"MIK" (space) message & send to 7575

باتوں سے بہت آگے جاکر

1970ء کی دہائی میں راجیش کھنہ پر فلمائے جانے والے ایک انتہائی مقبول گیت کا مکھڑا تھا : ''کچھ تو لوگ کہیں گے‘ لوگوں کا کام ہے کہنا‘‘ گیت بالعموم وہی مقبول ہوتے ہیں‘ جن میں لوگوں کو اپنی بات‘ اپنی کہانی محسوس ہو۔ ہمارے ہاں ایسا ہر گیت مقبولیت سے ہم کنار رہا ہے ‘جس میں معاشرے کی کسی بہت بڑی خرابی کو اجاگر کیا گیا ہو۔ یہ الگ بات ہے کہ خرابی اپنی جگہ رہتی ہے اور لوگ اُس میں مبتلا بھی رہتے ہیں! ہم ایک ایسے معاشرتی ڈھانچے کے تحت جی رہے ہیں ‘جس میں عمر کا نصف دوسروں کی بنائی ہوئی باتوں کے بارے میں سوچتے سوچتے کٹ جاتا ہے اور باقی نصف میں ہمیں بہت کچھ کرنا ہوتا ہے۔ عمل کی مہلت کم رہ گئی ہو تو تمام چیزیں آپس میں الجھ جاتی ہیں۔ اب کیا کیجیے کہ ع 
اِس طرح تو ہوتا ہے اِس طرح کے کاموں میں 
بتیانے کی عادت بالعموم وہیں ہوتی ہے‘ جہاں کام کرنے کا چلن دم توڑ چکا ہو یا اولین ترجیحات میں شامل نہ ہو۔ آج کا پاکستانی معاشرہ ایسا ہی تو ہے۔ لوگ عمل سے دور بھاگتے ہیں اور باتوں پر گزارا کرتے ہیں۔ اس طور گزارا آسان ہے‘ کیونکہ باتیں بنانے میں محنت بھی کم لگتی ہے اور کچھ خاص خرچ بھی نہیں کرنا پڑتا۔ گھر ہو یا کام کاج کا مقام‘ باتیں ہیں کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتیں۔ دن کب نکلتا ہے اور رات کب ہو جاتی ہے کچھ پتا نہیں چلتا۔ جہاں باتیں ہی باتیں ہوں وہاں کسی اور بات کا پتا نہیں چلتا۔ کسی کو لاکھ سمجھائیے کہ بھائی! زندگی اس لیے عطا نہیں کی گئی کہ باتوں میں ضائع کردی جائے۔ دنیا میں عارضی قیام کا موقع ملا ہے تو کچھ کرنا ہے‘ کچھ کر دکھانا ہے؛ اگر محض بتیانا ہی زندگی کے مترادف و مساوی ہوتا تو پھر دنیا کا میلہ سجانے کی ضرورت کیا تھی؟ یہ میدانِ عمل ہے‘ یہاں عمل ہی کی دال گلتی ہے۔ باتوں کی پتیلی صرف پانی ابلتا رہتا ہے‘ پکتا کچھ نہیں۔ ہاں‘ دماغ ضرور پک جاتے ہیں! بات ہو رہی ہے معاشرتی ڈھانچے کی‘ جس نوعیت کا معاشرہ 
ہوتا ہے اُسی نوعیت کی باتیں پروان چڑھتی ہیں۔ عادات کا رخ بھی معاشرے کی نوعیت ہی سے متعین ہوتا ہے۔ روزمرہ معاملات ہوں یا میڈیا کے پروگرام‘ ہر جگہ بات ہی کی اہمیت ہے۔ قوم باتیں بنارہی ہے اور باتیں سنارہی ہے۔ یہ نکتہ ذہن نشین رہے کہ اہمیت مستند رائے کی نہیں‘ صرف باتیں بنانے کی ہے۔ ٹھوس‘ پختہ اور مستند رائے عوام کو بھاتی نہیں۔ بھائے بھی کیسے؟ جو چیز حلق سے نیچے نہ اُترے اُسے لوگ کیسے پسند کرسکتے ہیں؟ ایک زمانے سے ہمارے ہاں عمومی چلن یہ ہے کہ مل بیٹھیے اور باتوں کا پوٹلا کھول لیجیے۔ اور اِس کے بعد کسے یاد رہتا ہے کہ کتنا وقت گزر گیا۔ باتوں میں گم ہو رہنے کی عادت ایسی پختہ ہوچلی ہے کہ ایک بار باتوں کی پٹاری کھولنے کے بعد یاد ہی نہیں رہتا کہ اُسے بند بھی کرنا ہوتا ہے! باتوں کی محفل سجتی ہے تو پھر اُجڑنے سے انکار کردیتی ہے۔ ع 
حضرتِ داغؔ جہاں بیٹھ گئے‘ بیٹھ گئے! 
جہاں سارا زور بولنے پر ہو‘ وہاں کرنے کی بات کرنے والے خال خال پائے جاتے ہیں۔ بولنے پر اکتفا کرنے والوں کو کرنے کی طرف لانے میں عمریں کھپ جاتی ہیں‘ زمانے گزر جاتے ہیں۔ یاروں نے طے کرلیا ہے کہ زندگی کی ٹرین کو باتوں کے ہر اسٹیشن پر یوں ٹھہرایا جائے کہ عمل کا ہر اسٹیشن انتظار ہی کرتا رہ جائے! 
کہنے اور کرنے کا فرق ایسا نہیں کہ سمجھ میں نہ آسکے‘ جو صرف باتیں بنانا اور باتوں کی بنیاد پر شیخی بگھارنا جانتے ہیں‘ اُنہیں بھی اچھی طرح معلوم ہے کہ صرف باتوں سے پیٹ نہیں بھرتا ‘مگر پھر بھی وہ باتوں سے پیٹ بھرنے کی اپنی سی تگ و دَو میں مصروف رہتے ہیں۔ ایک بنیادی سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے۔ بات سیدھی سی ہے۔ عمل کا مطلب ہے کچھ کرنااور باتوں کا مطلب ہے صرف زبان ہلانا۔ زبان ہلانے میں کون سی توانائی خرچ ہوتی ہے؟ بولتے چلے جائیے‘ باتوں کے دریا کی روانی میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ دریا کی روانی میں اضافہ کرنا کوئی کٹھن مرحلہ ہے ‘نہ اس روانی میں بہنا۔ خود کو باتوں کے دھارے پر چھوڑ دیجیے‘ جہاں یہ پہنچانا چاہے گا‘ وہاں تو پہنچا ہی دے گا۔ اصل مسئلہ اس دریا کو عبور کرکے عمل کے کنارے تک پہنچنے کا ہے۔ یہ کام کتنا کٹھن ہے ‘اس کا اندازہ ہم سب کو ہے اور اچھی طرح ہے۔ حقیقت کو جانتے ہوئے بھی ہم اُسے اپنانے کی منزل سے دور رہتے ہیں۔ کچھ ایسی ہی کیفیت کو غالبؔ نے یوں بیان کیا ہے ؎ 
جانتا ہوں ثوابِ طاعت و زہد 
پر طبیعت اِدھر نہیں آتی 
یعنی مسئلہ طبیعت کو اِدھر لانے کا ہے۔ لایعنی و لاحاصل ''نکات‘‘ پر اندھا دُھند اور اندھے کی طرف سے گھمائی جانے والی لاٹھی جیسی بحث سے خود کو دور رکھنا ایک جاں گُسل مرحلہ ہے۔ جہاں سارا زور باتوں پر ہو وہاں اچھا خاصا وقت یہ سوچنے میں گزرتا ہے کہ کس نے کیا کہا اور جواباً کیا کہنا ہے۔ باتیں بنانے کا ''ہنر‘‘ ویسے تو خیر پوری دنیا میں عام ہے اور کسی نہ کسی شکل میں وقت کے ضیاع کا باعث بن ہی رہا ہے مگر پاکستان جیسے معاشروں میں معاملہ زیادہ ٹیڑھا‘ بلکہ خطرناک ہے۔ خطرناک یوں کہ قدرت نے جو وقت خالصاً عمل کیلئے عطا کیا ہے وہ محض باتوں کی چوکھٹ پر قربان ہو رہا ہے۔ قدم قدم پر ع 
خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے ‘دیوانے دو 
والی کیفیت پائی جارہی ہے۔ باتوں کو عمل کے متبادل کی حیثیت سے اپنالیا گیا ہے۔ جس طور عمل کا ردِ عمل ہوتا ہے بالکل اُسی طور بات کے جواب میں بھی بات پیدا ہوتی ہے اور پھر اُس کے جواب میں بھی بات پیدا ہوتی ہے۔ یہ سلسلہ بڑھتا جاتا ہے اور معاملات عمل کی منزل تک پہنچنے کا نام نہیں لیتے۔ آج ہمارے معاشرے کی عمومی کیفیت یہ ہے کہ آدھا وقت یہ سوچنے میں گزرتا ہے کہ کس نے کیا کہا ہے اور کیوں کہا ہے۔ اور یہ کہ اُس کے جواب میں کیا کہا جانا چاہیے! 
یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ ذہن اپنے طور پر کچھ نہیںکرتا۔ کمپیوٹر کی طرح ذہن بھی ہماری دی ہوئی command کے مطابق کرتا ہے۔ ذہن کو ہم اگر باتوں میں الجھائے رکھیں گے تو وہ باتوں تک محدود رہے گا۔ عمل کی طرف لے جائیں گے تو عمل کو اپنائے گا۔ یہ مرحلہ البتہ مشکل ہے۔ اِس میں محنت زیادہ لگتی ہے۔ لگنی بھی چاہیے۔ معاملہ لطیف و کثیف کا ہے۔ بدبو ہمیشہ خوشبو پر چھا جاتی ہے کیونکہ خوشبو لطیف ہوتی ہے اور بدبو کثیف۔ باتیں کثیف ہوتی ہیں اور عمل لطیف۔ ذرا سی لاپروائی برتی اور عمل ہاتھ سے گیا۔ 
اب یہ تو ہمیں طے کرنا ہے کہ ہماری ٹرین باتوں کے ہر اسٹیشن پر رکتی رہے گی یا عمل کی منزل تک پہنچنے کی کوشش بھی کرے گی۔ ہمیں باتوں سے کچھ آگے‘ بلکہ بہت آگے جاکر عمل کے ساتھ زندگی بسر کرنی ہے۔ 
وقت ساتھی اور معاون بھی ہے مگر یہی وقت فریبی اور ہرجائی بھی تو ہے۔ ہم اِسے اہم سمجھیں تو یہ معاون ہے۔ ہم لاپروا ہوں تو یہ ہرجائی ہے۔ ایسی حالت میں یہ کچھ اس طرح گزرتا ہے کہ احساس تک نہیں ہوتا۔ اور جب ہوش آتا ہے تب ہوش ٹھکانے نہیں رہتے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں