ایک بار پھر ہم دو راہے پر کھڑے ہیں۔ تقدیر بار بار دو راہے پر پہنچا دیتی ہے۔ یہ محض اتفاق یا حُسنِ اتفاق ہی ‘بلکہ ہمارے ہی افکار و اعمال کا صریح منطقی نتیجہ ہے۔ کوئی بھی حقیقت اپنی جگہ نہیں چھوڑتی‘ کبھی نہیں بدلتی۔ بدلنے کا فریضہ ہمیں انجام دینا ہے۔ ہمیں اپنے افکار و اعمال کا جائزہ لیتے رہنا ہے‘ بدلتے رہنا ہے‘ تاکہ بدلتی ہوئی دنیا کے تقاضوں کو احسن طریقے سے نبھانا ہمارے لیے مشکل سے مشکل تر نہ ہوتا جائے۔
ایک بار پھر دو راہے پر کھڑے ہم سوچ رہے ہیں کس طرف جائیں۔ ایک طرف ترقی اور خوش حالی کا راستہ ہے اور دوسری طرف پس ماندگی کا جانا پہچانا آپشن۔ ترقی اور خوش حالی کے راستے پر سفر آسان نہیں۔ بہت کچھ چھوڑنا ہے‘ بہت کچھ اپنانا ہے۔ صلاحیتوں کو پروان چڑھاکر اُنہیں بروئے کار بھی لانا ہے۔ خیر‘ یہ کیفیت کئی بار وارد اور طاری ہوئی ہے۔ ہم نے متعدد مواقع پر اپنے انفرادی اور اجتماعی وجود کو ایک نیا رنگ دینے کی ٹھانی ہے‘ کچھ ایسا کرنے کا سوچا ہے جو زندگی کو ایک نیا رخ دے دے‘ معاملات کو ایک نئی راہ پر ڈال دے۔ مگر تذبذب ہے کہ جان نہیں چھوڑتا۔ ؎
ارادے باندھتا ہوں‘ سوچتا ہوں‘ توڑ دیتا ہوں
کہیں ایسا نہ ہو جائے‘ کہیں ویسا نہ ہو جائے!
ہم نے کئی بار اپنے آپ سے عہد کیا ہے کہ ملک کو نیا چہرہ دیں گے اور یہ نیا چہرہ ایسا ہوگا کہ دنیا دیکھے تو دیکھتی رہ جائے۔ ولولہ موجیں مارتے ہوئے دریا کے مانند ہوتا ہے۔ مگر پھر یہ ہوتا ہے کہ کچھ ہی دیر میں سارا جوش سمندر کے جھاگ کی طرح بیٹھ جاتا ہے۔
ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اس سوال پر غور کرنے کی زحمت ہم گوارا نہیں کرتے۔ محض جوش و جذبے سے سرشار ہونا کافی نہیں ہوا کرتا۔ ولولہ بڑی دولت ہے مگر محض ولولہ بڑی دولت نہیں۔ عمل کا جذبہ اُسی وقت بروئے لایا جاسکتا ہے جب سوچ پختہ ہو‘ ارادے مضبوط ہوں۔ اور ایسا اُسی وقت ہوسکتا ہے جب ہم حقیقت پسندی کے دائرے میں رہتے ہوئے سوچنا شروع کریں۔ زمینی حقائق ہم سے متوازن اور معقول سوچ کا تقاضا کرتے ہیں۔ عقل جو کچھ کہتی ہے وہ حقائق ہی کا عکس ہوتا ہے۔ جب ہم اپنے ماحول کا بغور جائزہ لینے کے بعد حقیقت پسند رویّے کے ساتھ کسی نتیجے تک پہنچتے ہیں تب ہمارے ارادوں میں معقولیت اور پختگی پیدا ہوتی ہے۔ اور یہی پختگی کسی نئے کام کے لیے ذہنی تیاری میں مدد دیتی ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم سوچ کے لحاظ سے کس منزل میں ہیں اور کیا کرنا چاہتے ہیں۔ پاکستانی معاشرہ مجموعی طور جذبات سے لبریز ہے۔ لوگوں میں غیر معمولی جوش و خروش پایا جاتا ہے۔ قدم قدم پر جذباتیت دکھائی دیتی ہے۔ یہ جذباتیت سراسر منفی نتائج پیدا کر رہی ہے۔ اسے مثبت نتائج کی راہ ہموار کرنے کے لیے بھی بروئے کار لایا جاسکتا ہے‘ مگر یہ سب کچھ دیکھتے ہی دیکھتے یا راتوں رات نہیں ہوسکتا۔ مثبت اور پختہ سوچ اپنانے کے لیے ہمیں بہت سے مراحل سے گزرنا پڑے گا۔
ایک نیام میں دو تلواریں نہیں رہ سکتیں۔ ایسا ہی معاملہ منفی اور مثبت سوچ کا ہے۔ ذہن میں بیک وقت یکسر مخالف نوعیت کے خیالات سما نہیں سکتے۔ ایسا کرنے کی کوشش کی جائے‘ تو ذہن کی کارکردگی اور ساکھ دونوں ہی شدید متاثر ہوتی ہیں۔ معاملہ انفرادی ہو یا اجتماعی‘ ہم سے معقولیت پر مبنی یعنی مثبت سوچ کا تقاضا کرتا ہے۔ جب ہم کسی معاملے کے اصل تقاضے یا تقاضوں کو یکسر نظر انداز کرکے بالکل مخالف نوعیت کی سوچ اپناتے ہیں تو ہمارا رویّہ بھی اُس سے مطابقت رکھتا ہوا ہو جاتا ہے۔ منفی سوچ جب ذہن کو گرفت میں لیتی ہے تو مثبت سوچ کے لیے گنجائش کم ہی چھوڑتی ہے۔ ایسے میں اگر کبھی مثبت سوچ کو اپنا بھی لیجیے تو وہ تھوڑی ہی دیر تازہ دم رہ پاتی ہے۔ ذہن میں منفی خیالات بھرے ہوں تو مثبت سوچ اپنے وجود کو برقرار رکھنے میں زیادہ کامیاب نہیں ہو پاتی۔ یوں ہم میں کوئی بڑی اور حقیقی تبدیلی بھی رونما نہیں ہو پاتی۔
قومی زندگی میں ایسے لمحات کئی بار آئے ہیں جب ہم نے کچھ کرنے کے لیے اپنے آپ کو تیار کرنا چاہا ہے مگر ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔ بات یہ ہے کہ ہم ذہن میں بھرے ہوئے منفی خیالات کو نکال باہر کرنے کے بجائے اُن پر مثبت خیالات کی لیپا پوتی کرتے ہیں۔ تبدیلی کی خواہش اور چیز ہے اور تبدیلی کے لیے میدانِ عمل میں نکلنا اور چیز۔ ہم خواہش کے پلیٹ فارم پر کھڑے رہ جاتے ہیں اور عمل کی ٹرین گزر جاتی ہے۔ یہ سب کچھ اس لیے ہوتا ہے کہ ہم سوچ کا سانچا تبدیل کرنے لیے تیار نہیں۔ محض اچھا سوچ لینے سے سب کچھ اچھا نہیں ہو جاتا۔ سوچ اپنے وجود کے لیے ہو یا پورے معاشرے کے لیے‘ کارگر اُسی وقت ثابت ہوتی ہے جب حقائق کو ذہن نشین رکھتے ہوئے سوچا جائے‘ جامع اور حقیقت پسندانہ لائحۂ عمل مرتب کیا جائے۔ لائحہ اگر ٹھوس‘ یعنی حقیقت پسندانہ بنیاد پر اُستوار ہو تو کام کرنے کا جذبہ بروئے کار لانا حیرت انگیز حد تک ممکن ہو جاتا ہے۔
