"MIK" (space) message & send to 7575

سب سے پہلے … اُمید!

ایک اور ابتداء ہوچکی ہے۔ ایک بار پھر جوش و خروش کا دریا عالمِ طغیانی میں ہے۔ ہونا بھی چاہیے۔ ہر نئی ابتداء ایسا ہی ماحول چاہتی ہے۔ حق یہ ہے کہ پاکستانی قوم خاصی طویل مدت کے بعد کچھ سوچتی‘ کچھ سمجھتی دکھائی دے رہی ہے۔ توقعات وابستہ کرنے کی گھڑی پہلے بھی آتی رہی ہے‘ اُمیدوں کے در پر سجدہ ریز ہونے کے لمحات بھی میسر ہوتے رہے ہیں‘ مگر اب کے کچھ الگ ہی بات ہے۔ 
وزیر اعظم کی حیثیت سے قوم سے پہلے خطاب میں تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان نے جو کچھ کہا‘ اُس پر قوم آمنّا و صدقنا کہہ رہی ہے۔ ایک زمانے کے بعد کچھ ایسا سُننے کو ملا جو اہلِ وطن کے دل کی آواز پر مشتمل تھا۔ مخمصے ہیں کہ جان نہیں چھوڑتے۔ کئی عشروں کے دوران پنپنے والی بے یقینی اور بے دلی نے معاملات کو اتنا الجھا دیا ہے کہ جھوٹ تو جھوٹ‘ اب سچ بھی دلاسے دینے کی پوزیشن میں دکھائی نہیں دیتے۔ گویا ؎ 
دل میں ارمان ہی ذرا سے ہیں 
جھوٹ کیا‘ سچ بھی اب دلاسے ہیں 
اچھا خاصا ملک ‘مسائلستان میں تبدیل ہوکر رہ گیا ہے۔ ہر مسئلہ اپنی جگہ قوم کا سب سے بڑا مسئلہ دکھائی دیتا ہے۔ ع 
جو ذرّہ جس جگہ ہے وہیں آفتاب ہے 
ایک بڑا مسئلہ یہ بھی تو ہے کہ کئی بار حکومت تو آئی ہے‘ قیادت نہیں آئی۔ عوام کی نبض پر ہاتھ رکھنے والی قیادت کی ضرورت ایک زمانے سے محسوس کی جاتی رہی ہے‘ مگر کسی میں اتنا یارا نہ تھا کہ قوم کی آرزوؤں اور امنگوں کے مطابق کچھ کرنے کا عزم لے کر میدان میں اترتا‘ کچھ ایسا کرکے دکھاتا‘ جس کے مشاہدے سے قوم کی ڈھارس بندھتی‘ سوئی ہوئی آس جاگتی‘ آگے بڑھنے کا جذبہ کسی نہ کسی حد تک بیدار ہوتا اور یہ یقین بھی آنکھیں ملتا ہوا اٹھ بیٹھتا کہ اب کچھ نیا ہوگا‘ کچھ نیا دکھائی دے گا۔ 
عمران خان بھی خیر اب نوجوان نہیں رہے۔ وہ عمر کی ساتویں دہائی کے وسط میںکھڑے ہیں۔ ایسی حالت میں قویٰ جواب دینے کا آغاز کرچکتے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ وہ کھلاڑی ہیں اور اب تک چاق و چوبند رہنے پر بھی یقین رکھتے ہیں۔ اُن کے معمولات میں ورزش اور بیدار مغزی نمایاں ہے اور یہی بنیادی وصف اس وقت قومی سیاست کو بھی درکار ہے۔ قوم کو ایسا قائد چاہیے ‘جو محض منصب نہ رکھتا ہو‘ واضح عزائم اور یقینِ کامل کا بھی حامل ہو۔ عمران خان نے اب تک تو ثابت کیا ہے کہ وہ کچھ نہ کچھ نیا کرنے کا عزم بھی رکھتے ہیں اور سکت بھی۔ خیبر پختونخوا میں اُنہوں نے پرویز خٹک کے ذریعے ایک اچھی اننگز کھیلی اور اسی کے نتیجے میں انہیں حکومت کا تسلسل برقرار رکھنے کا موقع بھی ملا ہے۔ یہ موقع انہیں کسی بھی طور ضائع نہیں کرنا ہے۔ اور اب وفاق کے ساتھ ساتھ پنجاب میں بھی حکومت بنانے کا موقع ملا ہے‘ تو اُن پر ذمہ داری کا بوجھ بڑھ گیا ہے۔ ایسے میں اُنہیں زیادہ محنت کرنی ہے‘ زیادہ اور اچھے نتائج دکھانے ہیں۔ 
عمران خان نے پہلے خطاب میں جو کچھ کہا ہے وہ بہت اُمید افزاء ہے۔ نئی نسل بے چینی سے نتائج کا انتظار کر رہی ہے۔ محنت کش طبقہ ایک زمانے سے اچھے وقت کا منتظر ہے۔ مسائل کی گٹھڑی سر پر دھری ہے۔ ایسے میں صرف امید ہی رہ گئی ہے‘ جس کا دامن تھام کر دل و دماغ کو تھوڑی بہت راحت دی جاسکتی ہے اور دی جارہی ہے۔ قدم قدم پر حوصلہ شکن حالات ہیں۔ ملک اندرونی اور بیرونی مسائل سے گِھرا ہوا ہے۔ قوم چاہتی ہے کہ چھوٹے بڑے تمام مسائل جلد از جلد حل ہوں۔ مسئلہ یہ ہے کہ بنیادی مسائل بھی ڈھنگ سے حل نہیں ہو پارہے۔ ایسے میں بڑے اور زیادہ پیچیدہ مسائل کے حل کی راہ ہموار کرنا جُوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ 
عمران خان کی باتوں نے اُمید کی شمع روشن تو کی ہے‘ مگر خود انہیں بھی اندازہ ہونا چاہیے کہ معاملات آسان نہیں ہیں۔ قدم قدم پر احتیاط کا دامن تھامے رہنا ہے‘ جو بات بھی کرنی ہے‘ سنبھل کر کرنی ہے۔ بڑی طاقتوں سے جو بھی معاملہ طے کرنا ہے‘ اُس میں دانش مندی اور برد باری نمایاں ہونی چاہیے اور اِدھر ملک میں بھی ایسے لوگ کم تعداد میں نہیں‘ جو انہیں ناکام دیکھنے کے خواہاں ہیں۔ ایسے تمام لوگوں کی توقعات اور امیدوں کو خاک میں ملانا بھی عمران خان کے لیے مینڈیٹری اوورز کے دوران وکٹ پر کھڑے رہنے اور میچ کو بچا لے جانے کا تقاضا کرتا ہے۔ انہیں ایک بار پھر ثابت کرنا ہے کہ ان کے اعصاب انتہائی مضبوط ہیں اور یہ کہ کسی بھی صورتِ حال کے تقاضوں کو نبھانے کی صلاحیت اور سکت ان میں ابھی پائی جاتی ہے۔ 
نئی حکومت کے سربراہ کی حیثیت سے عمران خان کو یاد رکھنا ہے کہ اس وقت قوم صرف اُمید کے بھروسے پر جی رہی ہے۔ نئی نسل کچھ نیا دیکھنا چاہتی ہے۔ اور من حیث المجموع پوری قوم تبدیلی کی ایسی لہر دیکھنا چاہتی ہے‘ جس میں اور کچھ نہ سہی‘ بنیادی مسائل تو ڈھنگ سے حل ہوتے دکھائی دیں۔ اُمید ہی کا دامن تھام کر قوم نے عمران خان کو مینڈیٹ دیا ہے۔ وہ وزیر اعظم کے منصب پر فائز ہوئے ہیں ‘تو یہ سمجھ لیں انہیں کانٹوں کی سیج ملی ہے۔ کوئی معمولی سی بھی غلطی یا غفلت انہیں شدید ناکامی کی طرف دھکیل دے گی۔ ان کی کامیابی کا مشاہدہ کرنے کے لیے جتنی آنکھیں بے تاب ہیں ‘اُن سے زیادہ آنکھیں انہیں ناکام دیکھنے کی متمنی ہیں۔ بس یہ سمجھ لیجیے کہ ع 
اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے 
اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ عمران خان نے پاکستان کی نئی نسل کو اُمید بخشی ہے‘ زندگی زیادہ جوش و خروش اور ولولے کے ساتھ بسر کرنے کا عزم بخشا ہے‘ مگر بات یہیں تک نہیں رک جانی چاہیے۔ ع 
بڑھتی رہے یہ روشنی‘ چلتا رہے یہ کارواں 
عزم سلامت رہنا چاہیے‘ حوصلہ برقرار رہنا چاہیے‘ صلاحیت و سکت کو بروئے کار لانے کی لگن میں دم خم باقی رہنا چاہیے۔ یہ سب کچھ اُسی وقت ہوسکے گا جب معاملہ باتوں تک محدود نہ رہے‘ بلکہ کچھ کر دکھانے پر بھی پورا یقین رکھا جائے۔ عمران خان عملی آدمی ہیں۔ انہوں نے کھلاڑی کی حیثیت بھی اچھی اننگز کھیلی ہے اور کھلاڑیوں کے قائد کی حیثیت سے بھی۔ اب کے انہیں جو کھلاڑی ملے ہیں وہ کھلاڑی نہیں‘ بلکہ کھلاڑیوں کے کھلاڑی ہیں۔ سیاست دانوں سے نپٹنا ہما شما کے بس کی بات ہیں۔ ع 
قدم قدم پہ یہاں احتیاط لازم ہے 
عمران خان کو سیاست کے طلسمات میں بہت سنبھل کر چلنا ہے اور مڑ کر دیکھنے کی ‘ تو بالکل گنجائش نہیں‘ کیونکہ ع 
مڑکے دیکھو گے تو ہو جاؤ گے تم پتھر کے 
خیر چاہنے والے تو خیر کم ہی ہوتے ہیں۔ عمران خان کو یہ نکتہ ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ ان کی بھرپور کامیابی کے خواہاں کم ہیں۔ یہ صورتِ حال غیر معمولی دانش چاہتی ہے۔ دانش کا مظاہرہ ہی بتائے گا کہ ان میں قوم کی اُمیدوں کو زیادہ سے زیادہ بارآور ثابت کرنے کی صلاحیت اور سکت کس حد تک ہے۔ بہر کیف‘ پہلے خطاب میں جو کچھ عمران خان نے کہا ہے اُس کے عملی مظاہر یقینی بنائے جائیں گے‘ یہی امید رکھی جانی چاہیے۔ سب سے پہلے پاکستان والی بات بھی غلط نہیں‘ مگر اس وقت سب سے پہلے اُمید ... کیونکہ اُمید پہ دنیا قائم ہے!

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں