جنگی جنون کی گرد تھوڑی بہت تو بیٹھ چکی ہے۔ بھارت کے ٹی وی واریئرز کو اُن کے ملک میں تو کون لگام دیتا‘ پاک فضائیہ نے؛ البتہ یہ کام کر ڈالا۔ دو طیاروں کی تباہی اور ایک پائلٹ کی گرفتاری کے بعد سے اب تک بھارتی میڈیا کی مدد سے جنگی جنون کو پروان چڑھانے والوں کے لیے مسائل ہی مسائل ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان مسائل کی شدت میں بھی اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
کل تک مہا راج کی جے جے کار ہو رہی تھی۔ نریندر مودی اونچی اڑان بھرنے کی تیاری کر رہے تھے۔ انہوں نے جست لگانے کی کوشش کی ‘مگر گڑھے میں جا گِرے اور اِدھر یہ معاملہ ہے کہ ؎
عشق کی ایک جست نے طے کر دیا قصہ تمام
اس زمین و آسماں کو بے کراں سمجھا تھا میں
عشق کی جست لگانے میں پاکستان کامیاب ہوا۔ ہونا ہی تھا‘ کیونکہ (موت سے) عشق بھی تو اسی طرف ہے۔ زندگی کا احترام کرنے اور زندگی پر مر مٹنے میں بہت فرق ہے‘ بلکہ یہی جوہری فرق ہے۔جو زندگی پر مرتے ہیں وہ موت سے ڈرتے ہیں۔ یہی ڈر بھارت کو لے ڈوبا۔ خیر‘ تنگ نظر بھارتی قیادت کے لیے ڈوب مرنے کا مرحلہ کوئی پہلی بار نہیں آیا۔
اب ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے۔ بھارت میں بہت سے تجزیہ کار علاقائی سطح پر برتری کے حوالے سے اپنی حکومت کے دعووں کی پرتیں اتار رہے ہیں۔ کئی ویب سائٹس ہیں ‘جو بھارت کو علاقائی سپر پاور میں تبدیل کرنے کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے کے حوالے سے صلاحیت و سکت پر سوالیہ نشان لگا رہے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ونگ کمانڈر ابھینندن کی گرفتاری اور رہائی کے بعد تو بھارت کی دفاعی صلاحیت پر سوالیہ نشان لگا سو لگا‘ اِس سے ڈیڑھ دو ہفتے پہلے سے بھی شکوک و شبہات کا اظہار کیا جانے لگا تھا۔ www.inprint.in پر شائع ہونے والے ایک مضمون میں دھروو جے شنکر نے لکھا کہ بہت سوں کی زبان پر یہ بات آرہی ہے کہ علاقائی سپر پاور کی حیثیت سے بھارت کی موت واقع ہوچکی ہے! مضمون نگار نے مختلف نکات کے ذریعے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ چند ایک مشکلات کے باوجود بھارت علاقائی سطح پر کھیلے جانے والے بڑے کھیل میں اب بھی موجود ہے۔ خیر‘ یہ دعویٰ محض دعوے ہی کی منزل میں ہے۔
کل تک تو یہ بات کہی جاسکتی تھی کہ بھارت علاقائی سطح پر بہت کچھ کرنے کی پوزیشن میں ہے اور وہ اپنی پالیسیوں کے ذریعے یہ ثابت بھی کر رہا تھا کہ اُسے آگے جانا ہے‘ کچھ پانا ہے۔ اب ‘اسے حالات کا نتیجہ کہیے یا نصیب کی خرابی کہ چین نے تین عشروں کی محنت کے نتیجے میں درجہ بہ درجہ پروان چڑھنے کے بعد اچانک ابھر کر بھارت کا سُندر سپنا توڑ دیا ہے۔ چین کا اچانک غیر معمولی حد تک متحرک ہونا بھارت کیلئے اچھی خاصی الجھنیں پیدا کر رہا ہے۔ بھارت کو بڑی مارکیٹ ہونے کا زعم رہا ہے مگر خیر‘ صنعتی پیداوار کے حوالے سے اس کی کارکردگی زیادہ متاثر کن نہیں رہی۔ چین نے ثابت کردیا ہے کہ وہ دنیا کی کسی بھی مارکیٹ کی مجموعی ضرورت سے مطابقت رکھنے والی پیداوار فراہم کرسکتا ہے۔ ''جیسی قیمت ویسا مال‘‘ کے اصول کی بنیاد پر چین دنیا بھر کی معیشتوں کے لیے مال تیار کرتا ہے اور اس حوالے سے اس کی کارکردگی انتہائی متاثر کن رہی ہے۔
بھارت نے معاشی بنیاد پر علاقائی سپر پاور بننے کی ٹھانی اور امریکا و یورپ کا سہارا لیا۔ یہ فطری معاملہ تھا‘ کیونکہ امریکا اور یورپ کو بھی اس خطے میں صرف بھارت پر بھروسا ہی راس آتا رہا ہے۔ یہ کوئی ایسی بات نہیں جو سمجھی نہ جاسکے۔ سیدھی سی بات ہے‘ بھارتی قیادت جنوبی ایشیا میں امریکا اور یورپ کے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کے حوالے سے اپنا کردار ادا کرنے کیلئے ہر وقت تیار اور الرٹ رہتی ہے۔ حد یہ ہے کہ اس معاملے میں اُس نے دیرینہ حلیف اور بُرے وقتوں کے ساتھی روس سے ہاتھ چُھڑانے میں بھی جھجھک محسوس کی ہے ‘نہ شرمندگی۔
ایک طرف چین بڑھتا آرہا ہے اور دوسری طرف روس ہے‘ جو بھارت پر مزید بھروسہ کرنے کے موڈ میں نہیں۔ ایسے میں سوچا جاسکتا ہے کہ اکیلے پڑ جانے کا احساس بھارتی قیادت کو کس بُری طرح اندر ہی اندر نوچ اور ڈس رہا ہوگا۔ یہی سبب ہے کہ چین کو تیزی سے ابھرتا اور آگے بڑھتا ہوا دیکھ کر بھارت میں بہت سوں کو یہ محسوس ہو رہا ہے کہ علاقائی سپر پاور بننے کا خواب شاید ہی شرمندۂ تعبیر کیا جاسکے۔
26 فروری سے یکم مارچ تک جو کچھ ہوا وہ پورے خطے ہی نہیں ‘بلکہ عالمی برادری پر بھی بہت کچھ واضح کردینے کے لیے انتہائی کافی ہے۔ ایک طرف تو پاکستان نے ثابت کردیا ہے کہ وہ تر نوالہ نہیں کہ کوئی جب بھی چاہے پنجہ مار کر منہ میں ڈال لے۔ دوسری طرف بھارتی فوج ہے‘ جس کا مورال خطرناک حد تک گرچکا ہے۔ محض ایک جھڑپ نے نام نہاد علاقائی عقاب کو کوے اور کبوتر کی سطح پر لا کھڑا کیا ہے۔
پاکستان کی سب سے بڑی ''ستم ظریفی‘‘ یہ ہے کہ علاقے کے چودھری کو دُھول چٹاکر اُس کے تمام حاشیہ برداروں کو بھی مخمصے میں ڈال دیا ہے۔ بنگلہ دیش‘ نیپال اور بھوٹان بیشتر معاملات میں بھارت پر منحصر تھے۔ بنگلہ دیشی قیادت کی الجھن قابلِ دید ہے۔ شیخ حسینہ اور اُن کے رفقاء نے ملک کو بھارت کے چرنوں میں بٹھا رکھا ہے۔ اب بنگلہ دیشی قیادت بھی اپنی پالیسیوں کے حوالے سے کچھ نہ کچھ سوچنے پر مجبور تو ہوگی‘ کیونکہ ع
وہ شاخ ہی نہ رہی جو تھی آشیاں کے لیے
بھارت کو آگے بڑھنا ہے۔ آبادی اور رقبے کی بنیاد پر بڑی مارکیٹ ہونے کا زعم اُسے بہت سے معاملات میں غیر معمولی اعتماد سے ہم کنار رکھتا آیا ہے۔ فرحت شہزاد نے کہا ہے ؎
یہ کیا کہ چند ہی قدموں پہ تھک کے بیٹھ گئے
تمہیں تو ساتھ مِرا دور تک نبھانا تھا
بھارتی قیادت چاہتی ہے کہ چین کو ٹھیک سے منہ دے‘ مگر مسئلہ یہ ہے کہ بڑا بننے کے لیے جس نوعیت کا بڑپّن درکار ہوتا ہے‘ اُسے پروان چڑھانے کے لیے نئی دہلی کے پالیسی میکرز تیار نہیں۔ بنگلہ دیش بغل بچہ ہے۔ نیپال خشکی سے گِھرا ہوا ہونے کے باعث بھارت پر منحصر ہے۔ بھوٹان کا بھی کچھ ایسا ہی‘ بلکہ اس سے گیا گزرا معاملہ ہے۔ مالدیپ کے معاملات میں بھارت کا عمل دخل کسی سے پوشیدہ نہیں۔ ہاں‘ پاکستان اور سری لنکا کم و بیش ایک عشرے سے واضح طور پر بھارت کے خلاف جارہے ہیں۔
کم و بیش ڈیڑھ عشرے سے کیفیت یہ ہے کہ پاکستان کو صرف برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں جو کچھ ہو رہا ہے اُس سے پاکستان کا کوئی تعلق نہیں۔ کشمیریوں کی جدوجہد مکمل طور پر ''خانہ ساز‘‘ ہے‘ مگر بھارت یہ بات ماننے کو تیار نہیں اور دہشت گردی میں معاونت کا الزام عائد کرتا رہا ہے۔ ثبوت مانگئے تو بغلیں جھانکنے کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ بھارت چاہتا ہے کہ عالمی برادری الزامات ہی کو ثبوت کے طور پر قبول و تسلیم کرلے۔ اب پاکستان نے جواب دے دیا ہے۔ بھارتی قیادت یہ سمجھ رہی تھی کہ بالا کوٹ پر فضائی حملے کے جواب میں پاکستانی قیادت کو سانپ سونگھ جائے گا۔ سوچ بھی نہیں گیا ہوگا کہ پاکستان اس قدر منہ توڑ جواب دے گا کہ سارا بھرم ہی خاک میں مل کر رہ جائے گا۔
اِتنی سی بات بھارتی قیادت کی سمجھ میں نہیں آرہی کہ اڑنے کے لیے پہلے مرحلے میں تو پَر درکار ہوتے ہیں اور دوسرے‘ حتمی مرحلے میں جذبہ اور جب کوئی اونچی اڑان بھرنا چاہتا ہے تو بڑپّن کا ہونا بھی لازم ہے۔ اب جن کے ذہن ہی چھوٹے ہیں ‘وہ بڑپّن کہاں سے لائیں؟