"MIK" (space) message & send to 7575

مار دوگے ہنسا ہنساکے ہمیں!

بھارتی میڈیا آؤٹ لیٹس نے تو جیسے قسم کھا رکھی ہے کہ ہمیںہنسا ہنساکے مار ڈالیں گے۔ ایک لطیفہ ختم نہیں ہوتا اور دوسرا سامنے آ جاتا ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ کتنا ہنسیں اور کب تک ہنسیں۔ پاکستان کا نام آتے ہی بھارتی میڈیا آؤٹ لیٹس کی آنکھوں پر تعصب اور نفرت کی پٹی بندھ جاتی ہے اور اس کے بعد سوچے سمجھے بغیر بولنے کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ اینکرز ایک ایک لفظ کو چبا چباکر یوں بیان کرتے ہیں کہ کسی بھی معقول انسان کے لیے ہنسی روک پانا انتہائی کٹھن مرحلہ ٹھہرتا ہے۔ 
گزشتہ روز ممبئی کے تاج محل ہوٹل اور وکٹوریہ ٹرمنل پر حملوں کے دس سال مکمل ہوئے تو بھارتی خفیہ اداروں کو کچھ الگ ہی سُوجھی۔ نئی دہلی میں ریڈ الرٹ جاری کیا گیا کہ پاکستان سے دو ''آتنک وادی‘‘ بھارت میں داخل ہوکر بڑی تباہی کے منصوبے پر عمل کرنے والے ہیں۔ ان دونوں کی تصویر پر مشتمل پوسٹر اور ہینڈ بل بھی نئی دہلی کی دیواروں پر چسپاں کیے گئے۔ تصویر میں دو نوجوان ایک سنگِ میل پر کھڑے مسکرا رہے ہیں۔ سنگِ میل پر ''دہلی 360 میل‘‘ درج ہے۔ شاید 360 کے عدد سے بھارتی میڈیا نے ''چھتیس کا آنکڑا‘‘ کشید کیا ہوگا! یہ سنگِ میل قصور کی گنڈا سنگھ بارڈر کے نزدیک ہے۔ بھارتی میڈیا نے یہ سب کچھ اس طور پیش کیا گویا دونوں نوجوان تسلیم شدہ دہشت گرد ہوں اور مطلوب افراد کی فہرستوں میں نمایاں مقام رکھتے ہوں۔ کچھ ہی دیر میں یہ بات کھل کر سامنے آئی کہ فیصل آباد کی جامعہ امدادیہ کے طلباء طیب اور ندیم نے اجتماع سے واپسی پر یہ تصویر کھنچوائی تھی۔ دونوں پاکستان میں ہیں۔ 
ممبئی میں جب تاج محل ہوٹل اور وکٹوریہ ٹرمنل پر حملہ کیا گیا تھا تب بھی تمام معاملات کا تعلق کسی نہ کسی طور پاکستان سے جوڑنے کی دُھن میں معقولیت کو مکمل خیرباد کہہ دیا گیا تھا۔ بھارتی میڈیا نے رائی کے ہر دانے کو پربت میں تبدیل کرنے کی کوشش کی اور جہاں تک ہوسکا‘ اہلِ پاکستان کو ہنسا ہنساکر بے حال کرنے کرنے کی تگ و دَو میں لگے رہے۔ کسی بھی بات کا سِرا ہاتھ آتے ہی ایران توران کی ہانکنے کا سلسلہ شروع کردیا جاتا تھا اور یہ سلسلہ اُسی وقت رکتا تھا جب کوئی بہت بڑا ''بھنڈ‘‘ ہو جاتا تھا اور نامعقول باتوں کے سلسلے کو آگے بڑھانا ممکن نہ ہوتا تھا۔ 
اب جبکہ برف پگھلتی دکھائی دے رہی ہے اور کرتا پور گردوارے تک خصوصی راہداری بنانے کی بات ہو رہی ہے‘ بھارتی میڈیا کی طرف سے لطیفہ بازی شدید نقصان کا باعث بن سکتی ہے۔ دہلی میں ریڈ الرٹ جاری کرتے ہوئے پوسٹر اور ہینڈ بل بھی چسپاں کرنے کی ذمہ داری پولیس کو سونپی گئی۔ اس ذمہ داری کو ادا کرنے پر خود پولیس اہلکار بھی ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہوگئے ہوں گے۔ ایسا ہی ہونا ہی چاہیے تھا‘جس معاملے کا سَر ہو نہ پیر اُس کے بارے میں کوئی کیا کیا سوچے اور ہنسی کہاں تک ضبط کرے؟ 
ایک زمانے سے بھارتی میڈیا کا وتیرہ یہی رہا ہے کہ پاکستان کے بارے میں کہیں سے کوئی بھی بات مل جائے تو بے پَر کی اڑانا شروع کیا جائے اور اُس وقت تک سکون کا سانس نہ لیا جائے‘ جب تک خود کو بے وقوفی کا پوری شدت سے احساس نہ ہو جائے۔ بھارت میں دیسی و مقامی زبانوں کے اخبارات و جرائد اور چینل اس معاملے میں خطرناک حد تک جانبدار‘ جذباتی اور جنونی ہیں۔ انتہا پسند ہندو ہندی اور علاقائی زبانوں کے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو اپنے مفادات کے لیے بھرپور انداز سے بروئے کار لاتے ہیں۔ ایک طرف تو پاکستان کے نام پر جذبات بھڑکائے جاتے ہیں اور پھر اِسی عمل کی ذیلی پیداوار کے طور پر بھارتی مسلمانوں کے خلاف بھی دل کی بھڑاس نکالنے سے دریغ نہیں کیا جاتا۔ یہ عمل تواتر سے جاری رہا ہے۔ جیسے ہی کوئی بہانہ ہاتھ لگتا ہے‘ پاکستان اور بھارتی مسلمانوں کے خلاف توپیں داغنے کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ اس حوالے سے تیاری پوری رکھی جاتی ہے۔ ایشوز تیار کیے جاتے ہیں اور پروان چڑھانے کے بعد سامنے لاکر فضاء مکدّر کی جاتی ہے۔ 
دونوں ممالک کے درمیان تعلقات ایک زمانے سے کشیدہ ہیں اور کشیدہ تر ہوتے جارہے ہیں۔ جب بھی بیک ڈور یا ٹریک ٹو ڈپلومیسی کے ذریعے معاملات درست کرنے کی کوشش کی جاتی ہے‘ انتہا پسند ہندو کوئی نہ کوئی جواز تلاش کرکے کشیدگی برقرار رکھنے کی راہ ہموار کرتے ہیں۔ چند برس سے یہ سب کچھ گائے کی حفاظت کے نام پر ہو رہا ہے۔ جہاں گائے کے ذبیحے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ‘اُن شہروں اور دیہی علاقوں میں بھی کسی نہ کسی بہانے بے قصور مسلمانوں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ جاری رہا ہے۔ 
چار پانچ سال سے مذہب کی تبدیلی کا ہوّا کھڑا کرکے مسلمانوں کے خلاف نیا محاذ کھڑا کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی ہے۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک اور ایسے ہی مضبوط اعصاب کے دیگر مبلّغین کی مساعی سے بھارت میں ہر ذات اور نسل کے ہندو اسلام کے گوشہ ٔعافیت میں آرہے ہیں۔ نچلی ذات کے ہندو اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کے مظالم سے تنگ آکر اسلام کو اپنے لیے قلعے کے روپ میں قبول کر رہے ہیں۔ معاشرتی اور اخلاقی پستی کے باعث ہندو معاشرے کو چھوڑنے والوں میں خواتین کی تعداد نمایاں ہے۔ یہ بات انتہا پسند ہندوؤں سے ہضم نہیں ہو پارہی۔ ہندوؤں کی مقدس کتب اور مجموعی ماحول میں پائے جانے والے تضاد کو دور کرنے کی بجائے مسلمانوں کے خلاف صف آراء رہنے کو ترجیح دی جارہی ہے۔ ہندوؤں میں مختلف سطحوں پر تبدیلیٔ مذہب کی لہر اب تک برقرار ہے۔ انتہا پسند ہندوؤں کا کہنا ہے کہ غریب ہندوؤں کو لالچ دے کر‘ ورغلاکر مسلمان بنایا جارہا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ فی زمانہ کون ہے جو چند پیسوں کے لالچ میں مسلمان ہونا چاہے گا۔ موجودہ بھارتی معاشرے میں اگر کوئی ہندو اسلام کے دامن میں ابدی پناہ تلاش کرتا ہے تو اُس کے باضمیر اور شجیع ہونے کا اندازہ کوئی بھی لگا سکتا ہے۔ جہاں اسلام کا نام لینا انسان کو گردن زدنی بناتا ہو وہاں کون ہے جو محض لالچ کے تحت یا دباؤ میں آکر اللہ کی وحدانیت اور نبیٔ آخرالزماںؐ کی رسالت پر ایمان لائے گا؟ یہ تو بڑے دل گردے کا کام ہے اور وہی کرسکتا ہے‘ جس کے دل میں واقعی ایمان کی شمع جل اٹھی ہو۔ 
علاقائی اور عالمی حالات تیزی سے بدل رہے ہیں۔ جنوبی ایشیا میں بھی بہت کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے۔ ایسے میں بھارتی معاشرے کو بھی متوازن اور معتدل رہنا چاہیے۔ 
معاملات کو درست رکھنے میں بھارتی میڈیا کو کلیدی کردار ادا کرنا ہے‘ مگر امرِ واقعہ یہ ہے کہ بھارتی میڈیا انتہا پسند ہندوؤں کے ہاتھوں یرغمال ہے یا پھر پبلک ڈیمانڈ کے اصول کی بنیاد پر وہی مال پیش کرتا ہے‘ جو آسانی سے بِکتا ہے۔ یہ کیفیت معاملات کو الجھا رہی ہے۔ سرحد کے دونوں طرف اعتدال کی بات کرنے والے ہیں‘ مگر خاصی قلیل تعداد میں۔ حکومتوں کی نیت بھی اہمیت رکھتی ہے۔ اب جبکہ برف پگھلنے لگی ہے‘ بھارتی میڈیا کو احساسِ ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے بات کا بتنگڑ بنانے اور رائی کا پربت کھڑا کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ بے ڈھنگی باتوں اور اوچھی حرکتوں سے لوگوں کو ہنسانے کی بجائے بھارتی میڈیا سنجیدگی اپنائے اور مثبت معاملات کو مضبوط بنانے پر متوجہ ہو۔ بے بنیاد اور کھوکھلی لطیفہ بازی کو کسی اور وقت پر اٹھا رکھا جائے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں