"MIK" (space) message & send to 7575

سوچنے سے نفرت‘مگر کیوں؟

سرسری طور پر جائزہ لیجیے یا باریکی سے‘ دنیا کا کوئی بھی معاملہ ایسا نہیں جو کسی نہ کسی درجے میں سوچنے کا تقاضا نہ کرتا ہو۔ غور و فکر کے بغیر جینے والے عمومی سطح پر انتہائی الجھے ہوئے اور ناکام رہتے ہیں۔ ذرا بلند ہوکر غور کیجیے تو اندازہ ہوگا کہ یہ کائنات نظم و ضبط کے تحت ہے یعنی کسی نے کچھ سوچا ہے تو یہ سب کچھ ہمارے سامنے موجود ہے۔ اپنے ماحول پر اچٹتی سی نظر ڈالیے تو اندازہ ہو جائے گا کہ بے سوچے کیے جانے والے سارے کام بالعموم شدید ناکامی سے دوچار ہوتے ہیں۔ اگر کوئی ایک آدھ بے سوچا کام درست انداز سے ہو بھی جائے تو اسے مثال بناکر پوری زندگی کو سوچے بغیر نہیں گزارا جاسکتا۔ 
آج کا پاکستانی معاشرہ جو کچھ بھی ہے وہ راتوں رات نہیں ہوگیا۔ راتوں رات کچھ بھی نہیں ہوتا۔ ہم جو کچھ بھی دیکھتے اور پاتے ہیں وہ سب کچھ عمیق غور و فکر ہی کا نتیجہ ہوا کرتا ہے۔ دوسروں کی بات رہنے دیجیے‘ اپنی ہی زندگی پر نظر دوڑائیے تو اندازہ ہوگا کہ آج آپ جو کچھ بھی ہیں وہ سوچنے یا نہ سوچنے کا نتیجہ ہیں۔ دوسروں کی طرح آپ کو بھی زندگی بھر بہت سے فیصلے کرنا پڑے ہوں گے۔ زندگی قدم قدم پر آپشن پیش کرتی ہے۔ ہمیں بہترین آپشن اختیار کرنا پڑتا ہے۔ اگر ہم ایسا نہ کریں تو معاملات بگڑ جائیں‘ آپس میں الجھ جائیں۔ یہ سب کچھ محض گمان کرنے کی حد تک نہیں ہے بلکہ واقعی ایسا ہوتا ہے۔ 
ہر دور میں دنیا نے انہیں بڑا مانا ہے جنہوں نے سوچا ہے اور سوچنا سکھایا ہے۔ کوئی بھی شعبہ ایسا نہیں جس میں ہماری کامیابی کا مدار سوچنے پر نہ ہو۔ ہاں‘ سوچنے کے حوالے سے ذہنوں میں پائی جانے والی ایک بڑی عمومی غلط فہمی کا سمجھنا اور اس کے تدارک کے بارے میں سوچنا بہت ضروری‘ بلکہ ناگزیر ہے۔ ہم اپنے وجود اور ماحول میں جو کچھ دیکھتے ہیں اس کے حوالے سے جو فوری ردعمل رونما ہوتا ہے یا جو کچھ ہم محسوس کرتے ہیں اسی کو سوچنا سمجھ لیتے ہیں۔ ردعمل اور محسوسات کا معاملہ تو ابتدائی نوعیت کا ہوا کرتا ہے۔ سوچنے کی منزل اس سے بہت آگے ہے۔ جب ہم اپنے تمام معاملات اور ماحول سے ان کی مطابقت یا عدم مطابقت کا پوری سنجیدگی سے جائزہ لے کر تدارک کی فکر کرتے ہیں تب سوچنے کا مرحلہ شروع ہوتا ہے۔ سوچنے کے عمل کو بہتر بنانے کے لیے ہمارے پاس متعلقہ بنیادی معلومات ہونی چاہئیں۔ معلومات ہی کی بنیاد پر ہم اپنے لیے امکانات کا جائزہ لیتے ہیں۔ سوچنے کا عمل بنیادی طور پر امکانات تلاش کرنے کا عمل ہے۔ اگر ہمارے سوچنے سے امکانات واضح اور روشن نہ ہوں تو سمجھ لینا چاہیے کہ کہیں نہ کہیں کوئی گڑبڑ ضرور ہے۔ 
ہم ایک ایسے عہد میں جی رہے ہیں جس میں سبھی کچھ سوچنے پر منحصر ہوکر رہ گیا ہے۔ لوگ کسی نہ کسی طور جی تو لیتے ہیں مگر زندگی کا حق ادا کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ جو لوگ سوچنے کے عمل کو کسی بھی درجے میں اہم نہیں گردانتے وہ بالعموم یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ کسی بھی حوالے سے کچھ سوچنے کی ضرورت نہیں کیونکہ زندگی تو گزر ہی رہی ہے۔ ٹھیک ہے‘ جو سانسیں ہمیں ملی ہیں وہ تو ہر حال میںگزر جائیں گی۔ جو کچھ بہت سوچتے ہیں وہ بھی زندہ رہتے ہیں اور جو بالکل نہیں سوچتے وہ بھی جیسے تیسے زندہ رہ لیتے ہیں۔ 
''جیسے تیسے‘‘ پر غور فرمائیے۔ معیاری انداز سے زندہ رہنے کے لیے سوچنا بہت ضروری ہے۔ ہمیں کسی بھی صورتحال میں جتنے بھی آپشن دکھائی دے رہے ہوں ان میں سے بہترین کو اپنانا پڑتا ہے۔ ایسا کیے بغیر بات بنتی نہیں‘ دال ڈھنگ سے گلتی نہیں۔ کمزور آپشن اپنانے کا نتیجہ کمزور نتائج یا ناکامی کی شکل میں برآمد ہوتا ہے۔ ہم بیشتر معاملات میں زیادہ سنجیدہ نہیں ہوتے اور خاطر خواہ حد تک غور و فکر کی زحمت گوارا کیے بغیر سطحی نوعیت کے فیصلے کر بیٹھتے ہیں۔ اس روش پر گامزن رہنے کا نتیجہ اس کے سوا کیا برآمد ہوسکتا ہے کہ ہم ناکام ہوں یا اگر کامیاب بھی ہوں تو انتہائی معمولی سطح پر۔ 
جب ہم کسی روش پر تادیر گامزن رہیں تو وہ عادت سے کہیں بڑھ کر فطرتِ ثانی میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ سوچنے یا نہ سوچنے کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ آج ہمارے معاشرے میں ایسے لوگ خاصی کم تعداد میں پائے جاتے ہیں جو سوچنے کے عمل کی اہمیت کو سمجھتے ہیں اور بیشتر معاملات میں اچھی طرح غور و خوض کے بعد کوئی فیصلہ کرتے ہیں۔ خالص نجی یا گھریلو معاملات ہوں یا پھر معاشی سرگرمیوں سے متعلق امور‘ ہمیں ہر معاملے میں تمام حالات و واقعات اور آپشنز کو سامنے رکھتے ہوئے سوچنا اور درست فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ یہ سب کچھ اس لیے ضروری ہے کہ ایسا کرنے سے زندگی میں توازن اور استحکام پیدا ہوتا ہے۔ 
اب آئیے اس سوال کی طرف کہ ہمارے ہاں لوگوں کو‘ عمومی سطح پر‘ سوچنے سے نفرت سی کیوں ہے۔ جو کچھ ہے اور ہمارے لیے اطمینان کا باعث نہیں بن رہا اسے ہلانے اور ہٹانے کے لیے سوچنے کا عمل اپنایا جاتا ہے۔ انسان بہتری کی طرف اسی وقت بڑھتا ہے جب سوچتا ہے۔ جو لوگ کسی نہ کسی مفاد کے تحت معاملات کو جوں کا توں رکھنا چاہتے ہیں وہ سوچنے کے عمل کو کسی طور برداشت نہیں کرتے۔ ایسے ماحول میں اگر کوئی شخص معاملات کو درست کرنے کے حوالے سے کچھ سوچے اور تجاویز پیش کرے تو اسے ''دشمن نمبر ون‘‘ کا درجہ دے دیا جاتا ہے۔ سوچنے کے عمل سے جنہیں اپنے مفادات کی چُولیں ہلتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں وہ کسی بھی حال میں اس عمل کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے اور دوسروں کو بھی نہ سوچنے پر اکساتے ہیں۔ 
ہمیں آج دنیا میں جتنی بھی ترقی دکھائی دے رہی ہے وہ سوچنے کا نتیجہ ہے۔ کسی بھی شعبے میں لوگ جب منظم سوچ اپناتے ہیں تب مسائل حل ہوتے ہیں اور بہتری کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ اس حقیقت پر کم ہی لوگ غور کرتے ہیں کہ سوچنے کا عمل انسان کو متحرک رکھتا ہے۔ کسی بھی صورتحال کے حوالے سے مختلف آپشنز پر غور کرنے سے ہم اپنے لیے بہتر راہ کا تعین کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ نجی‘ گھریلو‘ خاندانی اور پیشہ ورانہ زندگی میں بھرپور کامیابی کا حصول یقینی بنانے کے لیے منظم انداز سے سوچنے کا آپشن اپنائے بغیر چارہ نہیں۔ 
آج ہمارے ہاں ہر معاملے میں‘ ہر سطح پر بے سوچے سمجھے زندگی بسر کرنے کا چلن عام ہے۔ یہ چلن مقبول اس لیے ہے کہ سوچنے کے لیے ذہن کو محض متحرک نہیں کرنا پڑتا بلکہ بہت کچھ جو موجود ہے اس سے دست بردار بھی ہونا پڑتا ہے۔ انسان اپنے مفادات پر ذرا سی بھی زد برداشت نہیں کر پاتا۔ یہ ایک بنیادی نفسی مسئلہ ہے۔ حد یہ ہے کہ اگر مستقبل میں بہتری کا یقین ہو تب بھی زمانۂ موجود میں تھوڑی بہت قربانی دینے‘ ایثار کرنے کے لیے خود کو تیار کرنا انتہائی دشوار گزار مرحلہ ہوتا ہے۔ اگر ہم سوچنے کے عمل کو اہمیت دینا چاہتے ہیں تو نئی نسل کو چھوٹی عمر سے یہ سمجھانا ہوگا کہ کامیاب وہی رہتے ہیں جو زندگی بھر منظم انداز سے سوچتے اور اس عمل کے نتیجے میں کیے جانے والے فیصلوں پر پوری دیانت‘ لگن اور سنجیدگی کے ساتھ عمل کرتے ہیں۔ سوچنے کے عمل سے گریز یا نفرت زندگی کے مسائل کا حل نہیں۔ جو لوگ سوچنے کے عمل کو مسائل کی جڑ سمجھتے ہیں وہ اپنی سوچ بدلنے پر توجہ دیں۔ زندگی کو مطلوب نیا رخ دینے کی یہی ایک صورت ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں