"MIK" (space) message & send to 7575

کوئی کب تک یہ تماشا دیکھے؟

عوامی سیاست کا رخ تبدیل ہی نہیں ہو پارہا۔ جن باتوں نے دو عشروں تک ملک و قوم کو شدید خلجان میں مبتلا رکھا ہے‘ وہی اب تک دُہرائی جارہی ہیں‘ جن وعدوں اور وعیدوں کو سُن سُن کر لوگ بیزار ہوچکے ہیں‘ وہی پھر سُنائی دے رہی ہیں۔ کسی کو وعدے کرنے سے فرصت نہیں اور کوئی انتباہ کے بغیر زندگی بسر کرنے کا تصور کرنے کو تیار نہیں۔ ایک طرف دھمکیاں ہیں اور دوسری طرف دِلاسے۔ کوئی پُچکار رہا ہے اور کوئی آنکھیں دِکھانے کی روش ترک کرنے کو تیار نہیں ہے۔ 
حکومت قوم کو اب تک وعدوں کا جُھولا جُھلا رہی ہے۔ اُس کے پاس بظاہر کچھ ایسا ہے بھی نہیں‘ جس کی بنیاد پر کوئی بہت ہی ٹھوس قسم کی بات کرسکے۔ معیشتی بحران ہے کہ قابو میں آنے کا نام نہیں لے رہا۔ دوست ممالک کی طرف سے دستِ تعاون دراز کیے جانے کے باوجود معاملات درست ہونے کا نام نہیں لے رہے۔ رہی سہی کسر ڈالر کے مقابل ملکی کرنسی میں ہیبت ناک گراوٹ کے پیدا کردہ حالیہ بحران نے پوری کردی ہے۔ اس بحران نے مہنگائی کے نئے طوفان کو جنم دیا ہے۔ گویا بلی نہیں ‘بلکہ بلا تھیلے سے باہر آگیا ہو! حکومت کی سمجھ میں اب تک نہیں آرہا کہ کیا کرے‘ کیسے کرے۔ کچھ کہے بغیر بھی حکومت کہہ رہی ہے ؎ 
مجھے تو ہوش نہیں‘ آپ مشورہ دیجے 
کہاں سے چھیڑوں فسانہ‘ کہاں تمام کروں 
ہمارے ہاں تین عشروں کے دوران اپوزیشن کا جو کردار رہا ہے ‘وہ برقرار ہے۔ حکومت کی خامیاں اور کوتاہیاں اپنی جگہ‘ مگر مسئلہ یہ ہے کہ جو سرکاری بینچوں سے دور ہیں ‘وہ ''کھیلیں گے نہ کھیلنے دیں گے‘‘ کی ذہنیت ترک کرنے کو تیار نہیں۔ یہ تماشا قوم تین عشروں سے دیکھ رہی ہے اور ظاہر ہے کہ اتنی مدت کسی بھی چیز سے بیزار کرنے‘ جی اُچاٹ کردینے کے لیے کافی ہوتی ہے۔ 
حکومت کو قائم ہوئے آٹھ ماہ ہوچکے ہیں۔ ان آٹھ ماہ کے دوران کیا ہوسکا ہے‘ اس پر بحث پھر کبھی سہی‘ بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ حکومت اب تک اپنے مینڈیٹ کے پانچ برس کا روڈ میپ ہی تیار نہیں کرسکی ہے۔ ہر حکومت کو اپنے وجود کا جواز برقرار رکھنے کے لیے کچھ نہ کچھ نیا کرکے دکھانا پڑتا ہے۔ ایسا کیے بغیر بات بنتی نہیں۔ موجودہ حکومت کچھ نیا کرنے کے عزم کے ساتھ آئی ہے۔ مثل مشہور ہے کہ آدھی کو چھوڑ پوری کو جائے تو آدھی بھی ہاتھ سے جائے۔ کچھ ایسا ہی معاملہ حکومت کا بھی ہے۔ جو کچھ اب تک ہو پایا ہے‘ مل پایا ہے‘ اُسے برقرار رکھنے پر توجہ دینا لازم ہے۔ کچھ نیا کرنے کے چکر میں وہ داؤ پر نہیں لگنا چاہیے جو‘ جیسی تیس حالت ہی میں سہی‘ اب تک ہاتھ میں تو ہے۔ 
جمہوریت کے نام پر جو کچھ بھی کیا جاتا رہا ہے‘ وہ کسی بھی اعتبار سے ایسا نہیں کہ مثالی قرار دیا جائے یا کوئی کچھ تحریک پائے۔ جمہوریت اختلافات کو برداشت کرنے اور ہر حال میں قومی و ریاستی مفادات کو اولین ترجیح کا مستحق بنانے کا نام ہے۔ ہمارے ہاں جمہوریت جس انداز سے رُو بہ عمل رہی ہے‘ اُسے دیکھتے ہوئے اندازہ ہوتا ہے کہ حقیقی جمہوری معاشرہ تشکیل دینے کی منزل سے ہم اب تک بہت دور ہیں۔ دنیا بھر کے جمہوری معاشروں میں اختلافِ رائے کو برداشت کرنے کی عادت پروان چڑھائی جاتی ہے۔ تحمل کو ایک بنیادی وصف کے طور پر اپناکر جمہوری روایات کو توانا کیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں جمہوریت کے نام پر معمولی سطح کی رواداری کو راہ دینے کے لیے کوئی تیار نہیں۔ جمہوریت کو انتخابی عمل کے ذریعے اقتدار کے حصول کو ذریعہ سمجھ لیا گیا ہے۔ کوئی؛ اگر اس کے سوا یا اس کے علاوہ کچھ سوچتا ہے ‘تو یہ اُس کی خطا ہے‘ جمہوریت کے علم برداروں کا اس میں کوئی قصور نہیں۔ 
اگر انتخابی عمل بھی اُصولوں کے مطابق ہو تو کوئی ہرج نہیں کہ ایسی صورت میں حقیقی نمائندے اقتدار کے ایوانوں تک پہنچتے تو ہیں۔ یہاں معاملہ یہ ہے کہ دنیا بھر کی پھندے بازیوں کو بروئے کار لاکر کسی نہ کسی طور انتخابی کامیابی یقینی بنائی جاتی ہے۔ انتخابی معرکہ آرائی میں کسی نہ کسی طور سُرخرو ہونے کے بعد اقتدار کی منزل تک پہنچنے کی تگ و دَو شروع ہوتی ہے۔ اقتدار سے بہرہ مند ہونے اور نہ ہونے والے ایک معاملے تو ایک ہیں ۔ انتخابات کے بعد وہ بھول جاتے ہیں کہ عوام نام کی بھی کوئی مخلوق ہوا کرتی ہے اور یہ کہ عوام کے مسائل حل کرنے ہی کے لیے تو مینڈیٹ ملتا ہے۔ ہماری سیاست کا مجموعی مزاج‘ انداز اور مقصد یہ ہے کہ کسی نہ کسی طور اقتدار کے ایوان میں قدم رکھا جائے۔ ایک بار یہ مقصد حاصل ہوجائے تو پھر تو کون اور میں کون؟ عوام نے بڑے چاؤ سے جنہیں مینڈیٹ سے نوازا ہوتا ہے‘ وہی عوام کو یوں بھول جاتے ہیں کہ اپنی ہی آنکھوں پر یقین نہیں آتا۔ ع
اُس نے یوں دیکھا ہے جیسے کبھی دیکھا ہی نہ تھا 
جب بھی انتخابات ہوتے ہیں‘ عوام چند توقعات پالتے ہیں‘ کچھ امیدیں وابستہ کرلیتے ہیں۔ نئے نئے وعدے سُن کر دل کو یقین سا ہو جاتا ہے کہ کچھ نہ کچھ نیا ہوکر رہے گا اور ملک بحرانی کیفیت سے نکل آئے گا۔ انتخابی مہم کے دوران محض سیاسی جماعتوں اور امیدواروں ہی کا جوش و جذبہ قابل دید نہیں ہوتا‘ بلکہ عوام بھی جذبات کے تالاب میں خوب ڈبکیاں لگا رہے ہوتے ہیں۔ انتخابی مہم کی گہما گہمی نشے کی سی کیفیت کی حامل ہوتی ہے۔ انتخابات ہوچکنے کے بعد جب یہ نشہ اُترتا ہے‘ تو جمہوریت کے حوالے سے سنہرے خواب دیکھنے والے عوام کی وہی حالت ہوتی ہے‘ جو نشہ اُترنے پر کسی نشئی کی ہوا کرتی ہے! سارے خواب آن کی آن میں چکناچور ہو جاتے ہیں اور عوام بے چارے سوچتے ہی رہ جاتے ہیں کہ کس امید پر اتنی بہت سی امیدیں وابستہ کی تھیں‘ اتنے خواب کیوں دیکھے تھے؟ 
گزشتہ برس کے عام انتخابات کے بعد سے اب تک جو کچھ ہوتا آیا ہے‘ وہ عوام کو مزید بے حواس کرنے کے لیے انتہائی کافی ہے۔ وفاقی کابینہ کے ارکان وعدوں کے غبارے پُھلانے‘ یقین دہانیوں کے مینار کھڑے کرنے اور بڑھکیں مارنے کی منزل سے آگے بڑھنے کو تیار نہیں۔ دوسری طرف اپوزیشن بھی کچھ نہ کچھ ایسا کرنے پر تُلی ہوئی ہے‘ جس کے نتیجے میں حکومت ڈھنگ سے ٹیک آف ہی نہ کر پائے۔ مولانا فضل الرحمن نے عجلت پسندی کی انتہا کردی ہے۔ وہ ابھی سے نئے انتخابات کا مطالبہ کر بیٹھے ہیں۔ حکومت کے خلاف مہم چلانے کا اعلان انہوں نے اس انداز سے کیا ہے ‘گویا حکومتی کارکردگی بہت خراب رہی ہو اور اُس کا احتساب لازم ہوچکا ہو۔ جناب!کارکردگی تو ابھی شروع بھی نہیں ہوئی! 
یہ کھینچا تانی‘ یہ تماشا کب تک چلے گا؟ کوئی یہ تماشا دیکھے بھی تو کب تک دیکھے؟ حکومت سنجیدہ دکھائی دیتی ہے نہ اپوزیشن۔ سوال صرف معیشت کی خرابی کا کہاں ہے؟ یہاں تو ملک کی سلامتی اور سالمیت بھی داؤ پر لگی ہوئی ہے۔ مودی سرکار نے پانچ سال تک ناک میں کیا۔ اور اگر بھارت کے عوام انتہائے حماقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے نریندر مودی کو مزید پانچ سال دیتے ہیں تو سمجھ لیجیے گئی بھینس پانی میں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے جو کچھ اپنے انتخابی منشور میں بیان کیا ہے؛ اگر اُس پر عمل کر گزری تو پورے خطے کی سلامتی داؤ پر لگ جائے گی۔ نریندر مودی کہہ چکے ہیں کہ کشمیر کا معاملہ بات چیت کی بجائے صرف طاقت کے ذریعے حل کیا جائے گا۔ 
حالات کا تقاضا ہے کہ حکومت ہوش کے ناخن لے‘ کچھ کرنے کے حوالے سے سنجیدہ ہو۔ وفاقی کابینہ کے ارکان اپنے کام پر متوجہ ہوں۔ اور اپوزیشن بھی بلا جواز احتجاج سے باز رہے۔ قوم کی صرف اِتنی خواہش ہے کہ قومی مفادات کو اولین ترجیح کا درجہ دینے کی روش پر گامزن ہوا جائے۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں