خطے کی عجیب ہی حالت ہوئی جاتی ہے۔ ایک طرف تو جنگی جنون کو پروان چڑھانے کا بازار گرم ہے اور دوسری طرف امریکا چاہتا ہے کہ افغانستان میں اُس کی بھڑکائی ہوئی جنگ کی آگ پر اب پانی ڈال دیا جائے۔ آگ بہت حد تک بُجھ چکی ہے‘ مگر راکھ میں چند ایک بڑے انگارے دہک رہے ہیں۔ جب کبھی تیز ہوا چلتی ہے ‘تو یہ انگارے بھڑک کر شعلوں کا روپ دھارنے کے بعد امریکا کو ڈراتے ہیں۔ یہ کیفیت امریکا کے لیے انتہائی پریشان کن ہے۔ یہی سبب ہے کہ امریکی قیادت طالبان سے مذاکرات کے ذریعے معاملات کو درست کرنے کی راہ پر گامزن ہے۔
مشکل یہ ہے کہ خطے میں کئی کھلاڑی لنگوٹ کس کر میدان میں آگئے ہیں۔ چین‘ روس اور ترکی کے بعد اب سعودی عرب نے بھی مورچہ سنبھالنے کی ٹھانی ہے۔ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے حالیہ دورۂ پاکستان کو خطے میں سعودی عرب کے کردار میں توسیع کے حوالے سے دیکھا جارہا ہے۔ صائب رائے رکھنے والے بعض حلقوں کی یہ بھی رائے ہے کہ سعودی قیادت سرمایہ کاری کے نام پر پاکستان کی طرف آتی دکھائی دی ہے‘ مگر حقیقت یہ ہے کہ اُسے بھیجا گیا ہے۔ سعودی عرب کی مدد سے ایک طرف تو چین کے بڑھتے ہوئے کردار کو روکنا مقصود ہے اور دوسری طرف بھارت کیلئے ایران کے دل میں پائے جانے والے نرم گوشے کا بھی کچھ توڑ کرنا ہے۔ چا بہار بندر گاہ کے ذریعے بھارتی قیادت ایران اور افغانستان کے ساتھ مل کر پاکستان کے خلاف تھوڑے بہت leverage کی فکر میں ہے۔
سعودی عرب دنیا بھر میں سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ پاکستان میں چند ارب ڈالر لگانا اُس کے لیے کوئی بڑا مسئلہ نہیں‘ لیکن اگر یہ عمل اپنی مرضی کے مطابق ہو تو ٹھیک ہے؛ اگر سعودی قیادت خود مہرہ بن کر پاکستان کو بھی مہرہ بنانے کا سوچے تو بات تشویش کی ہے اور پھر یہ بھی واضح نہیں کہ پاکستان پر نوازشیں کن شرائط کے تحت ہیں۔ انگریزی کا مشہور محاورہ ہے کہ دنیا میں فری لنچ نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی‘ یعنی ہر کام کسی نہ کسی مفاد کے تحت ہوتا ہے۔ یہ بات حیرت انگیز ہے ‘نہ افسوسناک۔ دنیا کے تمام معاملات آپس میں جُڑے ہوئے ہیں۔ انگریزی ہی میں کہا جاتا ہے کہ کوئی بھی انسان جزیرہ نہیں‘ یعنی تمام انسان آپس میں جُڑے ہوئے ہیں۔ تمام افکار و اعمال کا باہمی تفاعل کسی طور نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
بین الریاستی تعلقات کا بھی ایسا ہی معاملہ ہے۔ ان تعلقات میں کوئی فری لنچ ہے ‘نہ کوئی ملک خود کو جزیرہ سمجھ کر الگ تھلگ رہ سکتا ہے۔ کہیں نہ کہیں‘ کسی نہ کسی سے جُڑنے کا فیصلہ کرنا ہی پڑتا ہے۔ پاکستان کے لیے یہ چیلنج کئی بار سَر اٹھا چکا ہے۔ اقوام کی برادری میں قدرے وقار کے ساتھ جینے کا معقول طریقہ یہ ہے کہ دانش مندانہ فیصلے کیے جائیں۔ بہت کچھ ہے‘ جو ہمارے اختیار میں ہے‘ مگر اُس سے کہیں زیادہ وہ ہے ‘جس پر ہمارا ذرّہ برابر اختیار نہیں۔ ع
ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات
پاکستان ایک بار پھر تِراہے پر کھڑا ہے۔ ایک راستہ مشرقی طاقتوں کی طرف جاتا ہے‘ جس پر چل کر کچھ زیادہ کھوئے بغیر بہت کچھ پایا جاسکتا ہے۔ چین اور روس کی طرف حقیقی دوستی اور تعاون کا ہاتھ بڑھاکر اُن کے لیے بہت کچھ کیا جاسکتا ہے اور اُن سے بھی بہت کچھ پایا جاسکتا ہے۔ دوسرا راستہ (روایتی) مغرب نوازی کا ہے۔ امریکا اور یورپ سے یہ حقیقت ہضم نہیں ہو پارہی کہ چین‘ روس اور ترکی مل کر جنوبی و جنوب مشرقی ایشیا میں ایک بڑا بلاک بنانے کی کوشش کریں۔ ''پاور شِفٹ‘‘ کا یہ مرحلہ امریکا اور یورپ کے لیے بہت تکلیف دہ ہے‘ کیونکہ بہت سے معاملات پر اُن کا کچھ اختیار نہیں اور پھر یہ امر بھی سوہانِ روح ہے کہ پاکستان جیسا روایتی قسم کا ''خادم‘‘ بھی ہاتھ سے نکل رہا ہے! ایسے میں امریکا اور یورپ کا مل کر کسی نہ کسی طور خطے میں اپنا تاثر برقرار رکھنے پر تُل جانا حیرت انگیز نہیں۔ چین‘ روس اور ترکی کے مقاصد کی تکمیل کے لیے پاکستان کا استحکام لازم ہے۔ پاکستان کے استحکام کی راہ میں ایک بڑی دیوار کھڑی کرنے کے لیے اب آئی ایم ایف کو مہرے کے طور پر بروئے کار لایا جارہا ہے۔ تیسرا راستہ سعودی عرب کی طرف نکالا گیا ہے۔ سعودی قیادت ویسے تو خیر دنیا بھر میں سرمایہ کاری کر ہی رہی ہے ‘مگر پاکستان کی طرف اُس کے ملتفت ہونے کو ایران و بھارت کے گرد گھیرا تنگ کرنے کے تناظر میں تشویش کی نظر سے دیکھا جارہا ہے۔
پاکستان کو التفات کی ضرورت ہے‘ مگر یہ التفات خلوص کے ساتھ ہو تو کچھ بات بھی ہے۔ کسی سے اظہارِ نفرت کے لیے کیا جانے والا التفات ہمارے کس کام کا؟ اور یہ کہ ایسی صورت میں تھوڑی بہت امداد مل بھی جائے تو ہم اُس امداد سے کس طور اپنا بھلا کرسکتے ہیں؟ اصل سوال نیت کا ہے۔ دوستی‘ مفاہمت اور تعاون کے نام پر اگر کوئی طاقت ہمیں اپنے مہرے کے طور پر استعمال کرنے کے درپے ہے تو ہم میں بھی اتنا شعور تو ہونا ہی چاہیے کہ آسانی سے کسی کے دام میں نہ آئیں‘ سادہ لوحی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے مفادات کو داؤ پر نہ لگا بیٹھیں!
بین الریاستی تعلقات میں تمام معاملات کے بہ طریقِ احسن طے پانے کا مدار کسی بھی دوسرے عامل سے زیادہ ٹائمنگ پر ہے۔ ہر ریاست کیلئے مفادات کو زیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم کرنا اُسی وقت ممکن ہے جب فیصلہ بروقت کیا جائے۔ حالات بتارہے ہیں کہ پاکستان کیلئے سب سے بڑا چیلنج انتخاب کا ہے۔ اِس تِراہے سے ہمیں کس طرف بڑھنا ہے ‘اس کا مدار ریاستی سطح پر کیے جانے والے فیصلوں پر ہے۔ ریاستوں کیلئے ہر بڑا فیصلہ مارو یا مر جاؤ والے مرحلے کی مانند ہوتا ہے۔ دانش سے کام لینے کی صورت میں مفادات پروان چڑھتے ہیں۔ ذرا سی بے عقلی سے کام لیا اور گئے کام سے۔
پاکستان کا محلِ وقوع انتہائی نازک اور حسّاس ہے۔ کئی طاقتیں پاکستان کو راہداری کے طور پر استعمال کرنا چاہتی ہیں۔ اس محلِ وقوع سے ہم بھرپور فائدہ اس وقت اٹھاسکتے ہیں ‘جب ہم نے اپنے طور پر بھی کچھ تیاری اور محنت کی ہو۔ محض راہداری کے طور پر استعمال ہونے یا ہوتے رہنے سے ہمارے مفادات زیادہ پروان نہیں چڑھ سکتے۔ اچھا ہے کہ قومی پالیسیاں نئے سِرے سے مرتب کی جائیں۔ محلِ وقوع سے مستفید ہونے کو بنیادی مقصد قرار دے کر روشن تر مستقبل کی منصوبہ بندی کی جائے۔ بڑی طاقتوں کی بساط پر کسی کا مہرہ بنے رہنے سے کہیں بہتر ہے کہ ہم اپنے لیے الگ بازی کا اہتمام کریں اور سوچ کو حتی الامکان مثبت رکھیں۔ اب تک ہم دو راہے پر آکر پھنستے رہے ہیں ‘مگر اب معاملہ اور ٹیڑھا ہے۔ اس بار حالات اور تقدیر نے تِراہے پر پہنچایا ہے۔ بڑی طاقتوں کے کھیل میں سینڈوِچ ہو رہنے کو آپشن نہیں کہا جاسکتا۔ حالات نے فیصلے کے حوالے سے اچھی خاصی الجھن پیدا کر رکھی ہے۔ حالات کے تِراہے پر ہمیں بین الریاستی تعلقات کے حوالے سے انتہائے احتیاط سے کام لینا ہے اور اُس دانش کا مظاہرہ کرنا ہے‘ جو عملی زندگی کو زیادہ سے زیادہ بارآور بنانے کے لیے ناگزیر سمجھی جاتی ہے۔ پاکستان کے لیے امکانات بھی بڑھ رہے ہیں اور خطرات بھی۔ بھارت ہمارے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنا چاہتا ہے اور بدنصیبی یہ ہے کہ ایران اور افغانستان حاشیہ برداروں کی حیثیت سے اُس کے ساتھ ہیں۔ چاروں طرف دیکھتے ہوئے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم بھی محض مہرے بن کر رہ جائیں اور پھر ایک طویل مدت تک غلطیوں اور کوتاہیوں کا خمیازہ بھگتنا پڑے۔