"MIK" (space) message & send to 7575

راکھ کے ڈھیر میں شعلہ ہے نہ چنگاری ہے

ایک زمانے سے سنتے آئے ہیں کہ نئی دنیا تیزی سے ابھر رہی ہے۔ یہ نئی دنیا اور اس کا ابھرنا بھی خوب ہے۔ کل تک صرف تجزیہ نگار جی کا جنجال ہوا کرتے تھے‘ اب خیر سے تجزیہ کار بھی خُون پینے پر تُلے ہوئے ہیں۔ سب کی زبان پر تبدیلی کا نعرہ ہے اور یہ کہ نئی دنیا معرضِ وجود میں آرہی ہے۔ روئے زمین پر نئی دنیائیں ابھرتی رہی ہیں۔ ہر نئی دنیا نئے خیالات کی مرہون ِمنت ہوتی ہے۔ اقبالؔ کہہ گئے ہیں ؎ 
جہانِ تازہ کی افکارِ تازہ سے ہے نمود 
کہ سنگ و خِشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا 
کسی بھی نئی دنیا کو معرضِ وجود میں لانے کے لیے نئی سوچ درکار ہوا کرتی ہے۔ اینٹ پتھر یا پھر محض مال و اسباب سے نئی دنیا نہیں بنتی۔ انگریزی میں کہا جاتا ہے ''تھاٹس آر تھنگز‘‘ یعنی خیالات اشیاء کا درجہ رکھتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ذہن میں جو کچھ بھی ابھرتا ہے وہ اپنی ایک واضح شکل اور ہیئت رکھتا ہے۔ ہم خیالات کو غیر مرئی معاملہ قرار دے کر نظر انداز نہیں کرسکتے‘ آگے نہیں بڑھ سکتے۔ الجھن پیدا کرنے والی بات صرف یہ ہے کہ خیالات ہمیں دکھائی نہیں دیتے۔ اُن کے صرف اثرات ہمارے سامنے آتے ہیں۔ دکھائی دینے والی ‘یعنی مرئی اشیاء وقت کی دست برد سے محفوظ نہیں رہتیں‘ شکست و ریخت کے عمل سے گزر کر مٹ مٹا جاتی ہیں۔ نہ دکھائی دینے والے افکار صرف زندہ نہیں رہتے بلکہ دنیا کو نیا رنگ و روپ دینے میں کلیدی کردار بھی ادا کرتے ہیں۔ بہت سے پرانے خیالات سدابہار نوعیت کے ہوتے ہیں۔ اِن کے بطن سے نئے خیالات جنم لیتے ہیں۔ کبھی ہم آہنگی کے ساتھ اور کبھی ردعمل کے طور پر۔ نئے خیالات ہی دنیا کو ''ریفریش‘‘ ہونے کا موقع عطا کرتے ہیں۔ 
اب مشکل یہ آن پڑی ہے کہ ہم نے سوچنے کے عمل کو خاطر میں لانا چھوڑ دیا ہے۔ کسی بھی صورتِ حال میں صرف بے حواس اور پریشان ہو رہنے کو سوچنے کے مرتبے کا عمل سمجھ لیا گیا ہے۔ ذہن میں پیدا ہونے والے انتشار کو تفکر کا نام دے کر دل کو بہلالیا جاتا ہے۔ یومیہ معمولات کے مطابق زندگی بسر کرتے ہوئے جو کچھ بھی ہماری سمجھ میں آجاتا ہے اُسے ہم سوچنا سمجھ لیتے ہیں۔ 
یاد رکھنے کا نکتہ یہ ہے کہ وقت کی دست برد سے خیالات بھی محفوظ و مامون نہیں رہتے۔ جب انسان سوچنے کے عمل سے متعلق محنت ترک کردیتا ہے تب ذہن میں بہت کچھ مردہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ اور مردہ یا از کار رفتہ خیالات و تصورات کبھی بھرپور زندگی کی ضمانت نہیں بن سکتے۔ بھرپور زندگی وہ ہوتی ہے جو وقت کی مناسبت سے گزاری جائے۔ اس کے لیے سوچنا لازم ہے۔ سوچنا ‘یعنی نئی باتوں پر متوجہ ہونا۔ ماضی پر افسردہ ہونے اور مستقبل کے بارے میں پریشانی سے دوچار رہنے پر ہمیں زمانۂ حال پر متوجہ رہنے کو ترجیح دینی ہے۔ 
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بہت سی چیزیں غیر متعلق‘ بے مصرف اور لایعنی ہوتی جاتی ہیں۔ ٹیکنالوجی میں پیش رفت کا بے رحم ریلا نتائج کی پروا کیے بغیر بہت کچھ اپنے ساتھ بہا لے جاتا ہے۔ ایسے میں بہت کچھ بے مصرف اور لاحاصل ہوکر رہ جاتا ہے۔ بیس پچیس سال پہلے ویڈیو کیسٹ غیر معمولی چیز ہوا کرتی تھی کیونکہ اس کے ذریعے ہم وژیوئلز دیکھتے تھے۔ تب شوٹنگ بھی ایک مسئلہ تھی یعنی فوٹیج بنانے پر اچھی خاصی محنت کرنا پڑتی تھی۔ اب ایسا کچھ نہیں ہے۔ سب کچھ انتہائی آسان ہوگیا ہے۔ سستے دور میں سوا سو‘ ڈیڑھ سو میں خریدی گئی ویڈیو کیسٹ آج پلاسٹک کے ٹکڑے سے زیادہ کچھ نہیں‘ جو ہم کباڑی کو کلو کے حساب سے بیچتے ہیں! اب ویڈیو کیسٹ میں موجود فوٹیج یا وژیوئلز کی کوئی اہمیت نہیں۔ اگر ذرا سی اہمیت ہے تو صرف اس پلاسٹک کی جو ویڈیو کیسٹ میں پایا جاتا ہے! 
کیا اب کوئی شخص ویڈیو کیسٹ تیار کرکے مارکیٹ میں لانے کی حماقت کرے گا؟ آپ سوچیں گے کہ یہ کیا احمقانہ سوال ہوا۔ ایسا تو اب ممکن ہی نہیں کیونکہ ویڈیو کیسٹ کی طلب صفر کے برابر ہے۔ بالکل ٹھیک۔ اب ویڈیو کیسٹ تیار کرکے مارکیٹ میں لانے والا انتہائی درجے کا گھامڑ‘ بلکہ پاگل ہی تصور کیا جائے گا مگر جناب‘ اب بھی ایسے لوگ ہیں جو کسی نہ کسی حوالے سے اِسی نوعیت کی حماقت کا ارتکاب کرنے پر تُلے رہتے ہیں۔ بالکل سامنے کی بات ہے‘ جس چیز کی طلب صفر ہو اُسے تیار کرنا اور اُس کی مارکیٹنگ کے بارے میں سوچنا لوگوں کو ہنسنے کی دعوت دینے کے مترادف ہے۔ جو معاملہ ویڈیو کیسٹ کا ہے وہی مردہ خیالات کا بھی ہے۔ اور مردہ خیالات کے ساتھ یا اُن کے تحت بسر کی جانے والی زندگی کسی بھی درجے میں زندگی ہوتی ہی کب ہے! ؎ 
اِسے حیات جو کہیے تو آپ کی مرضی 
نہ کوئی خواب‘ نہ کوئی خیال ہے صاحب! 
خیالات ہوں یا تعلقات‘ فرسودہ ہو جائیں تو اُنہیں ترک کرنا پڑتا ہے۔ معاملہ فرد کا ہو گھرانے کا‘ کسی طبقے کا ہو یا پورے معاشرے کا‘ کسی قوم کا ہو اقوامِ عالم کا ۔۔۔۔ یہی اصول کارفرما رہتا ہے۔ گئے گزرے خیالات اور فرسودہ اصولوں کے تحت جینے والے قدم قدم پر مشکلات سے دوچار رہتے ہیں۔ ؎ 
چند فرسودہ اصولوں کی عنایت ہے کہ ہم 
اپنی ہی راہ میں دیوار بنے بیٹھے ہیں! 
ہم تو ہم ہیں‘ ہماری قیادت کو بھی یاد رکھنا ہے کہ خیالات اور تعلقات میں سڑاند پیدا ہوجائے تو اُنہیں ترک کرنا پڑتا ہے یا پھر تطہیر کے مرحلے سے گزارنا پڑتا ہے۔ بین الریاستی تعلقات میں بھی یہی اصول کارفرما رہتا ہے۔ وقت کے ساتھ خیالات اور تعلقات کو نہ بدلنے سے سڑاند پیدا ہوتی ہے جو بہت سے معاملات کو لپیٹ میں لیتی ہے۔ 
جو کچھ ہمارے ماحول میں اور اس کے باہر تبدیل ہو رہا ہے وہ تبدیلی کا متقاضی ہے۔ ہم چاہیں بھی تو اس حوالے سے اپنی ذمہ داری ختم نہیں کرسکتے۔ جب جو کچھ کرنا ہوتا ہے تب وہ کچھ کرنا ہی ہوتا ہے۔ اگر نہیں کریں گے تو اپنا نقصان کریں گے۔ نئے خیالات کی طرح نئے تعلقات پر بھی متوجہ رہنا ہے۔ ہاتھیوں کی لڑائی میں شامت گنے کے کھیت کی آتی ہے۔ ہمیں اس معاملے میں بہت محتاط رہنا ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ہم اپنے اندر کچھ نیا کرنے کی لگن پیدا کریں۔ یہ معاملہ انفرادی اور اجتماعی تبدیلی کا ہے۔ بین الریاستی تعلقات سے متعلق نئی سوچ اپنائے بغیر ہم اپنے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتے۔ بہت کچھ ہے جو کسی کام کا نہیں رہا مگر ہم اب تک گلے لگائے ہوئے ہیں۔ امریکا اور یورپ سے تعلقات کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ ایک مدت سے ہم دھوکے پر دھوکا کھا رہے ہیں مگر اپنی روش تبدیل کرنے کے بارے میں سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ جب امریکا اور یورپ مل کر ہمارے بنیادی مسائل حل کرنے میں بھی کامیاب نہیں ہوسکے تو اُن سے کسی اور بہتری کی کیا توقع کی جاسکتی ہے؟ اپنے مفادات کو زیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم کرنے کے لیے جو کچھ وہ کر رہے ہیں وہی کچھ ہمیں بھی تو کرنا چاہیے۔ پاکستان پس ماندہ ہے‘ کمزور ہے مگر بے جوہر تو نہیں۔ باصلاحیت افراد کی کمی ہے نہ کام کرنے کی لگن رکھنے والوں کی۔ ایسے میں نئی سوچ اپنائے بغیر چارہ نہیں۔ گزرے ہوئے ادوار کے خیالات اور تعلقات کو ہم نے اب تک لگے سے لگا رکھا ہے۔ یہ ''خزانہ‘‘ چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے ؎ 
جانے کیا ڈھونڈتی رہتی ہیں یہ آنکھیں مجھ میں 
راکھ کے ڈھیر میں شعلہ ہے نہ چنگاری ہے 
راکھ کے ڈھیر میں کچھ ڈھونڈنے کی کوشش انگلیوں کو جلا دے گی۔ یہ بات ہمارے معاشرے اور ہماری قیادت کی سمجھ میں جس قدر جلد آجائے اُتنا ہی اچھا ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں