"MIK" (space) message & send to 7575

دم غنیمت ہے شاہ سائیں کا

ویسے تو اور بھی چند حقیقتیں ایسی ہیں‘ جن کا دم غنیمت ہے ‘مگر شاہ سائیں ‘یعنی سید قائم علی شاہ کا دم واقعی غنیمت ہے۔ وہ ہیں تو ہم کچھ مسکرا بھی لیتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ اب شاہ سائیں کا کچھ کہنا بھی لازم نہیں رہا۔ واٹس ایپ یا فیس بک پر اُن کی تصویر کا دیکھ لینا ہی کافی ہے۔ آصف علی زرداری جب تک صدر مملکت رہے‘ تب تک اُن کے حوالے سے ایسے لطائف آتے رہے‘ جن میں اُن کی ذات کو نشانہ بنایا جاتا تھا۔ تب تک سائبر یا ٹیلی کام کرائم کا شعبہ پیش رفت سے ہم کنار نہیں ہوا تھا اس لیے احتساب کی کوئی صورت بھی نہ تھی۔ صدر مملکت کے حوالے سے طرح طرح کے لطائف ایس ایم ایس کے ذریعے پھیلائے گئے اور ملک بھر میں کروڑوں افراد نے یہ لطائف پڑھے۔ کسی کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہوئی۔ ہوتی بھی کیسے؟ سوال احتسابی مشینری کی اہلیت کا نہیں تھا۔ بات کچھ یوں ہے کہ آصف زرداری کُھلے دل کے واقع ہوئے ہیں اور تمسخر اڑانے والوں کی ہنسی میں ساتھ دینے ساتھ دینے پر یقین رکھتے ہیں۔ 
چھوٹی چھوٹی عام سی باتوں سے سے لطائف کشید کرنے والوں کی مہارت دیکھیے کہ اُنہوں نے شریف برادران سے بھی مستفید ہوکر دکھایا۔ ایک زمانہ تھا کہ جملہ بازوں کی توپوں کا رخ چودھری شجاعت حسین کی طرف تھا۔ تب اُن کی میڈیا ٹاک سے لطائف کشید کرنے پر خاص توجہ دی جاتی تھی۔ چودھری صاحب کی باتیں کم ہی لوگوں کی سمجھ میں آتی تھیں‘ اس لیے اُن سے لطائف کشید کرنا اندازے سے کہیں آسان تھا۔ اُن کی بہت سی باتوں کو کسی بھی رنگ میں پیش کردیا جاتا تھا اور لوگ سچ سمجھ کر مطمئن ہو جاتے تھے! 
شریف برادران کی باتیں بھی کبھی کبھی غیر معمولی لطائف کشید کرنے کا ذریعہ ثابت ہوتی تھیں۔ زبان کے پھسل جانے سے صورتِ حال مضحکہ خیز ہو جایا کرتی ہے۔ شہباز شریف کی زبان کئی بار پھسلی اور قیامت ڈھاگئی۔ 
آصف زرداری‘ شریف برادران اور چودھری شجاعت سے پہلے توپوں کا رخ اُس وقت کے صدر مملکت جنرل (ر) پرویز مشرف کی طرف تھا۔ اُن کے حوالے سے طرح طرح کے لطائف عام اور مقبولِ عام ہوئے۔ پرویز مشرف کے دور میں چینلز نے بھی اُن کی پیروڈی میں تمام منطقی حدیں پار کرلیں ‘مگر اُنہوں نے مجموعی طور پر ایسا ردعمل ظاہر نہیں کیا‘ جس سے معاملات خراب ہوتے۔ حقیقت یہ ہے کہ پرویز مشرف نے اظہارِ رائے کی بے لگام آزادی دی۔ خیر‘ اس کے نتیجے میں خرابیاں بھی پیدا ہوئیں۔ 
معاملہ جب شاہ سائیں تک پہنچا تو اہلِ وطن کی مراد کچھ زیادہ بر آئی۔ شاہ سائیں نے جب تک سندھ کے وزیر اعلیٰ کی کرسی پر جلوے بکھیرے تب تک لوگوں کے لیے مسکراہٹ کا اہتمام بھی کیا۔ زبان پھسلنے کے واقعات اِتنے تواتر سے ہوئے کہ شاہ سائیں کو دیکھتے ہی لوگ سارے کام چھوڑ کر ٹی وی سکرین کے سامنے بیٹھ جایا کرتے تھے۔ امید یہ ہوتی تھی کہ وہ کچھ ایسا کہیں گے‘ جس سے خبر بنے‘ ماحول خوش گوار ہو۔ اور شاہ سائیں کی عظمت اِس حقیقت میں مضمر ہے کہ اُنہوں نے کبھی اپنے چاہنے والوں کو مایوس نہیں کیا! شاہ سائیں کو اللہ نے طولِ عمر اور صحتِ کامل سے نوازا ہے۔ بہت سوں کو شاہ سائیں پر ایک نظر ڈالتے ہی مرزا غالبؔ یاد آ جاتے ہیں‘ جنہوں نے کہا تھا ؎ 
کب سے ہوں‘ کیا بتاؤں‘ جہانِ خراب میں 
شب ہائے ہجر کو بھی رکھوں گر حساب میں 
اصل ذہنی پیچیدگی یہ ہے کہ بہت سوں نے شاہ سائیں کو عشروں سے ایک سی حالت میں دیکھا ہے۔ 1990ء سے پہلے بھی شاہ سائیں وزیر اعلیٰ تھے۔ تب سے اب تک اُن میں لوگوں کو کچھ خاص فرق محسوس نہیں ہوتا۔ یہی بات دلاور فگار نے حالاتِ حاضرہ کے بارے میں بھی کہی تھی ع 
حالاتِ حاضرہ کو کئی سال ہو گئے! 
شاہ سائیں کی عمر کے حوالے سے اتنے لطائف بنے ہیں کہ سوچنے اور اہلِ وطن کو مستفید ہونے کا موقع فراہم کرنے والوں کی ذہانت پر رشک آتا ہے۔ شاہ سائیں نے بہت کچھ سوچا ہوگا ‘مگر یہ کبھی نہیں سوچا ہوگا کہ اُن کے بارے میں اس قدر سوچا جائے گا! کبھی کہا گیا کہ شاہ سائیں کا تعلق مونجو داڑو کے عہد سے ہے۔ ایک بار شازیہ مری نے صوبائی وزیر کی حیثیت سے مونجو داڑو کا دورہ کیا‘ تو اُن کی ایک ایسی تصویر شائع ہوئی ‘جس میں وہ زمین پر کسی چیز کی طرف اشارا کر رہی تھیں۔ کسی منچلے نے کیپشن لکھ دیا کہ شازیہ مری مونجو داڑو میں اُس مقام کی طرف اشارا کر رہی ہیں ‘جہاں سے شاہ سائیں دریافت ہوئے تھے! شاہ سائیں کا مزاج کچھ ایسا مشفقانہ ہے کہ کبھی کسی بات کا بُرا نہیں مانا اور تردید کی زحمت بھی گوارا نہ کی! باضابطہ تردید نہ کیے جانے کے باعث بعض عاقبت نا اندیش شاہ سائیں سے متعلق پھیلائی اور اُڑائی جانے والی ہر بات کو سچ سمجھ بیٹھتے ہیں۔ اور پھر یہ گمان بھی پالتے ہیں کہ اتنی قدامت ہی کے باعث اُن کی زبان پھسل جایا کرتی ہے! 
جب تک شاہ سائیں وزیر اعلیٰ سندھ کے منصب پر فائز تھے تب تک اہلِ وطن کو اطمینان تھا کہ شاہ سائیں روزانہ ایک آدھ تقریب یا اجلاس میں شریک ہوں گے اور کوئی نہ کوئی ایسی بات ضرور سامنے آئے گی‘ جو دل بستگی کا سامان کرے گی۔ سندھ اسمبلی کے اجلاس میں شاہ سائیں کی شرکت اضافی قیامت ڈھایا کرتی تھی۔ یوں سمجھ لیجیے کہ اُس دن لوگوں کو کھانے کے ساتھ کچھ میٹھا بھی مل جایا کرتا تھا! ایک بار اُنہوں نے ایوان میں خاصی طویل تقریر کی اور اتنا کچھ بیان کردیا کہ لوگوں کو پندرہ بیس دن تک دل بہلانے کے لیے مزید کچھ دیکھنے اور سُننے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ کمال یہ تھا کہ اُن پر غنودگی میں ڈوبے ہونے اور بے ربط باتیں کرنے کا الزام عائد کرنے والے بھی حیران رہ گئے کہ شاہ سائیں ضرورت پڑنے پر متواتر (قدرے) مربوط گفتگو کرسکتے ہیں! خیر‘ بعض کے لیے تو یہ حقیقت بھی لطیفے سے کم نہ تھی! 
اب پھر شاہ سائیں میڈیا کی دنیا میں in ہیں۔ یہ سب واٹس ایپ کا کرم ہے۔ مختلف موضوعات پر گزشتہ دنوں واٹس ایپ کے ذریعے پھیلایا جانے والا ایک ایس ایم ایس بہت مقبول ہوا۔ اس میں شاہ سائیں سے یہ بیان منسوب کیا گیا کہ ''جب بھارت اور انڈیا مل کر ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکے تو پھر یہ ہندوستان کیا بیچتا ہے!‘‘ 
شاہ سائیں سے منسوب کیا جانے والا تازہ ترین مفروضہ جملہ یہ ہے کہ ''قومی سلامتی کو لاحق خطرات کے پیش نظر پاک بھارت جنگ دُبئی میں کرائی جانی چاہیے!‘‘ 
زندگی سے اکتائے ہوئے ہر انسان کے لیے شاہ سائیں کا دم غنیمت ہے کہ اُن کی معرفت کسی نہ کسی طور چند ہلکے پھلکے جملے نصیب ہوتے ہیں ‘جو روح کو شاداں و فرحاں کیے بغیر نہیں رہتے۔ حالات کے ستائے ہوئے بہت سے ایسے بھی ہیں‘ جو شاہ سائیں سے منسوب جملوں کی بدولت اُسی کیفیت سے ہم کنار ہوتے ہیں‘ جو پروین شاکر نے اس شعر میں بیان کی ہے ؎ 
اُس نے جلتی ہوئی پیشانی پہ جب ہاتھ رکھا 
روح تک آ گئی تاثیر مسیحائی کی 
تمسخر برطرف‘ اس گئے گزرے دور میں یہ بھی کیا کم ہے کہ کسی کی مدد سے کوئی‘ کچھ دیر ہی کے لیے سہی‘ خوش ہولے۔ حق تو یہ ہے کہ اب واٹس ایپ پر شاہ سائیں کی تصویر دیکھتے ہی طبیعت کِھل اُٹھتی ہے ؎ 
شکریہ بے پناہ سائیں کا 
دم غنیمت ہے شاہ سائیں کا 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں