"MIK" (space) message & send to 7575

دنیا کا کیا ہے‘ اُس نے صدا بار بار دی

پنگھٹ سجا ہوا تھا۔ پنہارنیں پانی بھر رہی تھیں۔ کہیں چند خواتین جمع ہوں اور باتیں نہ ہوں‘ ایسا بھی ہوسکتا ہے؟ یقیناً نہیں اور پنگھٹ پر بھی ایسا نہیں ہو رہا تھا۔ گھڑوں میں پانی بھی ڈالا جارہا تھا اور باتوں کا دریا بھی بہہ رہا تھا۔ 
قریب ہی درخت کے سائے میں ایک سادھو مہاراج سستا رہے تھے۔ تکیے کے طور پر انہوں نے ایک بڑا سا‘ بے ہنگم پتھر رکھا ہوا تھا۔ ایک پنہارن نے کہا ''بابا جی سادھو تو ہوگئے ‘مگر تکیے کا موہ نہیں گیا۔‘‘ 
سادھو نے یہ جملہ سُنا تو جھٹ سے پتھر پھینک دیا۔ یہ منظر دیکھ کر دوسری پنہارن نے کہا ''تپسیا ادھوری لگتی ہے۔ اب تک اشتعال کا مادّہ ختم نہیں ہوا۔ کسی کی بات سن کر اتنا غصہ کہ تکیہ ہی پھینک دیا۔‘‘ 
سادھو مہاراج سوچنے لگے اب کیا کریں؟ تیسری پنہارن بولی ''آپ بھی کمال کرتے ہیں ‘مہاراج۔ ہم جیسیاں تو آتی جاتی رہیں گی اور باتیں بناتی ہی رہیں گی۔ اگر ہماری باتوں میں آکر بار بار کچھ نہ کچھ تبدیل کریں گے تو سادھنا کب کروگے؟‘‘ 
سادھو بابا یہ سن کر سوچ میں ڈوب گئے۔ چوتھی پنہارن بولی ''ایسا لگتا ہے کہ آپ نے دنیا تو چھوڑ دی ہے‘ مگر دِل اب تک دُنیا سے چِمٹا ہوا ہے۔ اب تک وہیں کے وہیں کھڑے ہیں۔ دنیا جو کہتی ہے ‘وہ کہتی رہے۔ آپ کو کسی سے کیا غرض؟ دنیا ڈھونگی بھی کہے تو کیا ہوا؟ یہ دنیا ہے‘ اس کا تو کام ہی کچھ نہ کچھ کہتے رہنا ہے۔ یہ اپنا کام کر رہی ہے ‘تو آپ بھی اپنا کام کرتے رہیے۔‘‘ 
دنیا کی یہی کہانی ہے۔ یہاں کوئی کسی کو سکون سے رہنے نہیں دیتا۔ کچھ بھی کہنے میں کچھ خاص توانائی خرچ ہوتی ہے نہ کوئی ٹیکس لگتا ہے۔ جو جی میں آئے بول دیجیے اور کم از کم اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرلیجیے۔ یہی عمومی چلن ہے۔ کسی بھی بات کو سُن کر کسی پر کیا بیتتی ہے یہ وہ جانے۔ لوگ اپنے حصے کا کام کر گزرتے ہیں اور نتیجے یا نتائج کی پروا کیے بغیر سکون کی چادر تان کر تماشا دیکھتے ہیں۔ 
اگر کوئی سر اٹھاکر چلے تو کہا جاتا ہے مغرور ہوگیا ہے۔ سر جھکاکر چلے تو کہا جاتا ہے یہ تو کسی کو دیکھتا ہی نہیں۔ کوئی آنکھیں بند رکھے تو کہا جاتا ہے کہ یہ تو ''دھیان‘‘ (مراقبے) کا ناٹک کر رہا ہے۔ اگر آنکھیں کھول کر دیکھنے کی کوشش کی جائے تو سُننے کو ملتا ہے کہ ''دیدہ دِلیری‘‘ تو دیکھو‘ ذرا ''دیدہ گھمائی‘‘ تو ملاحظہ فرمائیے۔ اور اگر کوئی ایسی ویسی باتوں سے تنگ آکر آنکھیں پھوڑ لے تو تبصرہ ہوتا ہے ''کیا ہوا تو آخر کو بھوگنا ہی پڑتا ہے!‘‘ 
رب کو راضی کرنا بہت آسان ہے اور رب کی بنائی ہوئی دنیا اور اس میں رہنے والوں کو خوش رکھنا انتہائی دشوار‘ بلکہ قریباً ناممکن ہے۔ انسان اپنی اصل میں محض حیوانِ ناطق ہی نہیں ‘بلکہ اچھا خاصا ''حیوانِ ناقد‘‘ بھی ہے۔ عمومی انسانی مزاج یہ ہے کہ خود کچھ نہ کیجیے اور اگر کوئی کچھ کرے تو ٹوکیے‘ روکیے۔ باتیں بنانا محض شوق نہیں‘ بلکہ اس سے کہیں آگے جاکر ''ایجنڈا‘‘ بھی ہے۔ انسانی مزاج کا عمومی جھکاؤ بے عملی کی طرف ہے۔ ذرا سلیقے والی زبان میں کہیے تو یوں ہے کہ انسان کو ''سٹیٹس کو‘‘ پسند ہے۔ کسی بھی معاشرے میں واضح اکثریت یہی چاہتی ہے کہ کچھ نہ بدلے‘ سب کچھ جوں کا توں رہے۔ 
باتیں بنانے کا رجحان ویسے تو انسانوں کے ہر گروہ میں پایا جاتا ہے ‘مگر یہ رجحان وہاں زیادہ طاقتور دکھائی دیتا ہے‘ جہاں ہلچل کے آثار ہوں‘ معاملات تبدیلی کی طرف جارہے ہوں۔ کہیں بھی رونما ہوتی ہوئی کوئی سی بھی تبدیلی بہت سوں کو بس یونہی پریشان کردیتی ہے۔ لوگ چاہتے ہیں کہ معاملات کسی ایک مقام پر ٹھہرے رہیں‘ تبدیلی کی ہوا نہ چلے۔ کسی بھی سطح پر رونما ہونے والی معمولی سی بھی تبدیلی انسان کو بے حواس سا کردیتی ہے۔ 
باتیں بنانے کا ''کمال‘‘ ایک طرف تو اس امر کا غماز ہے کہ انسان کچھ نہ کچھ کہنا چاہتا ہی ہے۔ ماحول میں جو کچھ بھی دکھائی اور سنائی دیتا ہے وہ انسان کو کسی نہ کسی حوالے سے سوچنے کی تحریک دیتا ہے۔ جب ذہن میں سوالات کُلبلاتے ہیں اور خیالات کوئی واضح شکل اختیار کرنے لگتے ہیں‘ تب انسان چاہتا ہے کہ لب کشائی کے مرحلے سے گزرے‘ یعنی کچھ کہے؛ اگر کہنے کیلئے کچھ ہو تو لب کشا ہونے میں کچھ ہرج نہیں ‘مگر مشکل یہ ہے کہ لوگ کسی جواز یا تیاری کے بغیر بولنا شروع کردیتے ہیں۔ ایک بولنا تو محض بولنے کے کھاتے میں ہوتا ہے ‘یعنی عادت سی پڑ جاتی ہے کہ کچھ نہ کچھ کہیے رہیے۔ دوسرا بولنا اس لیے ہوتا ہے کہ بولنے کے لیے کچھ نہ کچھ ہوتا ہے۔ چلیے‘ غنیمت ہے کہ کوئی اُسی وقت بولے جب بولنے کے لیے کچھ ہو۔ تیسرے درجے میں بولنا اس لیے ہے کہ کسی کو پریشان کیا جائے‘ ذہنی خلل سے دوچار کیا جائے۔ ایسا بالعموم اُس وقت ہوتا ہے جب کوئی کسی تبدیلی کی راہ ہموار کرنے کی تیاری کرتا ہے۔ دنیا کو تبدیلی سے چِڑ ہے۔ ہر دور میں کسی بھی سطح پر تبدیلی کی راہ میں روڑے اٹکانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ 
بات بہت عجیب ہے۔ آج ہمیں دنیا میں جتنی بھی ترقی اور چمک دمک دکھائی دے رہی ہے ‘وہ تبدیلی ہی کا تو نتیجہ ہے۔ اگر کچھ بھی تبدیل نہ ہوا ہوتا تو دنیا آج دشت و صحرا کا منظر پیش کر رہی ہوتی۔ ہر دور کے بہت سے انسانوں نے دن رات ایک کرکے جن چند تبدیلیوں کی راہ ہموار کی انہی کے نتیجے میں آج ہمیں ہر شعبہ غیر معمولی پیش رفت اور ترقی سے ہم کنار دکھائی دے رہا ہے۔ ہمیں زندگی کے ہر معاملے کو آسان بنانے کے حوالے سے جتنے بھی آلات اور ٹیکنالوجیز میسر ہیں‘ وہ سب مختلف سطحوں پر رونما ہونے والی تبدیلیوں‘ یعنی پیش رفت ہی کا نتیجہ ہیں۔ ایسے میں یہ بات انتہائی حیرت انگیز محسوس ہوتی ہے کہ انسان تبدیلی سے اب بھی دور بھاگتا ہے۔ 
ایسا کیوں ہے؟ انسان تبدیلی سے گھبراتا کیوں ہے اور تبدیلی کی راہ روکنے کے لیے ٹوکنے کا سلسلہ کیوں شروع کرتا ہے؟ تبدیلی کی اہمیت کو جانتے اور سمجھتے ہوئے بھی انسان آخر ہر تبدیلی کی راہیں مسدود کرنے کی کوشش کیوں کرتا ہے؟ یہ سوالات ایسے نہیں کہ آسانی سے نظر انداز کردیئے جائیں۔ لوگ تبدیلی سے اُتنا نہیں ڈرتے جتنا اپنے مفادات کے داؤ پر لگنے سے ڈرتے ہیں۔ جب تبدیلی آتی ہے تو بہت کچھ داؤ پر بھی لگتا ہے۔ تخریب کے پہلو میں تعمیر بھی ہوتی ہے مگر لوگ تخریب سے اس قدر خوفزدہ ہو جاتے ہیں کہ بہتری کے امکان یعنی تعمیر کی گنجائش کے بارے میں سوچنے سے گریز کرکے محض پریشان و بے حواس ہو رہنے کی منزل میں ٹھہرے رہتے ہیں۔ 
لوگ کچھ نہ کچھ کہنے کے عادی اس لیے ہوتے ہیں کہ اُنہیں کسی بھی تبدیلی کے رونما ہونے کی صورت میں انجانا سا خوف ستاتا رہتا ہے۔ جب بھی کوئی کسی واضح مقصد کے تحت عمل کی دنیا میں قدم رکھتا ہے تب کسی نہ کسی بڑی تبدیلی کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ ایسے میں بہت کچھ داؤ پر لگتا ہے۔ بس‘ اسی مرحلے پر روک ٹوک شروع ہوتی ہے‘ جنہیں تبدیلی کی صورت میں اپنے مفادات داؤ پر لگتے دکھائی دیتے ہیں‘ وہ ہر نئے عمل پر معترض ہوتے ہیں‘جن کا عزم پختہ اور لگن توانا ہو وہ اِدھر اُدھر دیکھے بغیر چلتے رہتے ہیں ؎ 
ساحل کرے گا یاد اُسی نامراد کو 
کشتی خوشی سے جس نے بھنور میں اُتار دی 
جب چل پڑے سفر کو کیا مُڑ کے دیکھنا 
دنیا کا کیا ہے‘ اُس نے صدا بار بار دی 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں