یہ موقع اِس بحث میں پڑنے کا نہیں کہ وقت کیا ہوتا ہے‘ اُس کی رفتار کیا ہوتی ہے‘ وقت کی کوئی رفتار ہوتی بھی ہے یا نہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وقت کچھ ہوتا بھی ہے یا نہیں۔ جو کچھ ہماری آنکھوں کے سامنے ہے وہ صرف یہ ہے کہ وقت کو پَر لگ گئے ہیں‘ وہ قیامت کی چال چل رہا ہے۔ جو وقت کا ساتھ دینے کی کوشش کرے وہ بھی مشکل میں اور جو ایسا نہ کرنا چاہے وہ بھی مشکل میں۔ دانش کا تقاضا تو یہی ہے کہ وقت کا ساتھ دیا جائے‘ اُس کے ساتھ چلنے کی بھرپور کوشش کی جائے۔ ایسا کرنے میں اگر اُصولوں کی تھوڑی بہت قربانی بھی دینا پڑے تو ایسا کرنے میں کچھ مضائقہ نہیں۔ صرف یہ نکتہ ملحوظِ خاطر رہے کہ وقت کا ساتھ دینے کی صورت میں وجود کی بنیاد ہی داؤ پر نہ لگ جائے۔
اکیسویں صدی صرف اور صرف تیزی سے عبارت ہے۔ سبھی کچھ بہت تیزی سے ہو رہا ہے۔ انسان کو پرورش کی مراحل سے گزرتے ہوئے ہوش سنبھالنے میں ایک زمانہ لگ جاتا تھا۔ اب یہ عمل بہت تیز رفتار ہوگیا ہے۔ آج ڈیڑھ سال کا بچہ بھی سمجھ لیتا ہے کہ موبائل فون پر بات کیسے کی جاسکتی ہے اور دو سوا دو سال کا بچہ یہ بھی جان لیتا ہے کہ کال کیسے کی جاتی ہے۔ یہ ذہانت نہیں محض آگہی (awareness) ہے۔
کیا واقعی ایسا ہے کہ وقت کی رفتار بہت بڑھ گئی ہے اور ہم بہت پیچھے رہ گئے ہیں؟ اور کیا اب ہم اِس پوزیشن میں نہیں رہے کہ وقت کا ساتھ دے سکیں یا اُس کے ساتھ چلنے کی کوشش میں معقول حد تک کامیاب ہوسکیں؟ کیا وقت ہمیں مکمل طور پر اپنا غلام بناچکا ہے؟ کیا واقعی وقت کی اسیری سے چُھٹنا ہمارے لیے اب کسی بھی طور ممکن نہیں رہا؟ یہ اور ایسے ہی بہت سے دوسرے سوال ذہنوں میں ہر وقت کُلبلاتے رہتے ہیں۔ نئی نسل کو یہ سوال زیادہ پریشان کرتے ہیں۔ سبب اس کا یہ ہے کہ آپشنز یعنی امکانات بہت زیادہ ہیں اور وقت واقعی بہت کم۔ ہمیں قدرت کی طرف سے یومیہ بنیاد پر 24 گھنٹے ملتے ہیں اور جو کچھ ہم کرنا چاہتے ہیں اُس کے لیے تو یومیہ 100 گھنٹے بھی بہت کم ہیں۔وقت کا تیزی سے گزرنا ایک معمّہ ہے مگر یہ معمّہ ایسا پیچیدہ بھی نہیں کہ حل نہ ہوسکے۔ ہم میں سے بہت سے ہیں جو وقت کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں‘ اپنی تنظیمِ نو کرتے ہیں اور ایک ایسی زندگی بسر کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں جس میں سب کچھ اپنے مقام پر پایا جاتا ہے۔ ایسے میں یہ سوال اہم ہے کہ اگر وقت کے ساتھ چلنا‘ اُس سے بہتر طور پر مستفید ہونا ممکن نہیں تو مختلف شعبوں میں کچھ لوگ غیر معمولی کامیابی سے کیونکر ہم کنار ہو پاتے ہیں۔
ایک صدی کے دوران دنیا میں سبھی کچھ تبدیل ہوگیا ہے۔ ایک انتہائی پیچیدہ تبدیلی یہ ہے کہ جو کچھ بھی نیا سامنے آتا ہے وہ پہلے سے موجود چیزوں کے لیے گنجائش کو صفر کی سطح پر لے آتا ہے یعنی پرانی چیزوں کو ردی کے بھاؤ بِکنا ہی پڑتا ہے۔ یہ اِتنی بڑی تبدیلی ہے کہ چشمِ فلک نے پہلے کبھی نہ دیکھی تھی۔ اِس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ زمانہ آگے بڑھ رہا ہے اور انسان کا ماضی سے رشتہ ٹوٹتا جارہا ہے۔ حواسِ خمسہ پر دباؤ میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ بہت کوشش کرنے پر بھی انسان کے لیے حواس کو دباؤ سے مکمل طور پر محفوظ رکھنا ممکن نہیں ہو پارہا۔ اس حوالے سے اگر کوئی کامیاب ہوتا بھی ہے تو خاصے مجاہدے کے بعد۔ کسی دور میں دُنیا سے بے رغبتی کے لیے صوفیا جس نوعیت کی ریاضت کیا کرتے تھے اب ویسی ہی ریاضت زندگی کو آسان تر بنانے والی اشیا کی غلامی سے بچنے کے لیے درکار ہے۔ انسان نے زندگی کو زیادہ سے زیادہ آسان بنانے کے لیے چند صدیوں کے دوران جو کچھ ایجاد کیا ہے وہ اب اِکائی کی راہ پر بڑھ رہا ہے۔ کل تک جو سہولتیں پندرہ بیس بڑے بڑے آلات میں پائی جاتی تھیں وہ اب ہتھیلی پر رکھے ہوئے موبائل سیٹ میں پائی جاتی ہیں!
وقت کم رہ جانے کی شکایت تمام ہی معاشروں میں پائی جاتی ہے۔ آج کا پاکستانی معاشرہ بہت سے معاملات میں دقیانوسی سوچ کے دائرے سے نکل نہیں پایا مگر پھر بھی بہت کچھ ہے جو بدل گیا ہے اور مزید بہت کچھ بدل جانے کے فراق میں ہے۔ ایسے میں سوچنا لازم ہے کہ وقت کی کمی کے مسئلے کو کس طور حل کیا جائے کہ زندگی کی آسانیوں میں کوئی کمی بھی نہ آئے اور بات بھی بنی رہے۔ آج کی دنیا میں سب کچھ انتہائی تیز رفتار ہے۔ ہم ابھی دیکھ ہی رہے ہوتے ہیں کہ منظر تبدیل ہو جاتا ہے۔ کبھی کبھی صورتحال ایسے بے ہنگم طریقے سے تبدیل ہوتی ہے کہ سمجھ ہی میں نہیں آتا کہ کس نوعیت کا ردِ عمل ظاہر کیا جائے۔ معاملات کی ترتیب آن کی آن میں بگڑ جاتی ہے اور پھر ایک ہی آپشن رہ جاتا ہے ... کفِ افسوس ملتے رہیے۔
جو معاشرے وقت کا ساتھ دینا چاہتے ہیں اور جن میں کچھ کر گزرنے کی تمنّا جوان ہے وہ اس بات کا بھرپور اہتمام کرتے ہیں کہ وقت سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا جائے۔ اس کے لیے لازم ہے کہ ہر معاملے میں تیز رفتاری کو شعار بنایا جائے۔ وقت کی رفتار تیز نہیں ہوئی۔ معاملہ یہ ہے کہ کرنے کے لیے بہت کچھ ہے اور یومیہ بنیاد پر دستیاب وقت خاصا محدود۔ ایسے میں ہر انسان کو ایسا لگتا ہے کہ وقت کو پَر لگ گئے ہیں اور وہ بہت ہی اونچا اڑ رہا ہے۔ انسان جو کچھ بھی کرنا چاہتا ہے اُس کے مقابلے میں بہت ہی کم کر پاتا ہے۔ انسان کو ہر روز وقت کی کمی کا بہت شدت سے احساس ہوتا ہے۔ روزانہ بہت کچھ ادھورا اور اُس سے بھی زیادہ ''بے کِیا‘‘ رہ جاتا ہے۔ یعنی روزانہ ہی کچھ نہ کچھ خسارہ جُڑتا ہے۔ انسان اِس خسارے کو بھول نہیں پاتا۔ یہی سبب ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وقت کے نہ ہونے یا بہت کم ہونے کا احساس بھی شدت اختیار کرتا جاتا ہے۔ یہ شدید احساس انسان کے حواس پر بُری طرح اثر انداز ہوتا ہے اور پھر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب وقت کو بہتر اور مفید انداز سے بروئے کار لانے سے زیادہ توجہ اِس نکتے پر مرکوز رہتی ہے کہ جو کچھ نہیں ہو پایا ہے اور نہیں ہو پارہا ہے اُس کا ماتم کیسے کیا جائے!
دنیا بھر میں ایسے طریقے اختیار کیے جارہے ہیں جن کا بنیادی مقصد وقت سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرنا ہے۔ کم وقت میں زیادہ سے زیادہ کام یقینی بنانا اِس دور کا سب سے بڑا چیلنج ہے اور اِس چیلنج کا سامنا کرنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ اِس کے لیے غیر معمولی ذہنی تیاری کرنا پڑتی ہے‘ شخصیت کو نظم و ضبط کے سانچے میں ڈھالنا پڑتا ہے۔ آج ہر شعبہ اختصار کی طرف مائل ہے تاکہ کم وقت میں زیادہ کام کیا جاسکے۔ بنیادی سوچ یہ ہے کہ دودھ پینے کے بجائے اُس کی بالائی اُتار کر اُس سے مستفید ہوا جائے۔ کتب خوانی ہی کی مثال لیجیے۔ آج دنیا بھر میں کتب سے زیادہ اُن کے معیاری خُلاصے پڑھے جارہے ہیں‘ اور مقبول بھی ہیں۔ گویا اب دانش مند وہی ہے جو دودھ پر بالائی کو ترجیح دے!