ایک زمانے سے یہ بات کہی جارہی ہے کہ کتب بینی کی موت واقع ہو رہی ہے اور یہ موت ہے کہ واقع ہوکر نہیں دے رہی۔ درحقیقت نہ صرف یہ کہ کتب بینی کی موت واقع نہیں ہو رہی ‘بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اِس رجحان کو تقویت مل رہی ہے۔ یہ بات ہم پاکستانی معاشرے کے تناظر میں نہیں کہہ رہے۔ دنیا بھر میں آج بھی اہلِ علم کتب کے ذریعے ٹھوس انداز سے اپنی بات کہہ رہے ہیں اور اُن کے کہے (یا لکھے) کو وقیع سمجھنے والوں کی تعداد کم نہیں۔
ترقی یافتہ معاشروں کی ایک بنیادی شناخت یہ بھی ہے کہ وہاں لوگ اب تک کتاب کو نہیں بھولے اور اُسے یوں حرزِ جاں بنا رکھا ہے کہ دیکھ کر سمجھ میں نہیں آتا کہ زیادہ حیرت ہونی چاہیے یا رشک۔ کتب بینی کا رجحان ان معاشروں میں وقت گزرنے کے ساتھ توانا تر ہوتا جارہا ہے۔ حد یہ ہے کہ لوگ معاشی سرگرمیوں کے حوالے سے کیے جانے والے یومیہ سفر کے دوران بھی کچھ نہ کچھ پڑھتے رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ فرانس اور جرمنی کے حوالے سے یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ لوگ بس یا ٹرین میں سفر کے دوران عامیانہ جذبات سے لب ریز ناول نہیں پڑھتے (جیسا کہ ہمارے ہاں ہوتا ہے) بلکہ خالص فلسفیانہ کتب کا بھی مطالعہ کرتے ہیں! اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان معاشروں میں فکر و نظر کی عمومی سطح کیا ہوگی۔
ترقی پذیر معاشروں میں مطالعے کا رجحان ہے تو سہی ‘مگر زیادہ توانا نہیں۔ ایسے معاشروں میں لوگوں کی ترجیحات کچھ اور ہیں۔ لوگ زیادہ کمانے پر توجہ مرکوز رکھتے ہیں۔ معاشی سرگرمیوں سے تھوڑی سی نجات ملے تو تفریح طبع کا اہتمام کرنے پر توجہ دی جاتی ہے۔ کتب بینی کو زندگی کی بنیادی ترجیحات میں شامل کرنے کا رجحان اب تک پیدا نہیں ہوا۔ ایسے میں یہ توقع کیونکر کی جاسکتی ہے کہ یہ معاشرے علم دوستی اور عمل پسندی میں ترقی یافتہ معاشروں کے مقابل ہوسکیں گے!
اب آئیے پاکستان جیسے پس ماندہ معاشروں کی طرف۔ ایسے معاشروں میں اول تو کتب بینی کا رجحان انتہائی کمزور ہے اور جو تھوڑا بہت رجحان ہے‘ وہ عمومی سطح پر پست معیار کے مواد کو پڑھنے تک محدود ہے۔ لوگ زندگی کی تلخ حقیقتوں سے دامن چھڑانے کے لیے فکشن کا سہارا لیتے ہیں اور فکشن بھی وہ جس میں خوش خیالی ضرورت سے زیادہ ہو اور لچر پن بھی بے لگام ہو۔ سوچے سمجھے بغیر لکھا جانے والا فکشن کسی کام کا نہیں ہوا کرتا۔ ترقی یافتہ معاشروں میں لوگ فکشن بھی وہ پڑھتے ہیں ‘جو زندگی کی حقیقتوں کا عکاس ہو اور ذہن کو کسی نہ کسی حد تک جھنجھوڑتا ہو۔ پس ماندہ معاشروں میں عامیانہ نوعیت کا فکشن پڑھا جارہا ہے اور اسے مطالعہ سمجھ کر سکون کا سانس لیا جارہا ہے۔
پاکستان جیسے معاشروں میں مطالعے کا رجحان کمزور ہے اور کتب بینی کا رجحان کمزور تر۔ لوگوں کو کتب بینی کی طرف راغب کرنے کا ایک اچھا طریقہ یہ ہے کہ انہیں اخبارات و جرائد کے ذریعے کتب پڑھوائی جائیں۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ اخبارات و جرائد کی ترجیحات بھی بدل چکی ہیں۔ فرمائشی نوعیت کی چیزیں شائع کرنے پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے اور اس نوعیت کی تحریریں بھی خاص محنت کے بغیر پیش کردی جاتی ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ لوگوں میں پڑھنے کا ذوق و شوق پروان چڑھنے کی بجائے زوال سے دوچار ہوا ہے۔
لوگوں کو آج بھی کتب بینی کی طرف لایا جاسکتا ہے۔ مسئلہ کتاب کی لاگت سے کہیں بڑھ کر یہ ہے کہ کتب کی تیاری پر محنت نہیں کی جارہی۔ ہمارے ہاں دنیا بھر کی معیاری کتب کے تراجم شائع کرنے کا رجحان عام ہے۔ تراجم شائع کرنا کوئی بُری بات نہیں۔ مشکل یہ ہے کہ تراجم بھی سرسری سے اور پُھسپُھسے ہوتے ہیں۔ محنت کے بغیر کیا جانے والا ترجمہ اصل کا حق تو کیا ادا کرے گا‘ قاری کو معمولی سطح پر مطمئن کرنے میں بھی ناکام رہتا ہے۔ کراچی اور لاہور کے بیشتر ناشر چاہتے ہیں کہ انہیں کہیں سے کوئی مسوّدہ مل جائے اور شائع کردیں۔ توجہ صرف اس بات پر دی جاتی ہے کہ آٹھ سو تا ہزار کاپیاں نکل جائیں۔ ٹھیک ہے‘ کاروباری نقطۂ نظر سے بھی سوچنا چاہیے کہ لاگت کا منافع کے ساتھ وصول کیا جانا ایک بنیادی زمینی حقیقت ہے ‘مگر ساتھ ہی ساتھ معیار پر بھی توجہ دی جانی چاہیے۔ معیار کے بلند ہونے ہی سے مطالعے کا رجحان بھی قوی تر ہوگا اور لوگ زیادہ توجہ سے پڑھنے کی طرف مائل ہوں گے۔
جب بھی کتب بینی کے رجحان کے کمزور پڑنے کی بات ہوتی ہے تو کہا یہ جاتا ہے کہ انٹر نیٹ نے سب کچھ ختم کردیا ہے۔ انٹر نیٹ پر کتب دستیاب ہیں اور کچھ ادا کیے بغیر ہزاروں کتب آسانی سے پڑھی اور ڈاؤن لوڈ کی جاسکتی ہیں۔ اس حد تک تو بات درست ہے ‘مگر یہ سوال بھی تو اپنی جگہ ہے کہ لکھنے والے انٹر نیٹ کو شکست دینے کے حوالے سے کچھ کر رہے ہیں؟ پوری دیانت اور غیر جانب داری سے جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوتا ہے کہ لکھنے کا حق ادا کرنے پر معمولی سی بھی توجہ نہیں دی جارہی۔ انٹر نیٹ کو شکست دینے سے مراد یہ ہے کہ کتب اتنی محنت سے لکھی یا مرتب کی جائیں کہ انٹر نیٹ پر فری سوفٹ کاپی میسر ہونے پر بھی لوگ ہارڈ کاپی خریدنے کو ترجیح دیں اور کمپیوٹر میں سوفٹ کاپی کے ساتھ ساتھ ڈرائنگ روم کے شیلف میں ہارڈ کاپیاں رکھنے کو بھی عادت بنالیں۔ اس وقت پاکستان میں شائع ہونے والی کم و بیش 90 فیصد کتب ایسی ہیں ‘جن کے لکھنے پر محنت کی جاتی ہے نہ تدوین و ادارت پر۔ فکشن کا حال سب سے بُرا ہے۔ بیشتر فکشن رائٹرز لکھنے کے نام پر محض گپ ہانک رہے ہوتے ہیں۔ کہانی تو خیر ہوتی ہی ایک نشست کی ہے‘ بہت سے ناول بھی دس پندرہ دن میں نمٹادیئے جاتے ہیں۔ ذہن میں بنیادی خیال کے ابھرتے ہی ایک خاکہ بنایا جاتا ہے اور پھر اس خاکے میں رنگ بھر دیئے جاتے ہیں۔ بہت سے فکشن رائٹرز اور خاص طور ڈائجسٹوں کے رائٹرز یومیہ تیس چالیس صفحات بھی لکھ لیتے ہیں۔ معاملہ مقدار کا ہے‘معیار کا نہیں۔
کتب لکھتے وقت سرسری نوعیت کی تحقیق کی بھی زحمت گوارا نہیں کی جاتی۔ کسی موضوع پر جامع اور مبسوط انداز سے لکھنے کے لیے بنیادی حقائق کا ادراک لازم ہے۔ ہمارے ہاں عمومی سطح کی تحقیق پر بھی توجہ نہیں دی جاتی تو سوچیے کہ بھرپور یا جامع تحقیق کی فکر کسے لاحق ہوگی! کتاب ڈھنگ سے لکھی جائے ‘تو آج بھی ہزار ہزار کاپیوں کے چار پانچ ایڈیشن فروخت کرنا کوئی مشکل کام نہیں۔ معیاری چیز کی طلب ہمیشہ برقرار رہتی ہے۔ سوال صرف یہ ہے کہ متعلقہ افراد اپنے حصے کا کام کرنے کے لیے کس حد تک تیار ہیں۔
کتب بینی کے مستقبل سے مایوس ہونے کی ضرورت نہیں۔ ابلاغ کے دیگر ذرائع کے ترقی پانے کے باوجود ترقی یافتہ معاشروں میں کتاب آج بھی زندہ ہے اور اس لیے زندہ ہے کہ کتاب کے لکھنے پر بہت محنت کی جاتی ہے۔ لوگ بھی کتاب اس یقین کے ساتھ خریدتے ہیں کہ یہ اخبارات کی سرسری انداز کی تحریروں سے کہیں بلند درجے کی ہوگی اور ایسا ہی ہوتا ہے۔ ہمیں بھی اگر کتب بینی کو زندہ رکھنا ہے تو کتاب کو نئی زندگی دینا ہوگی۔ کتاب کے لکھنے پر محنت کیے بغیر‘ اُس کا معیار بلند کیے بغیر ہم یہ توقع نہیں کرسکتے کہ لوگ آنکھ بند کرکے کتاب خریدتے رہیں گے۔