معاشرہ کیا ہے؟ انسانوں کی منڈی‘ اور کیا! ہر طرف طرح طرح کے انسان ہیں۔ برائے فروخت بھی اور خریدار بھی۔ آپ خود بھی ایک طرف خریدار ہیں اور دوسری طرف برائے فروخت۔ دوسروں کی طرف آپ میں بھی صلاحیتیں ہیں ‘اس لیے آپ کی خدمات حاصل کرنے میں دوسروں کو دلچسپی لینی ہی چاہیے۔ آپ تمام کام خود نہیں کرسکتے‘ اس لیے دوسروں کی خدمات درکار ہوتی ہیں۔ اپنی ضرورت کے مطابق آپ کام کے لوگ تلاش کرتے ہیں اور کام کا بندہ مل جائے تو اُس کی خدمات حاصل کرنے میں کوئی جھجھک محسوس نہیں ہوتی۔
دنیا کا نظام اسی اصول کی بنیاد پر چل رہا ہے۔ کچھ لو اور کچھ دو کا اصول زندگی کے ہر معاملے پر اطلاق پذیر ہوتا ہے۔ کوئی چاہے یا نہ چاہے‘ یہ اصول زندگی کا جُز ہے۔ اس سے چھٹکارا ممکن نہیں۔
ہمیں دوسروں سے بہت کچھ ملتا ہے۔ اس کے جواب میں ہمیں بھی دوسروں کے لیے بہت کچھ کرنا پڑتا ہے‘ اُنہیں بہت کچھ دینا پڑتا ہے۔ جو بھی رُوئے ارض پر ہے اور سانس لے رہا ہے‘ اُسے اسی نظام کے تحت جینا اور کام کرنا ہے؛ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ ایسا کیے بغیر جی لے گا‘ تو یہ اُس کی خام خیالی ہے۔ اس دنیا میں سبھی کو کچھ نہ کچھ کرنا ہوتا ہے۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ وہ کچھ کیے بغیر کچھ پانے میں کامیاب ہوگا‘ تو اُسے یاد رکھنا چاہیے کہ ایسی حالت میں محض گزارے کی سطح نصیب ہوگی اور وہ بھی خاصی تذلیل کے ساتھ۔ ماحول کا جائزہ لیجیے تو چند افراد مفید ثابت ہوئے بغیر زندگی بسر کرتے ہوئے ملیں گے‘ مگر حقیقت یہ ہے کہ وقت اُنہیں گزار رہا ہوتا ہے! گزارے کی سطح پر جینے کو زندگی بسر کرنا نہیں کہا جاسکتا۔ اور خاص طور اُس وقت کہ جب یہ سطح بھی مانگے تانگے کی ہو‘ دوسروں کے بخشے ہوئے ٹکڑوں کی مرہونِ منت ہو۔
عمومی سطح پر ہم زندگی بھر ٹال مٹول کا شکار رہتے ہیں۔ ٹال مٹول کا حقیقی مفہوم کسی بھی حالت میں کام کو اولین ترجیح نہ دینا ہے۔ کام نہ کرنے کی عادت پختہ ہوکر جن کی ذہنی ساخت میں پیوست ہوگئی ہو‘ وہ کسی بھی طور کام کیے بغیر نہیں رہتے۔ ایسے لوگوں کو اصطلاحاً workaholic کہا جاتا ہے۔ مسلسل کام کیے جانا بھی انسان کے لیے نقصان دہ ہے مگر خیر‘ ایسی صورت میں جیب بھری ہونے کا‘ فراوانی کا احساس فرحاں و شاداں رکھنے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ کام نہ کرنا؛ البتہ ایسی حقیقت ہے ‘جو کسی بھی حالت میں قابلِ قبول نہیں ہوتی۔ بہت کام کرنے والوں کی زندگی میں بھی بہت کچھ نہیں ہوتا مگر خیر‘ کام نہ کرنے والوں کی زندگی میں تو کچھ بھی نہیں ہوتا۔ عزتِ نفس بھی نہیں بچ پاتی۔ جب توقیر ہی نہ رہے تو زندگی میں کیا رہا؟
کام سے گریز کی روش پر گامزن رہنے سے انسان رفتہ رفتہ ناکارہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ انسان کو صلاحیتوں کے اظہار سے روکنے‘ یعنی عمل کی راہ پر گامزن ہونے سے باز رکھنے والی عادت صرف ایک ہے ... ٹال مٹول۔ جب انسان طے کرلیتا ہے کہ اُسے اپنے حالات بہتر بنانے کے لیے کچھ نہیں کرنا تو پھر وہ کام سے دور رہنے کے لیے بہانے تراشنے کا سلسلہ شروع کرتا ہے۔ یہ پورا معاملہ سوچ کے رخ یا سمت کا ہے۔ جو عمل پسند ہوتے ہیں وہ کسی بھی حال میں عمل سے دوری برداشت نہیں کرسکتے۔ دوسری طرف کام سے گریز کے عادی کسی بھی صورتِ حال میں عمل پسند رویّہ اختیار کرنے پر مشکل ہی سے راضی ہو پاتے ہیں۔
کامیابی کی تمنا ہر دل میں انگڑائیاں لیتی ہے۔ کون ہے ‘جو بھرپور خوش حالی کی منزل تک پہنچنے کا خواہش مند نہیں؟ ہر شخص دنیا بھر کی آسائشیں چاہتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ کامیابی اور خوش حالی یقینی بنانے کے لیے جو کچھ کرنا لازم ہے‘ اُس کے بارے میں سنجیدہ ہونے کی زحمت گوارا نہیں کی جاتی۔ عمل کا مرحلہ بعد میں آتا ہے۔ پہلے انسان عمل کے لیے سنجیدہ تو ہو‘ کام کرنے کے بارے میں سوچے تو سہی۔
ٹال مٹول کی عادت خاصی کم اور غیر محسوس رفتار سے کام کرنے والے زہر کے مانند ہوتی ہے۔ انسان کو اس زہر کے اثرات کا اندازہ بہت بعد میں ہوتا ہے اور تب تک پُلوں کے نیچے سے اچھا خاصا پانی بہہ چکا ہوتا ہے۔ انسان اپنی اصل میں سیاہ ہے نہ سفید۔ وہ کسی بھی معاملے میں بہت آگے جانا چاہتا ہے ‘نہ پیچھے رہنے کا خواہش مند ہوتا ہے۔ حالات کی نوعیت ہی طے کرتی ہے کہ انسان کو کیا کرنا چاہیے۔ کوئی بھی مشاہدہ کرسکتا ہے کہ کس طور حالات کسی بھی انسان کو زیادہ سے زیادہ کام کرنے کی تحریک دے سکتے ہیں اور کس طرح کوئی بھی انسان کام کرنے کی ذرا سی لگن اپنے اندر پیدا کیے بغیر بے عملی کے گڑھے میں جا گِرتا ہے۔
ٹال مٹول کی روش‘ کم و بیش‘ ہر شعبے میں اور ہر سطح پر عام ہے۔ لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ باعمل رہنے ہی سے عظمت یقینی بنائی جاسکتی ہے‘ مگر پھر بھی وہ عمل سے دور رہتے ہیں۔ آرام طلبی کا عنصر مزاج پر غالب آجائے ‘تو انسان ٹال مٹول سے کام لینے کا عادی ہوتا چلا جاتا ہے۔ لوگ کام کو ٹالتے رہتے ہیں۔ کوشش یہ ہوتی ہے کہ کم کام کرنا پڑے اور یا پھر سِرے سے کوئی کچھ کرنے ہی کو نہ کہے۔
اہم سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ بات کچھ یوں ہے کہ خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے۔ معاشرے میں عمومی سطح پر عمل سے تھوڑی سی دوری عام بات ہے۔ کسی بھی معاشرے میں چند ہی افراد بھرپور محنت کے ذریعے اپنی زندگی کا معیار بلند کرنے پر خاطر خواہ توجہ دیتے ہیں۔ عام آدمی اس نوع کی غیر معمولی عمل پسندی سے دور رہتا ہے۔ بات ایسی مشکل بھی نہیں کہ سمجھ میں نہ آسکے۔ عمل پسند ہونے کے لیے دل پر بہت جبر کرنا پڑتا ہے‘ بہت کچھ چھوڑنا پڑتا ہے‘ ایثار سے کام لینا پڑتا ہے۔
ہم زندگی بھر جو کچھ سوچتے اور کرتے ہیں ویسے ہی ہوتے چلے جاتے ہیں۔ جو عمل کو ترجیحات میں سب سے اوپر رکھتے ہیں‘ وہ دور سے پہچانے جاتے ہیں۔ اُن کی حرکات و سکنات بتارہی ہوتی ہیں کہ وہ کسی بھی صورتِ حال میں عمل کی راہ پر گامزن ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ ایسے لوگ عمل کے حوالے سے اپنے وجود کا حق ادا کیے بغیر نہیں رہتے۔ دوسری طرف معاشرے میں اکثریت ایسوں کی ہے جو کام سے بھاگتے ہیں‘ یعنی ٹال مٹول سے کام لیتے رہتے ہیں۔ ایسے لوگ رفتہ رفتہ اپنی سوچ کا چلتا پھرتا مظہر بن جاتے ہیں۔ لوگ اُنہیں دور ہی سے پہچان لیتے ہیں۔ اُن کی حرکات و سکنات بتارہی ہوتی ہیں کہ عمل سے اُنہیں برائے نام بھی رغبت نہیں۔ ٹال مٹول کرتے رہنے کی عادت اُن کے رگ و پے میں سرایت کر جاتی ہے۔ اُن کا پورا وجود اس امر کی گواہی دینے لگتا ہے کہ وہ عمل کی راہ پر گامزن ہونا ہی نہیں چاہتے۔
ٹال مٹول کو حرزِ جاں بنانے والے لوگ زندگی بھر اپنی حقیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے سے قاصر رہتے ہیں۔ ہر انسان میں عام ڈگر سے ہٹ کر کچھ نہ کچھ کرنے کی صلاحیت ہی نہیں استعدادِ کار بھی پائی جاتی ہے‘ مگر ٹال مٹول کی عادت سبھی کچھ ڈکار جاتی ہے۔ ٹال مٹول سے کام لینے والے بہانے تراشنے کے ماہر ہوتے ہیں۔ اسی مہارت پر اُن کا گزارا ہوتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ ایسے لوگ صرف اور صرف گزارے کی سطح پر جیتے ہیں اور اسی سطح پر رہتے ہوئے دنیا سے جاتے ہیں۔