"MIK" (space) message & send to 7575

بھلا یہ بھی کوئی بات ہوئی …

جب سے پی ٹی آئی کی حکومت آئی ہے‘ ہر معاملے میں تبدیلی لانے کے نام پر ہنگامہ کھڑا کرنے کو روایت کا درجہ حاصل ہوگیا ہے۔ جہاں آوے کا آوا بگڑا ہوا ہو‘ وہاں راتوں رات سب کچھ درست نہیں کیا جاسکتا ‘مگر پی ٹی آئی کے پرچم تلے قائم کی جانے والی حکومت بضد ہے کہ جو کچھ بھی کرنا ہے فوری طور پر کرنا ہے‘ تیزی سے کرنا ہے۔ 
معیشت کو ٹریک پر لانے کی کوشش کے حوالے سے ایسے تمام اقدامات کیے جارہے ہیں‘ جو قوم کو مزید الجھانے اور پریشانی سے دوچار کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔ ٹیکس وصولی بڑھانے کے لیے جو کچھ سوچا جارہا ہے‘ وہ عوام کو مزید خوفزدہ کر رہا ہے۔ کسی کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ اب کیا کیا جائے۔ 
قومی معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے قرضوں پر انحصار کا طریقہ اپنایا گیا ہے۔ یہ کوئی انوکھی بات نہیں۔ ہمارے ہاں حکومتیں یہی تو کرتی آئی ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ ملک قرضوں کے بوجھ تلے دب کر رہ گیا ہے۔ آئی ایم ایف سے مزید قرض لینے کے لیے بات چیت ہوئی ہے۔ سعودی عرب مؤخر ادائیگی پر تیل فراہم کر رہا ہے۔ چین نے اضافی طور پر 2 ارب ڈالر دینے کا اعلان کیا ہے‘ تاکہ ڈالر کے مقابلے میں روپیہ مزید گراوٹ کا شکار نہ ہو۔ اُس کے ''مالیاتی احسانات‘‘ پہلے ہی اچھے خاصے ہیں۔ 
یہاں تک تو سب ٹھیک تھا۔ ملک چلانا اُن کا کام ہے‘ جو حکم چلاتے ہیں اور جو کچھ بھی وہ کرتے ہیں‘ اُس کی غایت کچھ اُنہی کے علم میں ہوسکتی ہے۔ ع
رموزِ مملکتِ خویش خسرواں دانند 
اب معاملہ عوام تک آگیا ہے۔ اُن کے خالص ذاتی معاملات کو بھی چھیڑ چھاڑ کے مرحلے سے گزرنا پڑ رہا ہے۔ اب یہی دیکھیے کہ قومی ایئر لائن میں فضائی میزبانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ اپنا وزن کم کریں یا پھر گھر جائیں۔ اس حوالے سے واضح ہدایات بھی جاری کی گئی ہیں۔ ہر ماہ کم از کم پانچ پاؤنڈ وزن گھٹانے کی ہدایت کی گئی ہے۔ اس حکم نامے نے پی آئی اے میں صرف فضائی میزبانوں کو پریشانی سے دوچار نہیں کیا‘ بلکہ ہر شعبے میں تشویش کی لہر دوڑا دی ہے‘ جنہیں فی الحال کوئی حکم نہیں دیا گیا اُن کے دل بھی دہل کر رہ گئے ہیں۔ لوگ تشویش میں مبتلا ہیں کہ اب کیا ہوگا‘ کسے کیا حکم دیا جائے گا اور یہ کہ گھٹانے بڑھانے کا سلسلہ کب تک چلے گا! 
نئی حکومت کیا آئی ہے‘ عام آدمی تو سوچوں کا اسیر ہوکر رہ گیا ہے۔ حکم نامے اور ہدایت نامے جاری ہو رہے ہیں اور دِلوں کو دہلا رہے ہیں۔ یہ وہی کیفیت ہے ‘جس کی طرف مرزا غالبؔ کے ایک خط میں درج شعر کے ذریعے اشارا کیا گیا ہے ؎ 
روز اس شہر میں اک حکم نیا ہوتا ہے 
کچھ سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ کیا ہوتا ہے 
پی آئی اے کی انتظامیہ کی طرف سے جاری کیا جانے والا حکم نامہ تمام فضائی میزبانوں کے لیے ہے‘ یعنی خواتین کو استثنٰی نہیں دیا گیا۔ اور سچ تو یہ ہے کہ بات فضائی میزبان کی ہو اور معاملہ وزن تک پہنچے تو سمجھ لیجیے خواتین کی بات ہو رہی ہے۔ مرد فضائی میزبان کے وزن کے بڑھے ہوئے یا گھٹے ہوئے وزن سے کسی کو کیا دلچسپی ہوسکتی ہے؟ 
فضائی میزبانوں کو وزن گھٹانے کا حکم کیا ملا چینلز کو تو ڈگڈگی مل گئی اور اسے بجانے میں دیر بھی نہیں لگائی گئی۔ ڈگڈگی بجتے ہی جائزوں اور مشوروں کا سلسلہ شروع ہوا۔ ماہرین نے آراء سے یوں نوازنا شروع کیا گویا وزن گھٹانا صرف فضائی میزبانوں کا نہیں ‘بلکہ پورے ملک کا معاملہ یا مسئلہ ہواور یہ کہ حکم کے مطابق؛ وزن نہ گھٹانے پر ملک کے ہر فرد کو تادیب کے مرحلے سے گزرنا پڑے گا! 
وزن گھٹانے کے حوالے سے کیا کھانا اور پینا چاہیے یہ بھی بتایا جانے لگا۔ کس چیز کے کھانے سے وزن کتنا گھٹے گا اور کیا کھانے سے وزن تیزی سے بڑھے گا‘ یہ سب کچھ ڈائٹ پلان کی شکل میں سمجھایا جانے لگا۔ چینلز نے ٹِکرز چلانا شروع کردیا کہ فضائی میزبانوں پر کڑاہی گوشت‘ بار بی کیو‘ قورمہ‘ بریانی اور سری پائے کے دروازے بند کردیئے گئے! دیکھتے ہی دیکھتے ایسا محسوس ہونے لگا‘ جیسے وزن کا ایک خاص حد سے گزرنا ملک کا سنگین ترین بحران ہو! 
وزن کا ایک خاص یا معقول حد سے گزرنا پولیس میں بھی بہت بڑا مسئلہ رہا ہے۔ پنجاب میں یہ معاملہ بہت سنگین شکل اختیار کرتا رہا ہے‘ مگر جن سے پورا معاشرہ کانپتا ہے‘ انہیں وزن گھٹانے کا حکم کیسے دیا جائے؟ رسمی کارروائی کے طور پر کبھی کبھی وزن گھٹانے کی ہدایت کردی جاتی ہے‘ اور بس۔ کس میں ہمت ہے کہ ہدایت کے مطابق؛ وزن نہ گھٹانے والے پولیس اہلکاروں کی گوشمالی کرے! سزا دینے والوں کا بس صرف وہاں چلتا ہے ‘جہاں گردن پتلی ہو اور آسانی سے گرفت میں آجائے۔ فضائی میزبانوں کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ 
مرزا تنقید بیگ کو ایسا ہر سرکاری حکم نامہ زہر لگتا ہے‘ جس میں ''شخصی آزادی‘‘ کو داؤ پر لگایا گیا ہو۔ فضائی میزبانوں کے لیے جاری کیے جانے والے حکم نامے کے بارے میں سن کر بھی اُنہیں دھچکا لگا ‘کیونکہ اُن کے نزدیک وزن بڑھانا اور گھٹانا خالص انفرادی و ذاتی معاملہ ہے‘ جس میں مداخلت نہیں کی جاسکتی۔ ہر ماہ ایک خاص حد تک وزن گھٹانے کی ہدایت کو مرزا نے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کے ذیل میں لیا ہے۔ اُن کے نزدیک یہ تو انتہا ہے کہ انسان کھانے پینے سے بھی جائے؛ اگر انسان کچھ بھی کھاتے پیتے وقت یہ سوچے کہ اس سے وزن کتنا بڑھے گا اور محکمہ جاتی کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا تو کھانے پینے کا کیا‘ جینے ہی کا لطف جاتا رہے گا! 
مرزا کا معاملہ یہ ہے کہ خود دھان پان سے ہیں اور بھابی فضائی میزبان معلوم ہوتی ہیں! یہ بات مرزا کو اچھی طرح معلوم ہے کہ وزن کس طور گھٹتا یا بڑھتا ہے‘ مگر وہ کھل کر کچھ کہتے نہیں ‘کیونکہ اس میں شخصی آزادی داؤ پر لگے یا نہ لگے‘ ذاتی عزت ضرور ٹھکانے لگ سکتی ہے۔ یہ بات ہم بھی اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ مرزا کا وزن نچلی سطح پر رکھنے اور انہیں وزن کے اعتبار سے پی آئی اے کے سٹینڈرڈ کا قابلِ تقلید نمونہ بنانے میں بھابی نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ بھابی کے ساتھ زندگی بسر کرتے کرتے مرزا کا خون اس قدر خشک ہوتا رہا ہے کہ وزن نے کبھی بڑھنے کا نام ہی نہیں لیا! 
وزن گھٹانے کے اس فارمولے پر عمل کرکے پی آئی اے ''کے‘‘ فضائی میزبان تو وزن گھٹالیں گے‘ مگر قومی ایئر لائن ''کی‘‘ فضائی میزبانوں کا کیا ہوگا؟ ایسا کچھ بھی کہاں سے لایا جاسکے گا ‘جو اُن کا خون خشک کرنے میں کامیاب ہو اور نوبت محکمہ جاتی کارروائی تک نہ پہنچے! 
بات شروع ہوئی تھی قومی ایئر لائن میں فضائی میزبانوں کا وزن کنٹرول کرنے سے اور پہنچی مرزا کے گھریلو معاملات تک اور یوں باتوں باتوں میں یہ راز بھی طشت از بام ہوگیا کہ مرزا جو تاحال اتنے دھان پان سے اور معروف مفہوم میں ''سلِم‘‘ ہیں تو کیونکر ہیں! تبدیلی یقینی بنانے کے نام پر کی جانے والی ایسی کارروائیاں کس کام کی جو لوگوں کے گھریلو معاملات کو بھی یوں منظر عام پرلاکر تماشا بنادیں! 
یہ کالم لکھتے وقت ہم بھی قدرے لرزاں و ترساں رہے ہیں‘ کیونکہ وزن کے اعتبار سے ہم بھی اِس منزل میں ہیں کہ ''ایڈوائزری‘‘ جاری کی جائے! اگر کبھی ادارے نے حکم دیا کہ وزن کو معقول حد تک گھٹانے میں ناکامی کی صورت میں کارروائی ہوگی تو یقین جانیے کہ ہم لکھ چکے اور آپ پڑھ چکے۔ ایسی حکومت سے ہم تو بھر پائے جس کے عہد میں ہماری کالم نگاری بھی داؤ پر لگ جائے!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں