"MIK" (space) message & send to 7575

اُڑتا ہوا وقت تھام لو

وقت کی جان پر سو عذاب ہیں۔ لوگ اپنی تمام کوتاہیوں اور خامیوں (یعنی اُن کے باعث واقع ہونے والی ناکامیوں) کے لیے وقت کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں اور کبھی کبھی تو یہ معاملہ اس حد تک پہنچ جاتا ہے گویا وقت کے خلاف عدالت جانے کی تیاری کی جارہی ہے! وقت کب نہیں تھا اور کب نہیں ہوگا‘ مگر لوگ نہیں سمجھتے۔ سمجھیں کیسے جب سمجھنا چاہتے ہی نہیں۔ ہزاروں سال سے سوچنے والے وقت کے بارے میں سوچتے‘ کہتے اور لکھتے آئے ہیں۔ جب وقت کی پیمائش کے معیاری پیمانے نہیں تھے تب بھی انسان کو اِس بات کا احساس تو تھا کہ وقت ہے اور گزرتا ہی جارہا ہے۔ ہاں‘ وقت کے حوالے سے خیالات کو کس طور منظم کرکے بیان کیا جائے یہ سمجھنا انسان کے لیے بے حد دشوار تھا۔ 
گزرتے وقت کے ساتھ انسان نے اُس کے بارے میں ڈھنگ سے سوچنا شروع کیا۔ فطری علوم و فنون کے ماہرین‘ معاشرتی امور پر گہری نظر رکھنے والوں اور نفسی امور کی گتھیاں سلجھانے کی کوشش کرنے والوں نے وقت کے بارے میں جو کچھ بھی سوچا اور سمجھا ہے وہ خوب صراحت کے ساتھ بیان کردیا ہے۔ یہ سب کچھ محض اس مقصد کے تحت ہے کہ ہر انسان وقت کی قدر جانے اور اپنے آپ کو تبدیل کرے۔ 
وقت کو سمجھنے کی کوشش کرنے کے بعد کا مرحلہ ہے گزرتے‘ بلکہ اُڑتے ہوئے وقت کو قابو میں کرنا اور قابو میں رکھنا۔ فطری علوم و فنون میں یدِ طُولٰی رکھنے والوں میں سے بہت سوں کا خیال ہے کہ وقت کوئی چیز ہے نہیں۔ اُن کا استدلال ہے کہ وقت کے گزرنے کا احساس ہمیں قدرت کے مظاہر کی حرکت یا پھر اپنے بنائے ہوئے آلات کی مدد سے ہو پاتا ہے؛ اگر گھڑی نہ ہو تو وقت کا علم نہ ہو۔ فلسفیوں نے بھی وقت کی نوعیت اور اثرات کے حوالے سے سوال اٹھائے ہیں۔ اُن کا استدلال ہے کہ وقت ہے یا نہیں کی بحث سے قطعِ نظر وقت کے حوالے سے ہماری سوچ ہمارے فکری ڈھانچے‘ معمولات اور زندگی سے متعلق نظریے پر غیر معمولی حد تک اثر انداز ہوتی ہے۔ مشکل ہے تو صرف یہ کہ یہ عمل مستقل بنیاد پر جاری رہنے کے باوجود اس قدر نازک اور پوشیدہ نوعیت کا ہے کہ ہمیں اس کا احساس بھی نہیں ہو پاتا۔ 
ہم ہر پل‘ ہر دَم وقت کے دائرے میں جی رہے ہیں۔ وقت سے متعلق ہمارا تصور ہی طے کرتا ہے کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے‘ زندگی کا معیار بلند کرنے کے لیے کس سمت سفر جاری رکھنا چاہیے اور یہ کہ دنیا پر یہ بات ثابت کرنی چاہیے کہ ہم وقت کو سمجھنے میں کامیاب رہے ہیں۔ وقت کو سمجھنے میں جو بھی کامیاب ہوا ہے ‘وہ حتمی تجزیے میں پوری زندگی کے حوالے سے بھی کامیاب ہی رہا ہے۔ 
ہم چاہیں کہ نہ چاہیں‘ وقت تو ہم پر اثر انداز ہو ہی رہا ہے۔ وقت سے متعلق ہمارے تمام تصورات ہمارے لیے آسانیاں یا پھر مشکلات پیدا کرتے ہیں۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ ہم وقت کے حوالے سے کچھ سوچیں اور وہ ہمارے افکار و اعمال پر اثر انداز نہ ہو۔ ہزاروں سال سے اہلِ دانش عوام کو وقت کے حوالے سے زیادہ سے زیادہ سوچنے کی تحریک دیتے آئے ہیں۔ جو بھی آج رُوئے زمین پر سانس لے رہا ہے اُسے مرنا ضرور ہے ‘یعنی ہر انسان کو ملنے والا وقت ایک دن ختم ہوکر رہے گا۔ جس چیز کے بارے میں ہمیں معلوم ہے کہ ختم ہوکر رہے گی‘ اُس کے بارے میں زیادہ سے زیادہ سوچنا لازم ہے‘ تاکہ اُس سے کماحقہ مستفید ہوا جاسکے‘ اُسے زیادہ سے زیادہ بارآور بنایا جاسکے۔ دنیا کی ریت یہی ہے۔ جو چیز جتنی کم مقدار میں یا محدود تناسب سے ہوتی ہے ‘اُس کی قدر اُتنی ہی زیادہ ہوتی ہے۔ ایسے میں یہ بات کتنی حیرت انگیز ہے کہ حتمی تجزیے میں سراسر محدود ہونے پر بھی انسان وقت کے حوالے سے حساس ہونے کا سوچتا ہے‘ نہ باشعور ہونے کا۔ وقت کی تفہیم ہر دور کے انسان کا بنیادی مسئلہ رہا ہے۔ رُوئے زمین پر ہر دور میں کم ہی لوگ رہے ہیں جنہوں نے وقت کے بارے میں غور کیا‘ اُسے جانا اور پھر احسن طریقے سے بروئے کار لانے کی طرف مائل ہوئے۔ مشکل یہ ہے کہ انسان دنیا کی رنگینیوں میں ایسا کھو جاتا ہے کہ اُسے وقت کے حوالے سے اپنے معاملات درست کرنے کی طرف متوجہ ہونے کا موقع ہی نہیں ملتا۔ فی زمانہ وقت سے زیادہ سے زیادہ مستفید ہونا انسان کا شاید سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ 
وقت کے حوالے سے ہمارے تصورات کو بہت سے معاملات شدید متاثر کرتے ہیں۔ ہم دن رات مختلف معاملات میں ایسے الجھے رہتے ہیں کہ وقت کے حوالے سے سوچنے‘ اُسے سمجھنے اور احسن طریقے سے بروئے کار لانے کا خیال ہی نہیں آتا۔ یہی سبب ہے کہ آج پروفیشنل معاملات کی تعلیم دینے والے ماہرین ٹائم منیجمنٹ پر بہت زور دے رہے ہیں۔ ہمیں اچھی طرح معلوم ہونا چاہیے کہ ہمیں جو کچھ بھی سوچنا اور کرنا ہے وہ وقت کے دائرے سے باہر نہیں۔ ہمارا ہر معاملہ ناگزیر طور پر وقت سے جُڑا ہوا ہے۔ ایسے میں اگر ہم وقت ہی کو نظر انداز کر بیٹھیں‘ احسن طریقے سے بروئے کار لانے کا ذہن نہ بنائیں تو چل چکی زندگی کی گاڑی اور مل چکی کامیابی کی منزل۔ جو کچھ آج تک وقت کے بارے میں کہا اور لکھا گیا ہے وہ ہماری توجہ کا منتظر ہے؛ اگر ہمارے پاس سماعت یا مطالعے کے لیے وقت نہ بھی ہو تو کوئی بات نہیں۔ اِتنا سمجھ لینا کافی ہے کہ وقت کم ہے اور مقابلہ سخت۔ یہ جملہ صرف معاشی اُمور یا مسابقتی معاملات کے حوالے سے نہیں ہے۔ زندگی کا ہر معاملہ گھوم پھر کر وقت کے چوراہے پر آتا ہے۔ دیکھنے‘ سُننے‘ پڑھنے‘ سوچنے اور کرنے کو بہت کچھ ہے مگر وقت محدود‘ بلکہ انتہائی محدود ہے۔ ذرا سی عمر ہے جس میں بہت بڑی زندگی بسر کرنی ہے۔ ڈھنگ سے جینا ایسا فن نہیں کہ بیٹھے بٹھائے آجائے یا کوئی رحمِ مادر سے سیکھ کر دنیا میں آئے۔ شیشے سے پتھر کو توڑنے جیسا یہ فن انسان کو محنت اور باریک بینی سے سیکھنا پڑتا ہے۔ 
رُوئے ارض پر انسان نے جتنے بھی ادوار گزارے ہیں‘ اُن سب میں وقت کی قدر و قیمت کا معاملہ اولین ترجیح کا رہا ہے۔ ہاں‘ گزرے ہوئے زمانوں میں انسان کے حواس پر غیر متعلق معلومات اور معاملات کی بمباری‘ چونکہ زیادہ نہیں تھی‘ اس لیے زندگی عمومی سطح پر خاصی پُرسکون رہا کرتی تھی۔ تب سارا زور موقع کی مناسبت اور فیصلے کی ٹائمنگ پر تھا۔ فی زمانہ معاملہ یہ ہے کہ ہر طرف سے اتنا کچھ ہمارے حواس‘ فکری ساخت اور معمولات کا حصہ بنتا جارہا ہے کہ بیشتر معاملات میں کبھی ہم شدید بے حِسی کا شکار ہو جاتے ہیں اور کبھی پرلے درجے کی لاچاری محسوس کرتے ہیں۔ مگر صاحب ؎ 
در اسی دیوار میں کرنا پڑے گا 
زندہ رہنے کے لیے مرنا پڑے گا 
وقت کا دھارا ہمارے لیے تھمنے سے تو رہا۔ ہمیں جو کچھ بھی کرنا ہے‘ اس دھارے کو قبول کرتے ہوئے کرنا ہے؛ اگر ڈھنگ سے جینا ہے‘ جینے کا حق ادا کرنا ہے تو وقت کے معاملے میں دو طرفہ سوچ اپنانا پڑے گی۔ ایک طرف تو وقت کو ضائع ہونے سے بچانا ہے اور دوسری طرف اُسے زیادہ سے زیادہ بروئے کار لاکر خوب مستفید ہونا ہے۔ 
جس حقیقت سے نظر نہیں ہٹانی وہ یہ ہے کہ اس دنیا میں قیام عارضی ہے اور جہاں ابدی زندگی بسر کرنی ہے ‘وہاں کے لیے سب کچھ یہیں تیار کرنا ہے۔ اس تیاری ہی کے لیے ہمیں وقت سی نعمت سے نوازا گیا ہے۔ وقت چل رہا ہے‘ نہ دوڑ رہا ہے۔ یہ تو اُڑتا جارہا ہے۔ ہمیں اُڑتے ہوئے وقت کو تھامنا ہے‘ جو وقت سے جیتا وہی سکندر۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں