ کرتے ہیں۔ اگر خاطر خواہ توجہ نہ دی گئی‘ معاملات کو درست نہ کیا گیا تو قومی معیشت کے لیے پائی جانے والی پیچیدگیاں‘ خامیاں اور خرابیاں ختم ہونے کا نام نہیں لیں گی۔ حالیہ عام انتخابات کے بعد ملک بھر میں بہت کچھ الٹ پلٹ گیا ہے۔ ایک اندرون سندھ کے سوا کہیں بھی معاملات وہ نہیں رہے جو ہوا کرتے تھے۔ خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کو محنت کا صلہ مل گیا یعنی ایک بار پھر واضح اکثریت کے ساتھ حکومت بنانے کا موقع ملا ہے۔ پنجاب میں معاملات الجھے ہوئے ہیں۔ بلوچستان کی کیفیت بھی ملی جلی ہے۔ قومی اسمبلی کے حوالے سے بھی تحریکِ انصاف کے لیے فیصلہ کن پوزیشن میں آنا کوئی آسان معاملہ ثابت نہیں ہوا۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اقتدار میں رہنا تحریکِ انصاف کے لیے کوئی آسان مرحلہ ہوگا تو وہ اپنی رائے سے رجوع کرے کہ دوسری بہت سے جماعتوں کی طرح تحریکِ انصاف کو بھی اس مرحلے سے گزرتے وقت دِقّتوں ہی کا سامنا ہوگا۔ عمران خان کو بھی اچھی طرح اندازہ ہے کہ انہیں اب ایک مشکل اننگز شروع کرنی ہے۔ اس اننگز میں انہیں قدم قدم پر فیلڈ پلیسنگ تبدیل کرنا پڑے گی۔ اس میچ میں کئی بار بازی الٹتی‘ پلٹتی دکھائی دے گی۔
یہ سب کچھ اپنی جگہ‘ مگر کچھ نہ کچھ کہنا انسان کی فطرت ہے اور سیاسی جماعتوں میں بھی تو انسان ہی پائے جاتے ہیں۔ روز کچھ نہ کچھ کہنا سیاسی معمول کا حصہ ہے۔ خود کو خبروں میں زندہ رکھنے کے لیے سیاست دان اور سیاسی کارکن ایسا کچھ کہنے کی کوشش کرتے ہیں جو خبر میں تبدیل ہو‘ موضوعِ بحث بنے اور مین سٹریم میڈیا کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا میں بھی زندہ رہے۔ ایسے میں بھڑکیلے سیاسی بیانات پر زیادہ حیرت ہونی نہیں چاہیے۔ اب بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا بیانات آکسیجن کا درجہ رکھتے ہیں؟ کیا لازم ہے کہ کچھ نہ کچھ الٹا سیدھا کہتے ہوئے معاملات کو خراب کرنے یا الجھانے کی کوشش کی جاتی رہے؟ بات بے بات بے ڈھنگے انداز سے ''نکتہ آفرینی‘‘ کا سلسلہ ختم ہونا چاہیے یا نہیں؟
انتخابی نتائج کے بارے میں سو طرح کے بیانات داغے جاچکے ہیں۔ جنہیں دھاندلی کے حوالے سے شکایت ہے خود ان کے ذہن بھی اب تک واضح نہیں۔ حد یہ ہے کہ وہ دوبارہ پولنگ کا مطالبہ بھی نیم دِلانہ انداز سے کر رہے ہیں‘ کیونکہ دل کے کسی دور افتادہ گوشے میں یہ خوف بھی لاحق ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ دوبارہ پولنگ کے نتیجے میں وہ بھی ہاتھ سے جاتا رہے جو بھاگتے چور کی لنگوٹی کے مِصداق بچ پایا ہے!
بیان بازی کے ''مَلاکھڑے‘‘ نے بہت سے معاملات کو چِت کرنے کی کوشش کی ہے‘ اس لیے لازم سا ہوگیا ہے کہ سامنے آکر اس سلسلے کو روکنے کی کوشش کی جائے۔ تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان کو کراچی میں معاملات درست اور ہم آہنگی کا ماحول برقرار رکھنے کی خاطر مداخلت کرتے ہوئے فردوس شمیم نقوی کو ایم کیو ایم کے خلاف بیان بازی سے مجتنب رہنے کے لیے کہنا پڑا ہے۔ عمران خان نے جمعرات کو بنی گالہ میں پی ٹی آئی کے نومنتخب ارکانِ سندھ اسمبلی کے ساتھ اجلاس کیا جس میں فیصلہ کیا گیا کہ سندھ میں پیپلز پارٹی کو ٹف ٹائم دیا جائے گا۔ اور پیپلز پارٹی کو ٹف ٹائم دینے کے لیے لازم ہے کہ محض گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس پر بھروسا نہ کیا جائے بلکہ ایک قدم آگے جاکر ایم کیو ایم کو بھی گلے لگایا جائے۔ ایم کیو ایم کے لیے پیپلز پارٹی کے خلاف جانا قرینِ دانش ہے یا نہیں‘ اِس سے قطعِ نظر حقیقت یہ ہے کہ پی ٹی آئی اپنے کارڈز عمدگی سے کھیلنا چاہتی ہے۔
فردوس شمیم نقوی نے ایم کیو ایم سے ہم آہنگی پیدا کرنے کو ''نظریۂ ضرورت‘‘ قرار دیا تھا۔ اس بیان پر ایم کیو ایم کی قیادت تھوڑی سی برہم دکھائی دی ہے۔ اگر یہ بات کسی اور یعنی مخالف جماعت نے کہی ہوتی تو کوئی بات نہ تھی۔ خود پی ٹی آئی کی صفوں سے اس نوع کا بیان ان صفوں میں پائے جانے والے فکری انتشار کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ اقتدار کے ابتدائی راؤنڈ میں اس نوعیت کے بیانات سے بہت کچھ داؤ پر لگ سکتا ہے۔ عمران خان کہہ چکے ہیں کہ جب تک کراچی میں ہمہ گیر ترقی ممکن نہیں ہوگی‘ تب تک ملک بھی ترقی نہیں کرسکے گا۔ انہوں نے فردوس شمیم نقوی کو ہدایت کی کہ وہ بات کرتے وقت احتیاط برتیں اور تلوار کو نیام میں رکھیں۔ کوئی معترض ہوسکتا ہے کہ عمران خان نے تلوار کے وجود کو تسلیم کیا ہے ‘مگر ہمیں یہ دیکھنا پڑے گا کہ انہوں نے تلوار کے ساتھ ساتھ نیام کے وجود کو بھی تسلیم کیا ہے اور فی الحال نیام کو زحمتِ کار دینے پر زور دیا ہے۔ یہ ان کی طرف سے مثبت اشارہ ہے جس کا خیر مقدم کیا جانا چاہیے۔ بیان بازی وہ تلوار ہے جس نے اب تک خاصا قتلِ عام کیا ہے۔ عمران خان نے فردوس شمیم نقوی سے وہی شکوہ کیا ہے جو جون ایلیا نے کیا تھا ؎
تیغ بازی کا شوق اپنی جگہ
آپ تو قتلِ عام کررہے ہیں!