چند عشروں کے دوران بعض جملے ایسے تواتر سے کہے گئے کہ ہماری نفسی ساخت کا حصہ ہوکر رہ گئے ہیں‘ مثلاً : ملک نازک موڑ پر آگیا۔ ملک تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے۔ دشمن سے نمٹنے کیلئے آہنی عزم درکار ہے۔ دشمن کو منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔
بات زیادہ حیرت انگیز بھی نہیں۔ معاملہ یہ ہے کہ افغانستان پر سابق سوویت یونین کی لشکر کشی کے بعد سے اب تک پاکستان کو طرح طرح کے چیلنجز کا سامنا رہا ہے۔ ملک کی سلامتی اور سالمیت ہی خطرے میں نہیں تھی ‘بلکہ معاشی اور معاشرتی بحران بھی کمر توڑنے پر کمر بستہ تھا۔ پاکستان کو بقاء کے ساتھ ساتھ جینے کا سامان کرنے کا چیلنج بھی درپیش تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ چیلنجز بڑھتے گئے اور اں سے نمٹنے کا حوصلہ بھی۔ اب یہی دیکھیے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر پاکستان کو جس بکھیڑے میں الجھایا گیا ‘اُس نے جہاں بہت سی خرابیاں پیدا کی ہیں‘ وہیں ایک بڑی خوبی یہ پیدا ہوگئی ہے کہ فورسز سمیت پوری قوم کسی بھی چیلنج سے نمٹنے کی بھرپور صلاحیت اور سکت اپنے اندر پاتی ہے۔
ایک بھارتی تجزیہ نگار نے www.inprint.in کے لیے مضمون میں لکھا ہے کہ بالا کوٹ حملے کے بعد جو کچھ پاکستان نے کیا ‘اُس سے یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہوگئی کہ پاکستانیوں میں کسی بھی ایسی ویسی صورتِ حال کو برداشت کرنے کی سکت غیر معمولی ہے ‘جبکہ بھارتیوں میں یہ سکت بہت نچلی سطح پر ہے۔ ونگ کمانڈر ابھینندن کی گرفتاری نے پوری بھارتی قوم کو شدید بے حواسی میں مبتلا کردیا۔ فورسز بھی کچھ سمجھ نہ پائیں کہ اپنی بات کس طور قوم اور دنیا کے سامنے رکھے۔ سیدھی سی بات ہے‘ پاکستان ایک طویل مدت سے کسی نہ کسی سطح پر دشمنوں سے نمٹ رہا ہے۔ دشمن سے لڑنے کیلئے جس نوعیت کا نظم و ضبط درکار ہوتا ہے‘ وہ پاکستانی فورسز میں غیر معمولی ہے اور پھر عزم! اس معاملے میں تو خیر پاکستانی فورسز کا بھارتی فورسز سے موازنہ کیا ہی نہیں جاسکتا۔ جو موت کو گلے لگانے کیلئے ہر وقت تیار رہتے ہوں‘ اُن سے لڑنے کیلئے فولاد کا جگر چاہیے۔
یہ سب کچھ بڑھک نہیں‘ حقیقت ہے۔ اس وقت پاکستان جہاں کھڑا ہے‘ وہاں بھارت کے لیے کھڑا ہونا انتہائی دشوار ہوتا۔ زندگی سے پیار کرنے کیلئے موت کو گلے لگانے کا بھی حوصلہ ہونا چاہیے۔ یہ حوصلہ پاکستانیوں میں ہے‘ بھارت واسیوں میں نہیں۔ وقت نے ثابت کیا ہے کہ دشمن کا سامنا کرنے کیلئے محض جدید ترین ہتھیار کافی نہیں۔ پامردی بنیادی شرط ہے۔ موت کو لگانے کیلئے تیار رہنا دوسری بنیادی شرط ہے۔ اور کبھی کبھی دوسری بنیادی شرط کو پہلی بنیادی شرط کا درجہ بھی حاصل ہو جاتا ہے۔
کم و بیش پانچ برس کی مدت میں یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں رہی ہے کہ چین‘ روس اور ترکی کا غیر معمولی تحرک دیکھ کر بھارت کے پیٹ کا درد بڑھ گیا ہے۔ چین نے تیزی سے آگے بڑھ کر اپنے عزائم کو بے نقاب کرنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کی۔ بیلٹ اینڈ روڈ انیشئیٹیو متعارف کراکے چین نے دنیا کو بتادیا ہے کہ اب وہ بڑی طاقت کی حیثیت سے عالمگیر نوعیت کا کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔ ایشیاء اور یورپ کو جوڑنے کی طرف قدم بڑھاکر چین نے امریکا کو بھی پیغام دے دیا ہے کہ اُسے تیار رہنا چاہیے۔ اور امریکی قیادت بھی سوچنے پر مجبور ہے ؎
گئے دن کہ تنہا تھا میں انجمن میں
یہاں اب مِرے رازداں اور بھی ہیں
پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبہ امریکا کے لیے ساتھ ساتھ بھارت کے لیے بھی غیر معمولی الجھن کا سبب بنا ہے۔ سیدھی سی بات ہے‘ چین ؛اگر اس منصوبے کو بحسن و خوبی مکمل کرتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ ایشیا کو یورپ سے جوڑنے کا معاملہ بھی احسن طریقے سے انجام کو پہنچتا ہے تو خطے میں بھارت کی برائے نام بالا دستی بھی دُھول یا دُھواں بن کر اڑ جائے گی اور اُس کے لیے حقیقی معنوں میں ع
اب اُسے ڈھونڈ چراغِ رخِ زیبا لے کر
والی کیفیت پیدا ہوجائے گی۔ سی پیک کے حوالے سے کئی مواقع پر بھارت نے تحفظات کا اظہار کیا ہے اور اُس کے تجزیہ نگاروں کی فوج تو مسلسل بمباری کر رہی ہے۔ سب سے بڑا اعتراض یہ کیا جارہا ہے کہ سی پیک میں آزاد کشمیر کا کچھ حصہ بھی شامل ہے۔ بھارت کا استدلال ہے کہ کہ یہ علاقہ؛ چونکہ متنازع ہے‘ اس لیے سی پیک کا حصہ نہیں بنایا جاسکتا۔
ستم یہ ہے کہ چینی قیادت بھارت کے تحفظات کو درخورِ اعتناء سمجھنے کے موڈ میں نہیں۔ چین کو اندازہ ہے کہ بڑی مارکیٹ ہونے کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارت عالمی سطح پر تھوڑی بہت پریشانی پیدا کرسکتا ہے‘ مگر ایسا لگتا ہے کہ بیجنگ کے پالیسی میکرز اس کے لیے پوری طرح تیار ہیں۔ پاکستان پر دباؤ ڈالنے کی کوششوں سے بھی بھارت اب تک باز نہیں آیا۔ بالا کوٹ حملے کو اسی سیاق و سباق میں دیکھنا ہوگا۔پاکستان کو کسی بڑے تنازع یا چند چھوٹے مناقشوں میں الجھاکر بھارتی قیادت بیجنگ کو بھی پیغام دینا چاہتی ہے کہ وہ نئی دہلی کی علاقائی بالا دستی کو خاک میں ملانے سے باز رہے۔ دو بڑی طاقتوں کی اس لڑائی میں پاکستان میدان بن سکتا ہے‘ مگر خیر ع
اس طرح تو ہوتا ہے ‘اس طرح کے کاموں میں
بھارت کے لیے ممکن نہیں کہ چین کو براہِ راست چھیڑے۔ پاکستان کو پریشانی سے دوچار کرکے چین کو اکسایا جاسکتا ہے۔ گویا چین کے لیے یہ بھی تنے ہوئے رَسّے پر چلنے والا وقت ہے۔
یہ نازک لمحہ ہے۔ بھارت نے ایک بڑا زخم کھایا ہے۔ یہ زخم کسی بھی طور ایسا نہیں کہ آسانی سے بھر جائے اور آسانی سے بھلادیا جائے۔ عالمی برادری کے سامنے علاقائی سپر پاور کی بھرپور سُبکی ہوئی ہے‘ بَھد اڑی ہے۔ مغربی میڈیا نے دو طیاروں کی تباہی اور پائلٹ کی گرفتاری کو بنیاد بناکر اپنے تجزیوں میں بات بات پر بھارتی قیادت اور فورسز دونوں پر تازیانے پرسانے کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ امریکیوں کی سی مہارت کے ساتھ پاکستان میں سرجیکل سٹرائیکس کی کوشش کو مغربی میڈیا نے خوب نشانے پر لیا ہے اور یہ کہتے ہوئے آئینہ دکھایا ہے کہ طیارے پرانے ورژن کے ہیں اور اسلحہ ناکارہ ہے۔ ایسے میں بھارتی قیادت کس بنیاد پر سینہ تان کر سامنے آنا چاہتی ہے؟
اس وقت پاکستان کو ایک صفر کی برتری حاصل ہے۔ یہ برتری ختم کرنا بھارت کے لیے انا کا مسئلہ بن چکا ہے۔ قوم شدید احساسِ کمتری سے دوچار ہے اور بھارتی فوج کی ساکھ داؤ پر لگی ہوئی ہے؛ اگر ایسا ہی ایک اور مناقشہ پاکستان کے حق میں چلا جائے تو کام تمام سمجھیے۔ ساتھ ہی ساتھ اسلام آباد کے پالیسی میکرز کو بھی یاد رکھنا ہوگا کہ اب مسلسل الرٹ رہنا ہے۔ آنکھ جھپکی اور کام تمام والی کیفیت کا سامنا ہے۔ ممکن ہی نہیں کہ زخمی درندہ پلٹ کر حملہ نہ کرے۔ ہاں‘ یہ حملہ کب ممکن ہے اور کس طور یہ درندے کو طے کرنا ہے۔ پاکستان کے پاس جو چند آپشنز بچے ہیں‘ اُن میں الرٹ رہنے کا آپشن سب سے اہم ہے۔ قومی سلامتی اور سالمیت یقینی بنائے رکھنے کیلئے بھرپور تیاری کے ساتھ جاگتے رہنا ہے۔ چین سمیت کئی ممالک ہمارے ساتھ ہیں‘ تاہم یہ نکتہ ذہن نشین رہے کہ کوچ بہت سِکھا سکتا ہے اور انعامات کی صورت میں تحریک بھی دی جاسکتی ہے‘ مگر میدان میں کھیلنا تو کھلاڑی ہی کو پڑتا ہے!