دوسرے بہت سے الفاظ اور تصورات کی طرح ہم نے اپنی زندگی سے ''مطابقت‘‘ کو بھی نکال دیا ہے۔ مطابقت کو عمومی نوعیت کی ہم آہنگی کے مفہوم میں نہیں لیا جانا چاہیے۔ مطابقت کا مفہوم اول و آخر یہ ہے کہ بوجھ اُتنا اٹھایا جانا چاہیے جتنا اٹھایا جاسکتا ہو۔ جتنی سکت ہو ‘اُس سے کہیں زیادہ بوجھ اٹھانے کی کوشش کی جائے ‘تو زندگی شدید عدم مطابقت کی نذر ہوجاتی ہے۔
اگر آپ کی زندگی میں مطابقت برائے نام ہے ‘تو دل برداشتہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ کم و بیش دو صدیوں سے یہ پوری دنیا کا مسئلہ ہے۔ کوئی ایک بھی خطہ یا ملک عدم مطابقت کی بیماری سے محفوظ نہیں۔ تشویش کی بات البتہ یہ ہے کہ اس ایک بیماری نے بہت سے دوسرے عوارض اور پیچیدگیوں کو جنم دیا ہے۔
مطابقت برقرار نہ رکھنے کے معاملے میں شہر اور دیہات کا کوئی فرق نہیں۔ سب ایک پیج پر ہیں۔ ہاں‘ شہروں کا حال زیادہ بُرا ہے۔ زیادہ بُرا یوں ہے کہ دیہی معاشرے کا بوجھ بھی شہری علاقوں ہی کو سہارنا پڑ رہا ہے۔ ہمارے شہر تصنّع کا مرقّع ہیں۔ کیوں نہ ہوں؟ عدم مطابقت کی ٹرین برق رفتاری سے دوڑی جارہی ہے۔ زندگی کا کوئی ایک پہلو بھی مکمل مطابقت کا حامل دکھائی نہیں دیتا۔ کچھ لوگ اسے منافقت کہتے ہیں اور بعض کے نزدیک یہ اداکاری ہے۔ کچھ بھی کہہ لیجیے‘ عدم مطابقت کو کچھ فرق نہیں پڑتا۔ وہ ہے سو ہے۔ بیشتر معاملات میں تصنع کو زندگی کے لازمی جُز کا درجہ دے دیا گیا ہے۔ حقیقت سے دور رہتے ہوئے ایسی زندگی بسر کی جارہی ہے‘ جس میں بناوٹ انتہائی نمایاں ہے۔ بہت سے معاملات کو اُن کی اصلیت سے ہٹ کر دکھایا جارہا ہے یا اپنالیا گیا ہے۔ یہ دو رُخا پن ہی معاملات کو عدم مطابقت کی طرف لے جاتا ہے۔
توازن اور اعتدال ہی کو مطابقت سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔ انسان‘ اگر ہر معاملے میں منطقی حد میں رہے‘ تو مطابقت پیدا ہوئے بغیر نہیں رہتی۔ اسی میں زندگی کا حُسن پوشیدہ اور عیاں ہے۔ ہم جس کائنات کا حصہ ہیں‘ اُس میں ہر طرف مطابقت ہی کا تو بازار گرم ہے۔ یہ وصف نہ ہو تو تمام معاملات الجھ اور بگڑ کر رہ جائیں۔ توازن ہی سے مطابقت پیدا ہوتی ہے ‘تب ہی تو اللہ نے عبادت تک میں توازن اور مطابقت برقرار رکھنے کا حکم دیا ہے۔ اللہ کو یہ مطلوب نہیں کہ ہم چوبیس گھنٹے عبادت میں مصروف رہیں۔ اللہ کی قدرت اور ربوبیت کو تسلیم کرتے ہوئے دل کو یومیہ عبادت سے سرشار کرکے ہمیں اور بھی بہت کچھ کرنا ہوتا ہے۔ ہم پر بہت سی ذمہ داریوں کا بوجھ ڈالا گیا ہے۔ ان ذمہ داریوں سے کسی ٹھوس جواز کے بغیر دامن چھڑایا نہیں جاسکتا۔ یومیہ عبادت اور عمومی یومیہ معمولات ‘ دونوں کے درمیان مطابقت کا پایا جانا متوازن اور کامیاب زندگی کے لیے لازم ہے۔ ایک خاص حد تک عبادت کے بعد اللہ کا فضل (رزق) تلاش کرنے کا حکم دیا گیا ہے‘ یعنی تن بہ تقدیر رہنے کی گنجائش نہیں۔
آج کی زندگی شدید عدم مطابقت سے عبارت ہے۔ یہ خرابی کسی جواز کے بغیر پروان چڑھائی جانے والی سب کچھ پانے کی تمنا سے پیدا ہوئی ہے۔ خواہشات کا دائرہ پھیلتا جارہا ہے۔ ہوس اور طلب بڑھتی جاتی ہے۔ کسی جواز کے بغیر کوئی بھی خواہش پروان چڑھانا محض سراب ہے۔ اس غیر منطقی عمل کے منطقی نتائج بھی مدتوں بھگتنا پڑتے ہیں۔ بعض کیسز میں تو یہ بھی ہوتا ہے کہ کسی ایک معاملے میں عدم مطابقت سے بہت سے معاملات میں بگاڑ پیدا ہوتا چلا جاتا ہے اور پھر یہ سلسلہ اِس طور زور پکڑتا ہے کہ خرابیوں کی راہ روکنا مشکل ہو جاتا ہے۔
ویسے تو خیر زندگی کا ہر معاملہ مکمل یا کم و بیش مکمل مطابقت چاہتا ہے مگر معاشی معاملات خاص طور پر توجہ طلب ہیں۔ زندگی کا معاشی پہلو ناہموار ہو‘ عدم مطابقت سے عبارت ہو تو سمجھ لیجیے بنے بنائے کھیل بگڑ سکتے ہیں‘ سفینے ساحل پر بھی ڈوب سکتے ہیں۔ انسان کا بنیادی المیہ یہی ہے کہ وہ مطابقت پیدا کرنے کی کوششوں سے دور رہتا ہے اور زندگی بھر ایسے معاملات میں الجھا رہتا ہے جو سفینوں کو ساحل پر ڈبو دیا کرتے ہیں۔
مطابقت سے محرومی یہ ہے کہ ہر وہ چیز جس کے ہم متحمل نہیں ہوسکتے ہماری زندگی کا حصہ بن بیٹھی ہے۔ اہم معاملات ایک طرف رہ گئے ہیں اور غیر اہم معاملات کو فرنٹ سیٹ مل گئی ہے۔ کسی جواز یا منطق کے بغیر بہت سی اشیاء کی عادت ڈال لی گئی ہے۔ یہ سب کچھ اس لیے ہوا ہے کہ خواہشات کو بے لگام ہونے دیا گیا ہے۔ جب آمدن اور اخراجات میں عدم مطابقت بڑھ جاتی ہے‘ یعنی اخراجات کا گراف آمدن کے گراف سے کہیں بلند ہو جاتا ہے تب ہمارے لیے لازم ہو جاتا ہے کہ زندگی کو متوازن رکھنے کے لیے کچھ نہ کچھ کریں۔ معاشی عدم مطابقت ہمیں قریباً تمام ہی معاملات میں الجھنوں سے دوچار رکھتی ہے۔ جب معاشی توازن بگڑتا ہے تب زندگی کے معاشرتی‘ ثقافتی‘ نفسیاتی اور روحانی پہلو بھی شدید منفی اثرات کی زد میں آنے سے محفوظ نہیں رہ پاتے۔
پاکستان کی شہری زندگی کا بغور جائزہ لیجیے‘ تو اندازہ ہوتا ہے کہ لوگ بالعموم واضح منصوبے یعنی سنجیدگی کے بغیر زندگی بسر کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ خواہشات بے حساب ہیں۔ صلاحیت اور سکت محدود ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ صلاحیت اور سکت کا گراف گرتا چلا جاتا ہے اور خواہشات کی تعداد و شدت بڑھتی جاتی ہے۔ اس کے نتیجے میں عدم مطابقت بڑھتی جاتی ہے۔ ہم محدود ہوتے ہوئے وسائل سے بہت سے مسائل حل کرنا چاہتے ہیں۔ جب ایسا ممکن نہیں ہو پاتا تو تصنع کا سہارا لیا جاتا ہے۔ تصنّع وسائل اور مسائل کے درمیان پائے جانے والے منفی فرق کو ختم کرنے کے لیے لیے جانے والے قرضوں کی شکل میں بھی ہوسکتا ہے اور بدعنوانی کی شکل میں بھی۔ عام آدمی زندگی بھر اِسی الٹ پھیر میں رہتا ہے۔ زندگی کو مطابقت سے ہم کنار رکھنے کی کوشش نہیں کی جاتی۔ جب کوشش ہی نہیں کی جاتی تو کوئی بھی مثبت نتیجہ کیونکر برآمد ہوگا؟
یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ دنیا جس ڈھب کی ہے ‘وہ ہر معاملے میں شدید عدم مطابقت پیدا کرنے پر تُلا رہتا ہے۔ ہمیں قدم قدم پر زندگی کو خرابیوں سے بچانے کے لیے ہتھیار اٹھانا پڑتے ہیں۔ حالات ہمیں اپنے دھاروں میں بہانے پر کمربستہ رہتے ہیں اور ہمیں متوازن اور کامیاب زندگی یقینی بنانے کے لیے دھارے کے خلاف بہنا پڑتا ہے۔ یہ کسی بھی اعتبار سے بچوں کا کھیل نہیں۔ پنڈت برج نرائن چکبستؔ نے کہا ہے ؎
یہ سَودا زندگی کا ہے کہ غم انسان سہتا ہے
وگرنہ ہے بہت آسان اس جینے سے مر جانا
زندگی کو مطابقت سے ہم کنار رکھنا بھی ایسا سَودا ہے‘ جو آخری سانس تک جاری رہتا ہے اور جاری رہنا ہی چاہیے۔ زندگی اس لیے نہیں ہوتی کہ نری جذباتیت اور سطحیت کی نذر کردی جائے۔ عدم مطابقت صرف اُس وقت پیدا ہوتی ہے جب ہم جذباتیت اور سطحیت کے دھارے میں بہتے ہوئے بہت دور نکل جاتے ہیں۔ دانش کہتی ہے کہ اس دھارے میں بہنے سے گریز کرتے ہوئے معاملات کو قابو میں رکھا جائے‘ تاکہ توازن‘ اعتدال اور مطابقت کا دامن ہاتھ سے نہ چُھوٹے۔