آج پھر ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہے کہ محض خواہش تک رک جانا ہے یا باضابطہ عمل پسند رویّہ اپنانے کی منزل تک بھی پہنچنا ہے۔ جب تک ہم عمل پسندی نہیں اپنائیں گے تب تک کام بنے گا نہیں۔ اور عمل پسندی اُسی وقت ممکن ہے جب سوچ حقیقت پسند ہو۔ جب ہم اندرونی اور بیرونی ماحول کو ذہن نشین رکھتے ہوئے سوچتے ہیں اور صریح حقیقت پسندی اپناتے ہیں تب انفرادی اور اجتماعی ہر دو طرح کی تبدیلی کی راہ ہموار کرنا ممکن ہو پاتا ہے۔
آج کا پاکستان ہم سے بھرپور جوش و خروش ہی نہیں تھوڑے بہت ہوش کا بھی تقاضا کرتا ہے۔ ہم ایک ایسے عہد میں جی رہے ہیں جس میں تمام چیزیں آپس میں جُڑی ہوئی ہیں۔ اِس کے نتیجے میں جو اچھا یا بُرا اثر پیدا ہوتا ہے اُسے ''ڈومینو ایفیکٹ‘‘ کہا جاتا ہے یعنی کسی ایک واقعے کے نتیجے میں اُس جیسے ہی بہت سے واقعات کا منصۂ شہود پر آ جانا۔ معاشرے میں یعنی اندرونی سطح پر بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ اور بیرونی سطح پر تو خیر یہ معاملہ بہت شدید نوعیت کا ہوا کرتا ہے۔ ایسے میں ہمیں قدم قدم پر احتیاط کا دامن تھامے رہنا ہے‘ معقولیت کی حدود میں رہنا ہے۔
25 جولائی کو جو کچھ ہوا اُس کے نتیجے میں ملک پھر دو راہے آگیا ہے۔ ایک راستہ عمل کی طرف جارہا ہے اور وہ ہمیں بلا بھی رہا ہے۔ ہم کس راہ پر کہاں تک اور کس طور جاسکتے ہیں اِس کا مدار گھوم پھر کر ہماری نیت ہی پر ہے۔ اگر ہم وطن کے لیے مخلص ہیں تو معقولیت کا دامن تھام کر عمل نواز رویّہ اپنانا ہے۔ نیا پاکستان محض باتیں بنانے سے نہیں بنے گا۔ باتیں بنانے کا شغل تو ہم نے سات عشروں تک اپنایا ہے اور اِس کے نتائج بھی بھگت چکے ہیں۔ اِن نتائج کو ''ڈومینو ایفیکٹ‘‘ کی طرز پر تسلسل سے ہم کنار رکھنا بھی ہمارے بس میں ہے اور نئی زندگی کو گلے لگانے کا آپشن بھی کُھلا ہے۔ جن کا بہت نقصان ہوچکا ہو اُن کے لیے قدم قدم پر محشر ہے اور ہر گھڑی قیامت کی ہے۔ ہمارے ہاں پُلوں کے نیچے سے پانی بہت گزر چکا ہے۔ یاد رکھیے کہ اگر نیا اور پُرجوش پاکستان بنانا ہے تو ہوش پر جوش کو ترجیح دینا بربادی کو دعوت دینے کے مترادف ہوگا۔‘ ہوش دونوں کو ساتھ لے کر چلنا ہے۔ ؎
کسی نے خواب دیکھا تھا‘ ہمیں تعبیر ہونا ہے
کہ ارضِ پاک کی بدلی ہوئی تقدیر ہونا ہے
وَرق حُسنِ عمل کا سادہ سادہ سا ہے‘ اب اِس پر
نئے‘ پُرجوش پاکستان کو تحریر ہونا ہے