"MIK" (space) message & send to 7575

جذبِ باہم، ربطِ پیہم

طائرانہ سی نظر ڈالیے تو کسی بھی معاملے میں کوئی ترتیب دکھائی نہیں دیتی‘ کوئی نظم نظر نہیں آتا۔ انتشار ہے کہ ہر معاملے پر چھایا ہوا ہے‘ رگ و پے میں سرایت کیے ہوئے ہے۔ سوچیے تو ذہن الجھ جاتا ہے‘ درستی کے لیے آگے بڑھیے تو الجھے ہوئے معاملات پیروں کی زنجیر بن جاتے ہیں۔ ؎ 
نہیں جب پاؤں میں زنجیر کوئی 
تو پھر یہ پاؤں میں زنجیر کیا ہے! 
معاشرے کی عمومی روش کسی واضح سمت سے محروم معاملات کا مرقّع ہوا کرتی ہے۔ ہر انسان کے لیے زندگی سے متعلق منصوبہ بندی لازم ہے۔ جب تک نظم و ترتیب نہ ہو تب تک معاملات درست ہوتے ہیں نہ ہی بارآور ثابت ہونے کا نام لیتے ہیں۔ اس کے باوجود دیکھا یہ گیا ہے کہ لوگ زندگی کو بے سمت رکھتے ہیں۔ کوئی واضح ڈھنگ نہیں اپناتے۔ بیشتر معاملات میں ترتیب کا فقدان دکھائی دیتا ہے اور اس کا نتیجہ بھی زندگی بھر بھگتا جاتا ہے۔ لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ بے ڈھنگی زندگی کچھ نہیں دیتی ‘مگر پھر بھی وہ ڈھنگ سے جینے کا سامان نہیں کرتے۔ انسان کا بہت کچھ دیکھ کر بھی کچھ نہ سیکھنا کائنات کے عجائبات میں سے ہے! 
زندگی کس طور بسر کی جائے کہ زیادہ سے زیادہ بارآور ثابت ہو ... یہ موضوع معاشرے کی اصلاح اور نفسی پیچیدگیوں سے نجات کے حوالے سے متحرک اہلِ علم و قلم کے لیے اولین ترجیحات میں شامل رہا ہے۔ ویسے تو خیر ہزاروں سال سے کچھ نہ کچھ لکھا ہی جارہا ہے تاہم ڈیڑھ دو سو سال کے دوران اتنا کچھ لکھا گیا ہے کہ زندگی کو معیاری انداز سے بسر کرنے کی خواہش رکھنے والوں کے لیے سیکھنے کو بہت کچھ ہے۔ اب یہ عمل تیز تر ہوگیا ہے۔ آج بھرپور تحقیق کی مدد سے لکھنا آسان ہوگیا ہے۔ دنیا بھر میں لاکھوں لکھاری اپنے طور پر ایسا بہت کچھ لکھ رہے ہیں‘ جس کی مدد سے عام آدمی بہتر زندگی بسر کرنے کے طریقے بخوبی سیکھ سکتا ہے۔ 
آج کے انسان کو قدم قدم پر انتشار کا سامنا ہے۔ بہت کچھ ہے‘ جو زندگی کے ہر معاملے کو تلپٹ کرنے کے درپے ہے۔ ذہنوں میں پایا جانے والا انتشار جب اعمال میں در آتا ہے‘ تب دنیا الجھ جاتی ہے۔ اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ جب ذہن الجھے ہوئے ہوں تو اعمال بھی الجھ ہی جاتے ہیں‘ کیونکہ ہر عمل کی بنیاد کسی نہ کسی سوچ ہی پر ہوتی ہے۔ کسی واضح سوچ کا نہ ہونا بھی سوچ ہی کی ایک شکل ہے! 
دل ایک خاص ترتیب کے تحت دھڑکتا ہے۔ دل کے دھڑکنے کا عمل رک جائے یہ تو بہت دور کا معاملہ ہے‘ دھڑکنیں بے ترتیب بھی ہوجائیں تو جان پر بن آتی ہے۔ دھڑکنوں کا بے ترتیب ہونا اس امر کی علامت ہوتا ہے کہ کسی بھی وقت کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ دل کی طرح اگر نبض کی رفتار بڑھ جائے تو مصیبت‘ گھٹ جائے تو مصیبت۔ معاملہ یہ ہے کہ زندگی کا ہر معاملہ ایک خاص نظم اور ربط کے تابع ہے۔ جہاں نظم بگڑا‘ بات بگڑی۔ ربط کے ختم ہونے سے اور بہت کچھ ختم ہو جاتا ہے۔ 
نظم اور ربط کیوں لازم ہے؟ زندگی ڈھنگ سے بسر کرنے کے خواہش مند ہر شخص کے ذہن میں اس سوال کا ابھرنا لازم ہے۔ کائنات کے سامنے زمین کی بساط ہی کیا ہے؟ ذرا کائنات پر ایک نظر ڈالیے اور یہ دیکھیے کہ اِس میلے کی ساری رونق کس چیز کے دم سے ہے۔ ذرا سا غور کرنے پر اندازہ ہوگا کہ یہ کائنات برقرار ہے اور کام کر رہی ہے تو اِس کی ایک ہی بنیاد ہے ... یہ کہ ہر طرف بھرپور اور مطلوب توازن کے ساتھ نظم اور ربط دکھائی دے رہا ہے اور دکھائی ہی نہیں دے رہا‘ کارفرما بھی ہے۔ 
کائنات میں پایا جانے والا بھرپور ربط اور نظم اس امر کا متقاضی ہے ہم بھی اپنے معاملات کو منظم اور مربوط بنائیں۔ عام آدمی کے لیے غیر معمولی نظم و ضبط اور ربط و توازن کے ساتھ زندگی بسر کرنا بہت دشوار ہوتا ہے۔ بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ محض کہہ دینے سے نہیں ہو جاتا۔ اس کے لیے بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔ بے ترتیب زندگی کو ترتیب میں لانا خاصی مشق اور مشقت چاہتا ہے۔ 
کائنات میں ترتیب نہ ہو تو؟ سب کچھ الٹ پلٹ جائے‘ منتشر ہو جائے‘ بے مصرف ہوکر رہ جائے۔ یہ ساری رونق جذبِ باہم سے ہے۔ کائنات کے تمام اجسام ایک دوسرے کو اپنی طرف کھینچ بھی رہے ہیں اور کوئی بلا جواز طور پر کھینچ کر اپنی حد سے آگے بھی نہیں جارہا۔ یہ ہے کائنات کی اصل ‘یعنی نظم و ربط کا قصہ۔ 
اب آئیے انفرادی زندگی کی طرف۔ سڑک پر چلائی جانے والی تمام گاڑیاں چلانے والی کی مرضی کے تابع ہیں۔ ہر گاڑی کا چلانے والا اپنے معاملے میں مکمل آزاد ہے‘ تاہم اُسے چند قواعد و ضوابط کا خیال رکھنا پڑتا ہے؛ اگر وہ ایسا نہ کرے تو حادثہ ہو جائے۔ یہ بات کتنی عجیب ہے کہ سڑکوں پر گاڑیاں رواں دواں رہتی ہیں۔ زندگی کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ ہر شخص اپنی مرضی سے زندگی بسر کرتا ہے۔ ہر شخص کو اپنی مرضی کے مطابق جینے کا حق ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ سب اپنی مرضی کے مطابق زندگی بسر کرتے ہیں ‘مگر پھر بھی دنیا کا کاروبار چلتا رہتا ہے۔ بات اتنی سی ہے کہ کم و بیش تمام انسان چند اصولوں‘ قواعد اور ضوابط پر عمل کرتے ہیں۔ یہ اصول اور قواعد دنیا کو منظم رکھنے کے حوالے سے لگام کا کردار ادا کرتے ہیں؛ اگر کوئی خود کو بے لگام رکھنا چاہے‘ تو خرابیوں کو پیدا ہونے سے نہیں روکا جاسکتا۔ 
زندگی ڈھنگ سے بسر کرنے کی خواہش رکھنے والے ہر انسان کو کائنات کا انتہائی بنیادی اصول (جذبِ باہم اور ربطِ پیہم) اپنانا ہی پڑتا ہے۔ نظم و ضبط سے ترتیب پیدا ہوتی ہے۔ ترتیب سے توازن کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ ترتیب و توازن اور ہم آہنگی کے مرحلے سے گزرنے ہی پر انسان زندگی کے رگ و پے میں سرایت کر جانے والے افتراق و انتشار سے نجات پاتا ہے۔ 
کائنات کا ذرّہ ذرّہ ہم سے مکمل ہم آہنگی اور توازن کا تقاضا کرتا ہے۔ زندگی کو زیادہ سے زیادہ بارآور بنانے کی خواہش رکھنے والوں کے لیے لازم ہے کہ زیادہ سے زیادہ ہم آہنگی اپنائیں‘ الفت کا چلن اختیار کریں۔ کائنات الفت ہی کی بنیاد پر استوار ہے اور الفت ہی کے سہارے چل رہی ہے۔ الفت کیا ہے؟ یہی نا کہ ہم کسی کو چاہیں اور کوئی ہمیں چاہے؟ ہم دوسروں کو قبول کریں اور دوسروں کے لیے قابلِ قبول ہوں۔ 
جو کچھ بھی دکھائی دے رہا ہے‘ وہ کسی بھی طور نفرت کا نتیجہ نہیں ہوسکتا۔ نفرت موجود کو معدوم کرتی ہے۔ زندگی کی تابندہ ترین علامت اور رمز صرف الفت ہے۔ ہم پر الفت کے جادو کا بھید اُسی وقت کُھل سکتا ہے جب ہمیں نظم‘ ربط اور ترتیب و توازن سے غرض ہو۔ زندگی بسر کرنے کا حق وہی ادا کرتے ہیں ‘جو نظم و ضبط اور ترتیب و توازن کے تقاضے نبھاتے ہیں۔ ؎ 
کیوں نہ اپنائیں الفت کہ یہ کائنات 
جذبِ باہم سے ہے‘ ربطِ پیہم سے ہے 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں