اس دنیا کی ہر ریت نرالی دکھائی دیتی ہے‘ مگر درحقیقت وہ نرالی ہوتی نہیں۔ اس دنیا ہی پر کچھ موقوف نہیں‘ پوری کائنات طے شدہ اصولوں پر کام کرتی ہے۔ پہچاننے والی نظر ہونی چاہیے‘ حقیقت کے درشن ہو ہی جاتے ہیں۔ اس وقت پاکستان بھی ایسی صورتِ حال سے دوچار ہے‘ جو ہے کچھ اور دکھائی کچھ دے رہی ہے۔ بہت سے عوامل ہیں‘ جو انتہائی خوف میں مبتلا کرنے کے لیے کافی ہیں۔ یہ سب کچھ خود بخود نہیں ہو رہا‘ بلکہ ماحول بنایا جارہا ہے۔
امریکا اور چین کے درمیان ایک ڈیڑھ عشرے کے دوران پروان چڑھنے والی سرد جنگ میں تھوڑی بہت گرمی بھی پائی جارہی ہے۔ دونوں طاقتیں عالمی سیاست و معیشت میں اپنے اپنے مفادات کو زیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ دونوں نے احتیاط سے کام لیتے ہوئے وہی کچھ کیا ہے‘ جو بڑی طاقتیں کیا کرتی ہیں۔ خود لڑنے کی بجائے وہ اپنے اپنے جانبازوں کو آگے کر رہی ہیں۔ امریکا چاہتا ہے کہ چین کو اس حد تک دبوچ لیا جائے کہ وہ ڈیڑھ دو عشروں تک اپنے خطے سے آگے نہ بڑھ سکے۔ ساتھ ہی ساتھ وہ بھارت اور چند دوسرے حاشیہ برداروں کے مفادات کا تحفظ بھی چاہتا ہے۔ اس کے لیے وہ چین کو کہیں کہیں تھوڑی بہت عسکری قوت کے استعمال پر اُکسانے کی بھرپور کوشش بھی کر رہا ہے۔ چین کا کمال یہ ہے کہ وہ طاقت کے اضافے کے عمل کو اس طور جاری رکھے ہوئے ہے کہ کہیں بھی طاقت بروئے کار لانے کی ضرورت پیش نہیں آرہی!
چین نے عالمی سیاست و معیشت میں اپنا حصہ بڑھانے کے لیے ون بیلٹ ون روڈ کے زیر عنوان جو بڑا قدم اٹھایا ہے‘ اُسے یقینی بنانے کا ایک اہم مرحلہ پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) بھی ہے۔ اس حوالے سے پاکستان میں کم و بیش 75 ارب ڈالر لگائے جانے ہیں۔ چین کے تجارتی بینک سرمایہ لگا رہے ہیں۔ چین کو اچھی طرح معلوم ہے کہ سی پیک کو یقینی اور آپریشنل بنائے‘ بغیر ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کو بھی ممکن نہیں بنایا جاسکتا۔ پاکستان کا محلِ وقوع‘ اُسے چین کے لیے انتہائی پرکشش بناتا ہے۔ سیاست و معیشت کے کسی بھی بڑے کھیل میں سب کچھ مزے کا نہیں ہوتا۔ بہت کچھ ملتا ہے‘ تو بہت کچھ دینا بھی پڑتا ہے۔ یہ تو پالیسی میکرز کی صلاحیتوں کا امتحان ہے کہ وہ قومی مفادات کو خطرے میں ڈالے بغیر زیادہ سے زیادہ فوائد بٹورنے کی راہ ہموار کریں۔ پاکستان کے پالیسی میکرز نے اس حوالے سے کتنی تیاری کی ہے یہ تو آنے والا وقت بتائے گا‘ چین‘ امریکا اور بھارت البتہ غیر معمولی حد تک متحرک دکھائی دے رہے ہیں۔ چین اور امریکا کا فعال ہونا تو سمجھ میں آتا ہے۔ بھارت کا جاگ اٹھنا یوں حیرت انگیز ہے کہ سی پیک منصوبہ بظاہر اُس کے لیے زیادہ موافق نہیں۔ یہ الگ بات کہ ہر معاملے میں نظریۂ سازش تلاش کرنے والے نئی دہلی کے بزرجمہر‘ یہ ثابت کرنے کے لیے کوشاں ہیں کہ سی پیک کے لیے بھارت کو حصار میں لینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ حد یہ ہے کہ نیپال اور بنگلہ دیش میں چین کی طرف سے سرمایہ کاری کی کوششوں کو بھی ناکام بنانے کے لیے اُن میں سازش کی بُو تلاش کرنے پر توجہ مرکوز ہے۔
پاکستان کی چند ایک مشکلات دیکھ کر بھارتی میڈیا کے پیٹ میں غضب کا مروڑ اٹھا ہے۔ خدشات اور تحفظات کے ڈھیر لگائے جارہے ہیں۔ کوشش کی جارہی ہے کہ کسی نہ کسی طور پاکستان کو ناکام ریاست ثابت کردیا جائے۔ اب سرکردہ بھارتی اخبارات منظّم انداز سے پروپیگنڈا کر رہے ہیں کہ چین کے سرکردہ بینک پاکستان میں سرمایہ کاری کرتے ہوئے ہچکچا رہے ہیں۔ سبب اس کا یہ بیان کیا جارہا ہے کہ پاکستانی کرنسی کی گرتی ہوئی قدر نے چینی سرمایہ کاروں کو تذبذب میں مبتلا کردیا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ پاکستان میں نئی حکومت کو متعدد معاشی چیلنجز کا سامنا ہے۔ ایک طرف اندرون ملک مہنگائی کے جن کو بوتل میں رکھنا ہے۔ دوسری طرف روپے کی قدر میں گراوٹ روکنے کے لیے برآمدات کے گراف کی بلندی یقینی بنانی ہے۔ بھارتی میڈیا میں اس بات پر بھی دبے دبے انداز سے مسرّت کا اظہار کیا جارہا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان کے لیے کسی بھی نوع کے بیل آؤٹ پیکیج کی مخالفت کرنے کا عندیہ دیا ہے۔
پاکستان میں ایک اہم مرحلے پر حکومت کی تبدیلی سے امریکا اور بھارت دونوں بھرپور فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ پاکستانی معیشت میں کمزوری کے آثار ہیں۔ سیاسی استحکام کی سطح کو بھی اطمینان بخش قرار نہیں دیا جاسکتا۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈز (آئی ایم ایف) سے بیل آؤٹ پیکیج لینے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ پاکستان کو معاشی بحران پر قابو پانے کے لیے کم و بیش 10 ارب ڈالر کا پیکیج درکار ہے۔ امریکی دباؤ پر آئی ایم ایف بھی سخت تر شرائط منوانے کی کوشش کرے گا اور اگر ایسا تو عمران خان اپنے تمام ارادوں کو بخوبی عملی جامہ پہنانے میں ناکامی کا سامنا بھی کرسکتے ہیں۔
چین اور ترکی کو نشانہ بنانے کے ساتھ ساتھ پاکستان کو بھی گھیرے میں لینے کے لیے بُری نظر اور بُری نیت رکھنے والے لنگوٹ کس کر میدان میں آگئے ہیں۔ جنگل میں جب شیر کو کسی سمت بھیجنا مقصود ہو تو ہانکا لگایا جاتا ہے۔ سو ڈیڑھ سو افراد مل کر شور مچاتے ہیں اور برتن یا ڈرم وغیرہ بجاتے ہیں‘ تاکہ شیر گھبراکر مخالف سمت جائے اور مخالف سمت ہی مطلوب و مقصود ہوتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ امریکا اور اُس کے حاشیہ بردار ہانکا لگاکر پاکستان کو بھی کسی پریشان کن سمت بھیجنا چاہتے ہیں۔ نشانے پر صرف پاکستان نہیں‘ بلکہ پاکستان کو تیسرے یا چوتھے نمبر پر ہے۔ چین اور ترکی کو امریکا اور اُس کے حاشیہ برداروں نے بالخصوص نشانے پر لے رکھا ہے۔ پاکستان کے خلاف ہانکا ذرا زور سے لگایا جارہا ہے۔ بھارت اِس معاملے میں اپنا روایتی کردار ادا کرنے پر تُلا ہوا ہے۔ تعلقات بہتر بنانے پر توجہ دینے کی بجائے پاکستان سے فاصلے بڑھانے پر دھیان دیا جارہا ہے۔
ملک میں اقتدار کی منتقلی کا عمل مکمل ہوچکا ہے۔ عمران خان وزیر اعظم بن چکے ہیں۔ اُنہیں درپیش چیلنج کم نہیں۔ اب اُن کی صلاحیت اور سکت دونوں کا بھرپور امتحان شروع ہونے والا ہے۔ اندرونی سلامتی اور معاشی استحکام یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ انہیں بیرونی قوتوں کو بھی منہ دینا ہے۔ امریکا مخالفت اور بھارت مخاصمت پر تُلا ہوا ہے۔ چین کا ساتھ دینے کی پاداش میں ترکی کو بہت کچھ جھیلنا پڑ رہا ہے۔ یہی کچھ ہمارے ساتھ بھی ہوسکتا ہے۔ اِس کے لیے ہمیں ابھی سے تیاری کرنی ہے۔ ہانکا لگانے والوں سے ہمیں ہوشیار رہنا ہے۔ خوف کا ماحول پیدا کرکے ہمارے لیے الجھنیں بڑھانے کی بھرپور کوشش کی جارہی ہے اور کی جاتی رہے گی۔ جن کی نیت میں فتور ہے وہ اپنا کام کرتے رہیں گے۔ ہمیں اپنا کام کرتے رہنا ہے۔ زیادہ ڈرنے اور گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ ہمیں بہت کچھ پانا ہے اور کھونے کے لیے کچھ خاص ہمارے پاس نہیں۔ ایسے میں تھوڑی سی جی داری درکار ہے۔ ہانکا لگانے والوں سے گھبرانے کی بجائے شیر کی طرح برتنے کی ضرورت ہے اور یہ نکتہ قومی قیادت کے ذہن نشین رہے کہ اب شیر کی طرح جیے بغیر چارہ نہیں!