ہم ایک ایسے موڑ پر آگئے ہیں جہاں سے کئی راستے نکلتے ہیں۔ ہر راستہ منزل کی طرف جاتا ہوا سا لگتا ہے۔ اب اِس موڑ سے کہاں جانا ہے یہ سمجھ میں نہیں آرہا۔ کوئی راہ نما بھی نہیں۔ فیصلہ خود کرنا ہے۔ یہ فیصلہ ذہن کی ساری قوت کشید کرنے والا، حواس نچوڑ لینے والا معلوم ہوتا ہے۔ آخر ایسا کیا ہوگیا ہے کہ ہماری سمجھ میں کچھ بھی نہیں آرہا؟ ایسی کون سی مصیبت پڑگئی ہے کہ ہر چیز اپنے موزوں ترین مقام سے ہٹ کر کہیں اور دکھائی دے رہی ہے؟ سبھی کچھ اُلٹا، پلٹا ہوا سا کیوں لگتا ہے؟
یہ سب وقت کی کاری گری ہے۔ وقت کے غمزہ و عِشوہ و ادا نے خون کا پانی کر رکھا ہے۔ ہر دور کے انسان کی طرح اکیسویں صدی کے انسان کے لیے بھی سب سے بڑا مسئلہ وقت ہے۔ یہ سمجھ لیجیے کہ وقت نے وَختا ڈالا ہوا ہے۔ اور تو سب کچھ سمجھ میں آتا جارہا ہے ‘مگر وقت ہے کہ سمجھ میں بالکل نہیں آرہا۔ اِس کی حقیقت پر جتنا غور کیجیے الجھن اُتنی ہی بڑھتی ہے، دیدہ و دل کی حیرانی دوچند ہوتی جاتی ہے۔ خیر، وقت کے بارے میں سوچنا اور پریشان ہونا نئی بات ہے نہ انوکھی۔ ہزاروں سال سے انسان کا سب سے بڑا مسئلہ وقت ہی تو رہا ہے۔ ہر دور کے لوگ یہ سوچتے رہے ہیں کہ وقت کی حقیقت کیا ہے، اِسے زیادہ سے زیادہ کارآمد اور بار آور کس طور بنایا جاسکتا ہے۔ وقت کے بارے میں سو طرح کے تصورات پائے جاتے ہیں۔ اور یہ بھی حق ہے کہ اِس کے بارے میں سوچنے والوں کی اکثریت آخر آخر میں محض الجھی ہوئی پائی گئی ہے۔ فطری علوم کے ماہرین سے پوچھیے تو جواب ملتا ہے کہ وقت تو کوئی چیز ہے ہی نہیں۔ کائنات میں جو تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں وہی احساس دلاتی ہیں کہ وقت ہے اور گزر رہا ہے۔ اگر سب کچھ ساکت و جامد ہو جائے تو وقت نام کی الجھن بھی باقی نہ رہے۔ فطری علوم کے ماہرین جو کچھ وقت کے بارے میں کہتے ہیں وہ بھی محض قیاس ہے۔ پورے تیقّن سے کچھ کہنا تو اُن کے بس کی بات بھی نہیں۔ جب ماہرین بے بس ہیں تو عام آدمی اور اُس کے ناچیز ذہن کی بساط ہی کیا ہے۔ وہ بے چارہ تو صرف بحث سنتا ہے اور لاچار ہوکر دیکھتا، سوچتا رہ جاتا ہے۔ اِس منزل سے آگے جانا اُس کے ذہن کے دائرۂ اختیار میں نہیں۔
آج کے انسان کا انتہائی بنیادی مسئلہ وقت کو بروئے کار لانے کا ہے۔ سُورج نکلتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے ڈوب بھی جاتا ہے۔ یہ تماشا روز ہو رہا ہے۔ کم ہی ہیں جنہیں اس معمول کے دائرے سے نکلنا نصیب ہو پاتا ہے۔ ہو بھی کیسے؟ اِس کے لیے خاصی مہارت، مشق اور مشقّت درکار ہے۔ ذہن کو سِدھانا جنگل کے شیر کو سِدھانے سے کہیں مشکل ہے۔ یہ بار بار بِدک جاتا ہے۔ عبیداللہ علیم نے کہا تھا ؎
محبتوں میں عجب ہے دلوں کو دھڑکا سا
کہ جانے کون کہاں راستہ بدل جائے
ذہن کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ یہ دیکھتے ہی دیکھتے کہیں سے کہیں جا نکلتا ہے، کچھ بھی کر بیٹھتا ہے۔ انسان سو منصوبے تیار کرتا ہے کہ وقت سے یہ کام لینا ہے، وہ کام لینا ہے۔ اور وقت ہے کہ اُس کے مزاج ہی نہیں ملتے۔ دن تیزی سے گزر کر ہفتے، مہینے اور سال کی شکل اختیار کرتے ہیں اور انسان کو مزید حیران کر جاتے ہیں۔ ع
میں دیکھ ہی رہا تھا کہ منظر بدل گیا
فی زمانہ ایک موضوع گرما گرم کیک کی طرح فروخت ہو رہا ہے۔ یہ ہے ٹائم مینجمنٹ یعنی وقت کی تفہیم و تنظیم۔ ہم وقت کو کیا manage کر پائیں گے، در حقیقت اپنے آپ کو حساب کتاب میں لانا ہوتا ہے۔ جو اپنے حواس پر قابو پانے اور اُن سے کام لینے میں کامیاب ہو پائے‘ وہی وقت کو بھی بروئے کار لانے میں کامیاب رہتا ہے۔ یہ وصف قدرت کی طرف سے عطا نہیں ہوتا، سیکھنا پڑتا ہے۔ اور وقت کے تقاضوں کے مطابق خود کو تبدیل کرنے، نظم و ضبط کے سانچے میں ڈھلنے کا عمل اعصاب شکن مہارت و مشقّت کا طالب ہے۔ ع
رنگ لاتی ہے حِنا پتّھر پہ پِس جانے کے بعد
ایک زمانے سے سنتے آئے ہیں کہ وقت کم، مقابلہ سخت۔ اب معلوم ہوا کہ اِس طرح کے سو جملے بھی مقبول ہوجائیں تو وقت کی حقیقت کے ادراک کا حق ادا نہیں ہوسکتا۔ ہمارے پاس اگر کچھ ہے تو لے دے کر بس وقت ہی تو ہے۔ یہی دولت ہے اور اگر اِسے ضائع ہونے دیجیے تو یہی سب سے بڑا خسارہ ہے۔ وقت کے ضیاع اور اُس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے تاسّف کا اِس سے بڑا ثبوت کیا ہوگا کہ ہم میں سے بیشتر گزرے ہوئے زمانوں میں رہتے ہیں۔ وقت کو بے مصرف گزرنے کی اجازت دے کر ہم اپنے لیے مستقل نوعیت کے گِریے کا اہتمام کرتے ہیں۔ انسان کا ایک بڑا مسئلہ یہی رہا ہے کہ وہ وقت کے بارے میں سوچتا زیادہ ہے اور وقت کو برتنے کا ہنر سیکھنے پر خاصی کم توجہ دیتا ہے۔ ہر شخص یہ سمجھتا ہے کہ جو زمانہ گزر گیا وہی اچھا تھا۔ اور اس حوالے سے سوچتے رہنے سے قریۂ جاں میں وحشت بسی رہتی ہے۔ ہر گزرتا ہوا لمحہ دل و دماغ کو کچوکے لگاکر کہتا ہے کہ جو گزر گیا وہی تو وقت تھا۔ اب اِس کے بعد تو کچرے کا ڈھیر رہ گیا ہے۔ یہی سبب ہے کہ ہم میں سے بیشتر گزرے ہوئے زمانوں میں رہنا پسند کرتے ہیں، اُنہیں یاد کرکے لمحۂ موجود سے یوں گریزاں رہتے ہیں گویا یہ کوئی عذاب کی گھڑی ہو۔ ؎
کچھ اور بڑھتی ہے وحشت سی اِس زمانے سے
کبھی جب اپنے زمانوں کو یاد کرتا ہوں
یہ مایا جال بھی وقت ہی کا پیدا کردہ ہے کہ اُس کے بارے میں سوچیے اور الجھتے ہی رہیے۔ انسان کا نصیب یہ ہے کہ زندگی بھر وقت کے بارے میں گمان باندھتا ہے اور یقین کی منزل سے دور ہوتا جاتا ہے۔ آج پھر ہم اُس موڑ پر ہیں جہاں سب سے زیادہ توجہ وقت کو سمجھنے پر مرکوز رکھنا ہے۔ وقت کا فہم ہی ہمارے لیے سرمایۂ جاں ہے۔ جس نے وقت کی قدر جانی وہی جانا گیا۔ جو نہ جان پایا اُسے بھلانے میں آب و گِل کے اِس جہاں کو پل بھی نہ لگا۔ وقت کل بھی گزرتا تھا اور اب بھی گزر ہی جاتا ہے ‘مگر اب وقت کے گزرنے کا احساس بھی بڑھتا جارہا ہے۔ دن دیکھتے ہی دیکھتے یوں گزرتے ہیں کہ سال میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ آنکھوں کے سامنے دس پندرہ سال کی مدت یوں گزرتی ہے کہ ذہن سوچتا ہی رہ جاتا ہے۔ وقت ہاتھ سے یوں پھسل رہا ہے کہ اِس کا سِرا ہاتھ نہیں آتا۔ آج کے انسان کو گزرے ہوئے اور آنے والے زمانوں کے مایا جال سے نکلنا ہے۔ عظیم اگر ہے تو بس لمحۂ موجود ہے۔ یہی وقت کی اصل ہے۔ سارے فیصلے لمحۂ موجود میں ہوتے ہیں۔ یہ سمجھ لیجیے کہ لمحۂ موجود کی عظمت پائے تو کچھ تو کچھ سمجھ پائے اور اِس کی توقیر کی تو کچھ کر پائے۔ ایسا نہ ہو پائے تو سمجھ لیجیے کچھ بھی ہاتھ میں نہ رہا۔ ٹائم مینجمنٹ کے نام پر وقت سے نپٹنے کے بجائے ہمیں اپنے آپ سے نپٹنا ہے، اپنے وجود کو ایسے سانچے میں ڈھالنا ہے کہ وقت سے زیادہ سے زیادہ استفادہ ممکن ہوسکے۔ اکیسویں صدی کے انسان کے لیے کرنے کا کام یہی ہے۔ باقی سب کچھ تو اپنے آپ ہوتا چلا جائے گا۔