اور تو سب کچھ کسی نہ کسی طور ٹھکانے پر آجاتا ہے ‘مگر عقل بہت مشکل سے ٹھکانے پر آتی ہے۔ کم از کم نریندر مودی نے تو یہی ثابت کیا ہے۔ بھارتی فضائیہ کے ذریعے پاکستان پر حملے جیسی گھٹیا اور اوچھی حرکت کرنے کے بعد اُس کی سزا بھگت کر بھی وہ اپنے ''موقف‘‘ پر قائم ہیں! ایسی شاندار ڈھٹائی دنیا نے شاید ہی دیکھی ہو۔ سوال دو طیاروں کے گرنے اور ایک پائلٹ کے گرفتار کرلیے جانے کا نہیں تھا۔ مشکل یہ ہوئی کہ بھارت کی قومی قیادت اور قوم دونوں کا مورال ایسا گرا ہے کہ بار بار کوشش کرنے پر بھی اُٹھ نہیں پارہا۔
بالا کوٹ میں بے ڈھنگی فضائی کارروائی کا نتیجہ صفر رہا اور اس سے بڑھ کر یہ کہ بھارتی قیادت بھی صفر سے آگے نہیں بڑھ رہی۔ ابتدائی رپورٹس میں بھارتی میڈیا نے قومی قیادت کے حوالے سے دعویٰ کیا تھا کہ بالا کوٹ میں کالعدم جیش محمد کے نام نہاد ٹھکانوں پر حملوں میں 300 سے زائد ہلاکتیں واقع ہوئی ہیں۔ چند ہی گھنٹوں میں یہ 300 ہلاکتیں بھارتی میڈیا کے راڈار سے غائب ہوگئیں۔ اس کا بنیادی سبب یہ تھا کہ بھارت فضائیہ اور حکومت دونوں نے چُپ سادھ لی تھی اور ذلیل ہونے کے لیے میڈیا کو کھلے میدان میں تنہا چھوڑ دیا تھا!
عالمی برادری دعووں کے ثبوت مانگ رہی تھی اور بھارتی میڈیا پرسنز بغلیں جھانک رہے تھے اور کرتے بھی کیا؟ محض بڑھک بھلا کب تک کام آسکتی ہے؟ جب کہنے کے لیے کچھ نہ رہا تو بھارتی میڈیا نے انٹ شنٹ بولنے کی انتہا کردی۔ ذرا ذرا سی بات پر پاکستان کو لتاڑنے کے سوا کوئی آپشن ہی نہیں بچا تھا۔
کہا جاتا ہے کہ جنگ میں پہلی ہلاکت سچ کی ہوتی ہے ‘یعنی فریقین جھوٹ کا بازار گرم کردیتے ہیں۔ اب کے کچھ مختلف ہوا ہے۔ بھارتی میڈیا نے ثابت کردیا ہے کہ کسی بھی ہنگامی یا جنگی حالت میں پہلی ہلاکت حواس کی بھی ہوسکتی ہے۔ ایک ہفتے سے بھارت کے کم و بیش 95 فیصد اینکرز‘ رپورٹرز اور تجزیہ کار شدید پاگل پن کا شکار ہیں‘ حواس باختہ ہیں۔ یہ لوگ بھول چکے ہیں کہ کامن سینس نام کی کوئی چڑیا بھی کہیں اُڑا کرتی ہے۔
بھلا ہو بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کا‘ جنہیں ایسے گئے گزرے ماحول میں بھی حواس سے کام لینا یاد رہا۔ آبائی گجرات کے شہر جام نگر میں اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے بھارتی وزیر اعظم نے ثابت کردیا کہ لیڈر وہی ہے ‘جو صورتِ حال کا ذرا بھی اثر قبول نہ کرے اور لوگوں میں جائے۔ جو کچھ ایک ہفتے کے دوران بھارتی قوم اور فوج پر بیت گئی ہے اُس کے پیش نظر ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ نریندر مودی گھر میں بیٹھ رہتے‘ مگر مقبولیت کے گراف میں تیزی سے رونما ہونے والی گراوٹ کے باوجود وہ عوام میں جانے سے نہیں چُوک رہے‘ بڑی بات ہے!
خیر‘ جام نگر میں اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے نریندر مودی نے کہا کہ کوئی کامن سینس سے کام نہیں لے رہا۔ لوگ جب اس بات پر حیران ہوئے تو اُنہوں نے وضاحت کی کہ بھارتی فضائیہ پر جو بُرا وقت آیا ہے وہ کامن سینس سے کام نہ لینے کا نتیجہ ہے۔ جب لوگوں کو بہت زیادہ متجسّس دیکھا تو بھارتی وزیر اعظم نے کہا کہ جو بات میں کئی سال سے کہہ رہا ہوں وہی کامن سینس کی بات ہے یعنی کہ فضائیہ کو اپ گریڈ کیا جائے۔ اور یہ کہ اگر فرانس سے جدید ترین ٹیکنالوجی کے حامل رافیل طیارے حاصل کرلیے جاتے تو پاکستان کے ہاتھوں بھارتی فضائیہ کو یہ دن نہ دیکھنا پڑتے۔ مودی نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ سوال یا فرق مہارت کا نہیں‘ بلکہ بھارتی فضائیہ اس لیے ناکامی سے دوچار ہوئی کہ اُس کے پاس مِگ طیارے ہیں جبکہ پاکستان کے پاس جے ایف 18 تھنڈر طیارے ہیں۔ یہ گویا پوری بھارتی فضائیہ کی پیشہ ورانہ مہارت پر مکمل عدم اعتماد کا اظہار تھا۔
ادھر مودی نے رافیل طیاروں کا رونا روتے ہوئے (بے کہے لفظوں میں) بھارتی فضائیہ کو نا اہل اور ناتجربہ کار قرار دے دیا اور اُدھر بھارتی فضائیہ کے سربراہ بریندر سنگھ دھنووا نے چُپ کا روزہ توڑتے ہوئے میڈیا کا سامنا کیا اور چند ایک ایسی باتیں کیں جن سے اندازہ ہوا کہ بھارت کی سیاسی قیادت اور مسلح افواج ایک پیج پر نہیں۔ ایئر چیف مارشل بریندر سنگھ دھنووا سے جب پوچھا گیا کہ بالا کوٹ حملے کے نتیجے میں زمین پر کتنی ہلاکتیں ہوئیں تو اُنہوں نے یہ کہتے ہوئے جان چُھڑائی کہ فوج کا کام حملہ کرنا ہے‘ ہلاک ہونے والوں کی تعداد گننا نہیں۔ بھارت کے سیکریٹری خارجہ وجے گوکھلے نے 6 دن قبل بڑھک ماری تھی کہ بالا کوٹ میں 300 آتنک وادی ہلاک ہوئے ہیں۔ ایئر چیف مارشل بریندر سنگھ دھنووا نے کسی بھی نوعیت کے مصدقہ اعداد و شمار پیش کرنے سے صاف انکار کرتے ہوئے اس دعوے کو مٹی میں ملادیا۔ اپنی فورس کے ماتھے پر لگے ہوئے بدنامی کے داغ کو دھونے کی اپنی سی کوشش کرتے ہوئے بریندر سنگھ نے کہا کہ بالا کوٹ میں ہماری کارروائی غیر نتیجہ خیز ہوتی اور محض درختوں پر بم برسے ہوتے تو پاکستان کو جوابی کارروائی کرنے کی ضرورت کیوں پیش آتی! مِگ طیاروں کی کارکردگی پر وزیر اعظم نریندر مودی کی طرف سے کی جانے والی تنقید کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں بریندر سنگھ دھنووا نے کہا کہ مِگ 21 ہر اعتبار سے قابلِ اعتماد ہیں‘ کیونکہ ہم نے جدید ترین نظام نصب کرکے اِنہیں اپ گریڈ کیا ہے جس کے نتیجے میں ان کی صلاحیت کا گراف بلند ہوگیا ہے۔
جب کوئی فلم فلاپ ہو جاتی ہے تو ڈائریکٹر کہتا ہے میوزک اچھا نہیں تھا۔ میوزک ڈائریکٹر کہتا ہے کہانی میں دم نہیں تھا‘ سکرپٹ بے جان تھا۔ سکرپٹ رائٹر کہتا ہے اداکاروں نے زور نہیں لگایا۔ اداکار کہتے ہیں جب بُرے سیٹس پر خراب کیمرا مین شپ ہوگی تو کوئی کیا کرے گا۔ غرض یہ کہ سبھی ایک دوسرے کو موردِ الزام ٹھہراتے ہوئے اپنی عزت بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔
بھارتی قیادت کو بھی اِس وقت کچھ ایسی ہی صورتِ حال کا سامنا ہے۔ پاکستان کو دباؤ میں لینے کی غرض سے بھارتی قیادت نے جنگی جنون پر مبنی جو فلم ریلیز کی تھی وہ بری طرح فلاپ ہوگئی ہے۔ اب وزیر اعظم کہہ رہے ہیں کہ فوج نے اپنے حصے کا کام نہیں کیا۔ فوج کہتی ہے کہ سیاسی قیادت کی پلاننگ ناقص تھی‘ فیصلے بے وقت اور ادھورے من سے کیے گئے۔ تیسری طرف میڈیا ہے‘ جس کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ اُس نے بھی اپنے حصے کا کام ڈھنگ سے نہیں کیا‘ یعنی دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے میں ناکام رہا۔ میڈیا والے اب دبے لفظوں میں کہہ رہے ہیں کہ دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے دھول تو بہرحال ہونی چاہیے‘ یعنی سب اپنی اپنی عزت بچانے کے نام پر دوسروں کو مطعون کر رہے ہیں۔
مودی پروڈکشنز کے بینر تلے تیار ہونے والی سیاسی فلم ''جنگی جنون‘‘ پہلے ہی شو میں منہ کے بل گِری ہے اور عوام یہ پوچھ رہے ہیں کہ جب ایسی تھکی ہوئی فلم بنانی تھی تو ڈھول پیٹ کر ہمیں سنیما ہال تک لانے اور خواری سے دوچار کرنے کی کیا ضرورت تھی! بھارتی قیادت اور فوج دونوں کے پاس اب صرف ایک آپشن بچا ہے ... یہ کہ زمینی حقیقت کو آنکھیں کھول کر اچھی طرح دیکھیں اور تسلیم کریں۔ اس مرحلے سے گزرنے کے بعد ہی اُن کی ''شدّھی‘‘ کا عمل شروع ہوسکے گا۔