"MIK" (space) message & send to 7575

ہاں مگر حوصلہ نہیں ہوتا

تین کام ایسے ہیں‘ جن کے لیے مرزا تنقید بیگ کو صرف بہانہ درکار ہوا کرتا ہے۔ اوّل پریشان ہونا‘ دوم دوسروں کا ناک میں دم کرنا اور سوم بیگمات پر تبّرا بھیجنا اور سچ تو یہ ہے کہ حالات نے اُن پر (گھر کی چار دیواری میں) اتنے ستم ڈھائے ہیں کہ اُن کی طرف سے خواتین خانہ پر لعن طعن اور طنز و تشنیع حیرت انگیز لگتی ہے ‘نہ زیادہ قابلِ گرفت۔ 
پُرانی شراب نئی بوتل میں پیش کرنے کا ہنر ‘اگر کسی پر ختم ہے‘ تو وہ ہیں ماہرین اور محققین۔ سیف الدین سیفؔ مرحوم کا مقطع ہے ؎ 
سیفؔ! اندازِ بیاں بات بدل دیتا ہے 
ورنہ دنیا میں کوئی بات نئی بات نہیں 
ایسا لگتا ہے کہ ماہرین اور محققین نے اس مصرع کو دانتوں سے پکڑ رکھا ہے۔ ذہن کہاں تک نئی بات سوچ سکتا ہے‘ کتنی جدت پیدا کرسکتا ہے؟ ظاہر ہے اس کی کوئی نہ کوئی حد تو آنی تھی‘ سو آچکی ہے۔ ایک زمانے سے ماہرین کا وتیرہ رہا ہے ‘لوگوں کو پریشان کرنا اور پریشانی کا سامان وہ مسائل کی نشاندہی کے ذریعے کرتے ہیں۔ بہت سے لوگوں کی زندگی میں سو طرح کے مسائل ہوتے ہیں ‘مگر انہیں اس کا احساس تک نہیں ہوتا۔ ماہرین انہیں احساس دلاتے ہیں کہ اُن کی زندگی میں مسائل ہیں اور انہیں ان مسائل کے باعث پریشان بھی ہونا چاہیے! کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان اپنی پریشانیوں کو بُھولنے یا ذہن کے کسی بہت ہی دور دراز گوشے میں منتقل کرکے سکون سے جی رہا ہوتا ہے‘ مگر ماہرین سے یہ سب برداشت یا ہضم نہیں ہو پاتا اور وہ دبے یا چھپے ہوئے مسائل کو اجاگر کرکے پریشانی کا سامان کرتے ہیں۔ ازواجی یا گھریلو زندگی میں درجنوں دکھڑے‘ سیکڑوں جھمیلے ہوتے ہیں۔ لوگ خاصی مشقّت سے یہ سب کچھ بھول چکے ہوتے ہیں ‘مگر ماہرین کی مہربانی سے یہ سب کچھ بھولا ہوا پھر یاد آنے لگتا ہے اور دل ہچکولے کھانے لگتا ہے۔ 
گھریلو زندگی سے متعلق تحقیق کے نام پر ایک بار پھر کامیڈی کا اہتمام کیا گیا ہے۔ برطانوی ماہرین کا کہنا ہے کہ امور خانہ داری میں مگن خواتین کی زندگی غیر معمولی حد تک پرسکون ہوتی ہے‘ جو خواتین گھر کے کام کاج میں بھرپور دلچسپی لیتی ہیں‘ اُن میں ذہنی پیچیدگی مشکل سے پیدا ہوتی ہے۔ گھریلو ذمہ داریاں خواتین کو نفسی‘ حِسّی اور عصبی طور پر متوازن رکھتی ہیں۔ ماہرین نے خاص طور پر کپڑے دھونے کا ذکر کیا ہے۔ اُن کا استدلال ہے کہ کپڑے دھونے کا عمل خواتین کے دل و دماغ کو خاص نوعیت کی تسکین بخشتا ہے۔ کپڑوں سے میل اتارنا گویا ذہن سے میل کی پرتیں اتارنا ہے۔ 
ماہرین نے جو نکتہ آفرینی کی ہے‘ اُسے درست اور برمحل ثابت کرنے کے لیے نفسی‘ حِسّی اور عصبی جیسی نامانوس قسم کی اصطلاحات کا سہارا لینے کی چنداں ضرورت نہ تھی۔ دنیا کی ہر عورت اچھی طرح جانتی ہے کہ اُس کی زندگی میں اگر سکھ آسکتا ہے ‘تو صرف اُس وقت جب وہ اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کرے اور اس حوالے سے میدانِ عمل میں بھی اترے۔ یہ اس قدر آسان اور سامنے کی بات ہے کہ خواتین کے ذہن نشین کرانے کے لیے کسی ماہرِ نفسیات کی ضرورت نہیں‘ مگر مسئلہ خواتین کو مسئلہ سمجھانے کا نہیں‘ اُس کے حل کی طرف مائل کرنے کا ہے۔ اس دنیا میں جو کچھ بھی اچھا ہے ‘وہ سب جانتے ہیں ‘مگر اُس اچھے کو اپنانے کے لیے دل کو سمجھانا پڑتا ہے‘ ذہن کو رام کرنا پڑتا ہے۔ معاملات کو درست کرنے کے لیے آمادہ بہ عمل ہونے میں دل بہت وقت لیتا ہے۔ غالبؔ نے کہا ہے ؎ 
جانتا ہوں ثوابِ طاعت و زہد 
پر طبیعت اِدھر نہیں آتی! 
یہ معاملہ خواتین خانہ کا بھی ہے۔ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ برتن اور کپڑے دھونے سے سکون ملتا ہے ‘مگر برتن اور کپڑے دھونے پر انہیں مائل کرنا (اور وہ بھی یومیہ بنیاد پر) ایک ایسا ''ٹاسک‘‘ جس کے لیے ماہرین کی کئی ٹاسک فورسز بھی مل کر کام کریں‘ تو کامیابی کی ضمانت نہیں دی جاسکتی! 
جو کچھ ماہرین نفسیات بیان کر رہے ہیں‘ وہ دنیا والوں کی نظر میں کسی حد تک وقعت کا حامل ضرور ہوگا‘ مگر ایک بات ہم آپ کے سامنے ضرور رکھنا چاہتے ہیں ... اور وہ بات یہ ہے کہ خواتین کی ذہنی درستی کے بہت سے نسخے ہم بھی جانتے ہیں اور یہ بات بھی ہم بخوبی جانتے ہیں کہ گھریلو کام کاج میں مصروف ہو جانا ‘خواتین کی ذہنی صحت کے لیے لازم ہے‘ مگر بات یہ ہے کہ ماہرین صرف مسئلہ بیان کرتے ہیں اور کبھی کبھی حل بھی بتادیتے ہیں‘ مگر یہ نہیں بتاتے کہ اُس حل کو عمل کی دہلیز تک کیسے پہنچایا جائے۔ سوال گھنٹی تیار کرنے کا نہیں‘ بلی کے گلے میں گھنٹی باندھنے کا ہے! 
فی زمانہ خواتین کی ''مصروفیات‘‘ اس قدر ہیں کہ انہیں گھریلو ذمہ داریوں کی طرف مائل کرنا‘ جُوئے شیر لانے سے کم ہرگز نہیں۔ برتن اور کپڑے دھونے سے ملنے والی راحت وہ موبائل فون پر پیکیجز کے ذریعے مخالفین کی زبانی دُھلائی سے پاتی ہیں! اس کے علاوہ سمارٹ فون پر انٹر نیٹ کے ذریعے ڈرامے اور دنیا بھر کے ویڈیو کلپس دیکھنے کا یومیہ معمول بھی تو ہے ‘جو کسی طور جان نہیں چھوڑتا۔ ایسے میں روایتی قسم کی گھریلو ذمہ داریاں کہاں سے بیچ میں آکر سارا مزا کِرکِرا کردیتی ہیں۔ 
ایسا نہیں ہے کہ خواتین اپنی فطری اور روایتی ذمہ داریوں سے سبک دوش نہیں ہونا چاہتیں۔ ہم سُوئے ظن نہیں رکھتے ‘ورنہ لکھ مارتے کہ خواتین کو گھریلو ذمہ داریوں سے بخوبی سبک دوش ہونے سے کچھ بھی شغف نہیں ‘مگر کرکے اللہ کو منہ دکھانا ہے ‘اس لیے از راہِ احتیاط یہی کہنا چاہیں گے کہ خواتین گھریلو کام کاج بھی کرنا چاہتی ہیں‘ مگر کم بخت ٹیلی کام ٹیکنالوجی جان نہیں چھوڑتی! بقول جگرؔ ؎ 
آشیاں کے جو اٹھالوں تِنکے 
اپنے ٹوٹے ہوئے پَر دیکھوں میں 
بعض خواتین اپنے غیر گھریلو معمولات میں اِتنی گم ہو جاتی ہیں کہ پھر اُنہی کو گھریلو معمولات کا درجہ دے بیٹھتی ہیں۔ روزانہ پیکیج پر تین چار گھنٹے باتیں کرنا انتہائے معمول کا درجہ پالیتا ہے‘ اگر اُن سے کہیے کہ گھر میں سارے کام ادھورے یا بے کِیے پڑے ہیں‘ تو جواب ملتا ہے ؎ 
اپنے ہی غم سے نہیں ملتی نجات 
اس بناء پر فکرِ عالم کیا کریں! 
ماہرین نے ایک بار پھر احسان فرمانے کی کوشش کرتے ہوئے ہمیں زیربار کرنا چاہا ہے۔ مسائل تو ہم بھی جانتے ہیں اور اُن کا حل بھی معلوم ہے‘ مگر مسئلہ یہ ہے کہ جن کے ذریعے مسائل حل ہونے ہیں‘ انہیں مائل بہ عمل کیونکر کیا جائے۔ یہی وہ مرحلہ ہے‘ جہاں پہنچ کر ساری کی ساری ہمت جواب دے جاتی ہے۔ سوچتے سوچتے جب اس مرحلے تک پہنچتے ہیں ‘تو یہ سوچ کر دل تنگی سی محسوس کرنے لگتا ہے کہ ع 
مقطع میں آ پڑی ہے سخن گسترانہ بات! 
خواتین خانہ سے بہت کچھ کرنے کو کہا جاسکتا ہے۔ کہا جاسکتا ہے ... مگر کہا نہیں جاتا! یعنی بے چارے ''مردان خانہ‘‘ کہہ نہیں پاتے۔ کیوں؟ سیدھی سی بات ہے کہ ؎ 
حوصلہ ہو تو کیا نہیں ہوتا 
ہاں مگر حوصلہ نہیں ہوتا 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں