بھارت کے معروف اخبار ٹائمز آف انڈیا کی ویب سائٹ پر بدھ 5 ستمبر کو ایک خبر پوسٹ کی گئی‘ جو اتر پردیش کے ضلع شاملی سے متعلق تھی۔ مظفر نگر سے ریلیز کی جانے والی خبر میں بتایا گیا تھا کہ 17 سالہ لڑکی کی قابلِ اعتراض تصویر سوشل میڈیا پر پوسٹ کیے جانے پر دو گروہوں میں تصادم ہوا‘ جس میں پتھراؤ سے 5 افراد زخمی ہوئے۔ پولیس نے 12 افراد کو گرفتار کرلیا۔ دونوں گروہوں کا تعلق ایک ہی گاؤں سے تھا۔
اس خبر پر چند تبصرے بھی کیے گئے۔ ایک قاری (سُشیل چڈھا) نے خبر پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ''پوری خبر میں کہیں کسی مذہب کا ذکر ہے‘ نہ ذات۔ نہ ہی نسل یا زبان کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ خبر 'ماڈرن انڈین جرنلزم‘ کے تقاضوں کو نہیں نبھاتی‘ طے شدہ اور مروّجہ معیار پر پوری نہیں اترتی!‘‘
بھرپور طنز پر مبنی یہ تبصرہ بتاتا ہے کہ بھارت میں اِس وقت صحافت کس نہج پر ہے اور خاص طور پر ہندی اور علاقائی زبانوں کی ویب سائٹس اور اخبارات جس گندے کھیل میں شریک ہیں‘ اُس کے بھیانک نتائج کیا ہوسکتے ہیں اور بالعموم ہوتے ہیں۔
ایک زمانے سے بھارت میں صحافت کی عمومی نہج یہ ہے کہ صحافت کے تمام طے شدہ اور تسلیم شدہ معیارات کو یکسر نظر انداز کرکے صرف اور صرف اس نکتے کو ذہن نشین رکھا جائے کہ معاشرے میں ہندوؤں کی غالب اکثریت کو کس طور خوش رکھا جاسکتا ہے۔ تمام اصولوں اور اقدار کو اس ایک مفاد یا مقصد کی چوکھٹ پر قربان کردیا گیا ہے۔ سوال محض کسی واقعے یا بحرانی کیفیت کو رپورٹ کرنے کے طریق کار کا نہیں‘ بلکہ یہ بھی ہے کہ ''زمانۂ امن‘‘ میں بھی غالب ہندو اکثریت کو خوش رکھنے کا اہتمام کیا جاتا رہے ‘تاکہ مجموعی طور پر اقلیتوں کے خلاف فضاء بنی رہے اور بڑی سیاسی جماعتیں ووٹ بینک کے حوالے سے اپنی سیاست کو زیادہ سے زیادہ کامیاب بناسکیں۔
بھارت میں ہندی اور علاقائی زبانوں کے اخبارات عمومی ماحول میں بھی اقلیتوں اور بالخصوص مسلمانوں کے حوالے سے زہر اگلتے دکھائی دیتے ہیں۔ علاقائی اخبارات کی زبان انتہائی نفرت انگیز ہوتی ہے۔ اکثریت کو خوش رکھنے کے لیے اقلیتوں سے متعلق ہر ایسی ویسی خبر کو بڑھا چڑھاکر پیش کیا جاتا ہے۔ کوشش کی جاتی ہے کہ اقلیتی طبقے سے تعلق رکھنے والے کسی بھی فرد کا کوئی جرم ''ان رپورٹیڈ‘‘ نہ رہ جائے۔ معمولی چوری چکاری یا مار کٹائی پر بھی علاقائی زبانوں کے اخبارات معاملات کو خوب بڑھا چڑھاکر‘ نمک مرچ لگاکر بیان کرتے ہیں‘ جس کے نتیجے میں کشیدگی بڑھتی ہے اور اکثریت کے ذہن میں اقلیت کے لیے نفرت مزید توانا ہوتی ہے۔
ڈھائی تین عشروں کے دوران بنیاد پرست اور انتہا پسند ہندوؤں نے صحافت کو اپنی مرضی کے رنگ میں رنگنے کے حوالے سے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ پوری کوشش کی گئی ہے کہ نفرت کا بازار گرم رکھا جائے۔ اپنے حقوق کے لیے صدائے احتجاج بلند کرنے والے نچلی ذات کے ہندوؤں (دَلِتوں) اور مسلمانوں کو بالخصوص نشانے پر رکھا جاتا ہے۔ ایک آدھ عشرے سے عیسائی اور سِکھ بھی نشانے پر ہیں۔ سِکھوں اور عیسائیوں کا مسلمانوں کی طرف جھکاؤ بڑھا ہے تاکہ کسی بھی بحرانی کیفیت میں ایک دوسرے کا ساتھ دیا جاسکے۔ یہ صورتِ حال انتہا پسند ہندوؤں کے لیے انتہائی ناقابلِ برداشت‘ بلکہ سوہانِ روح ہے۔ اُن سے یہ بات کس طور ہضم ہوسکتی ہے کہ اقلیتی برادریوں سے تعلق رکھنے والے ایک ہو جائیں اور کسی بھی بحرانی کیفیت میں ایک دوسرے کے حقوق کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے میدان میں نکل آئیں؟ یہی سبب ہے کہ علاقائی زبان کے بیشتر اخبارات میں اقلیت مخالف فضاء کو پروان چڑھانے پر خاص توجہ دی جاتی ہے۔ غالب اکثریت کے ذہنوں میں یہ بات ٹھونسی جاتی ہے کہ اقلیتوں پر زیادہ بھروسہ نہیں کیا جاسکتا‘ کیونکہ وہ محبِ وطن نہیں۔ ساتھ ہی ساتھ عام ہندو کو ڈرایا بھی جاتا ہے کہ اگر اقلیتوں کو کنٹرول نہ کیا گیا تو ہندوؤں کی پانچ ہزار کی تاریخ‘ ثقافتی ورثہ اور ہر ''پرمپرا‘‘ داؤ لگ جائے گی اور یہ کہ پورے بھارت میں ہندو طرزِ زندگی کا تحفظ انتہائی دشوار‘ بلکہ ناممکن ہوجائے گا۔ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ‘ وشوا ہندو پریشد‘ بھارتیہ جنتا پارٹی‘ شیو سینا‘ نونرمان سینا‘ بجرنگ دل اور دیگر انتہا پسند جماعتیں اور تنظیمیں (سنگھ پریوار) اقلیت مخالف فضاء برقرار رکھنے پر خاص توجہ دیتی ہیں۔ یہی سبب ہے کہ کسی بھی تصادم کے برپا ہونے پر اقلیتوں کو نشانہ بنانے کا عمل برق رفتاری سے شروع ہو جاتا ہے۔ عام ہندو کے جذبات کو پہلے ہی بھڑکادیا جاتا ہے۔ جب تک اکثریت کی سمجھ میں معاملہ آتا ہے تب تک بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے۔ یہ تماشا کئی عشروں سے جاری ہے۔
عدالتی نظام انصاف یقینی بنانے کی اپنی سی کوشش کرتا ہے اور بیشتر معاملات میں اقلیتوں کو تھوڑا بہت ریلیف دینے کی کوشش کی جاتی ہے مگر غالب اکثریت اپنی پوزیشن کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے ملک کے سسٹم ہی کو ناکام بنانے پر تُلی رہتی ہے۔ فلموں کے ذریعے اصلاح کی کوشش کی جاتی رہی ہے تاہم معاشرے میں فلموں کا مثبت اثر کم ہی مرتب ہوتا ہے۔ خرابیوں سے البتہ خوب جی بھر کے اثرات قبول کیے جاتے ہیں۔
سنگھ پریوار ایسی صورتِ حال پیدا ہی نہیں دیتا جس میں غالب اکثریت اقلیتوں کو قبول کرنے پر مائل ہو۔ مسلمانوں کی تعداد 20 کروڑ سے زائد ہے مگر اتنی بڑی تعداد رکھنے والی اقلیت کو بھی مرکزی دھارے میں آنے سے واضح طور پر روکا جاتا ہے۔ مسلمانوں کو آج بھی الگ تھلگ رکھنے کی پالیسی پر عمل ہو رہا ہے۔ چھوٹے بڑے شہروں میں مسلمان الگ تھلگ رہنے پر مجبور ہیں۔ یہی معاملہ دَلِتوں‘ عیسائیوں اور سِکھوں کا ہے۔ تمام بھارتی اقلیتوں کی عمومی حالت خاصی پژمردگی والی ہے۔ قدم قدم پر انہیں بے حوصلہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ایک زمانے تک بھارت میں صرف مسلمان غالب اکثریت کے نشانے پر رہے۔ یہاں غالب اکثریت سے مراد انتہا پسند ہندو ہیں نہ کہ عام ہندو۔ بھارتی معاشرے میں انتہا پسند ہندو خاصی کم تعداد میں ہیں مگر وہ چونکہ سازشوں کے ذریعے پالیسی میکرز پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں اس لیے وہ ایسی فضاء پیدا کرکے دم لیتے ہیں جس میں عام ہندو مسلمانوں سمیت ہر اقلیت سے بدگمان اور خوفزدہ رہے۔ اب تک یہ سازش بھرپور کامیابی سے ہم کنار رہی ہے۔ مین سٹریم میڈیا کے ساتھ ساتھ ہم سوشل میڈیا کے دور میں بھی جی رہے ہیں۔ ایسے میں کسی بھی معاملے کو اپنی مرضی کے سانچے میں ڈھال کر شدید بدگمانی پیدا کرنا اور آبادی کے ایک بہت بڑے حصے کو گمراہ کرنا چنداں دشوار نہیں۔ سیدھی سی بات ہے‘ بگاڑ پیدا کرنے میں وقت لگتا ہے نہ محنت۔ صلاحیت اور سکت تو معاملات کو درست کرنے کے لیے درکار ہوا کرتی ہے۔ انتہا پسند ہندو جب چاہتے ہیں کسی بھی چھوٹی سی بات کو مین اسٹریم اور سوشل میڈیا کی مدد سے قومی اِشو میں تبدیل کرکے مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف فضاء پروان چڑھانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔
''ماڈرن انڈین جرنلزم‘‘ کا ایک اہم ستون موقع پاتے ہی پاکستان کے خلاف جانا بھی ہے۔ جب تک پاکستان کو کسی نہ کسی حوالے سے متنازع بناکر پیش نہ کیا جائے تب تک بات بنتی ہے نہ دال گلتی ہے۔ جب کچھ نہیں ہوتا تو پاکستان کے حوالے سے کوئی نہ کوئی چھوٹی موٹی بات نامعقول انداز سے پیش کرکے معاملات کو الجھادیا جاتا ہے۔ مذموم مقاصد کے حصول کا یہ انتہائی آسان طریقہ ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے اپنے مطلب کی فضاء تیار ہو جاتی ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ''ماڈرن انڈین جرنلزم‘‘ حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مثبت انداز اختیار کرے‘ بیانیہ اور طرزِ بیان دونوں تبدیل کرے اور کسی کے خلاف جاکر معاملات کو اچھالنے کی بجائے امن اور استحکام کی بات کرے‘ تاکہ اندرون ملک اقلیتیں بھی محفوظ رہیں اور خطے کا ماحول بھی پرامن رہے۔
٭٭٭