"MIK" (space) message & send to 7575

دنیا میری جیب میں!

انسانی مزاج کی نیرنگیاں بھی لاجواب ہیں۔ قدم قدم پر اگر سامنا ہوتا ہے‘ تو صرف حیرت کا۔ ایک تماشے کو دیکھ کر فراغت پائیے تو دوسرا تیار ملتا ہے۔ دوسرے کے بعد تیسرا‘ پھر چوتھا‘ پانچواں ... یعنی یہ سلسلہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتا۔ انسانی مزاج کی گوناگوں کیفیت کبھی کبھی ایسے تماشوں کو جنم دیتی ہے‘ جنہیں دیکھ کر سمجھ میں نہیں آتا کہ عبرت زیادہ پکڑیں یا حیرت زدہ زیادہ ہوں! 
برائے نام قسم کی اہلیت اور سکت پیدا کیے بغیر سب کچھ پانے کی آرزو کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ آج کا انسان عجیب مخمصے میں مبتلا ہے۔ ایک طرف دنیا ہے‘ جو رنگینیوں سے بھری پڑی ہے اور مسخّر ہونے کو بے تاب ہے اور دوسری طرف انسان کھڑا ہے‘ جو اُسے مٹھی میں بند کرنا‘ بلکہ جیب میں رکھ لینا چاہتا ہے۔ دُنیا کو جیب میں رکھنے کی تمنا! روئے زمین پر اس سے بڑی تمنا بھلا کون سی ہوگی؟ 
یوں تو خیر ہر دور کا انسان دنیا پر مرتا‘ مِٹتا آیا ہے‘ مگر آج کے انسان کی بات کچھ اور ہے۔ ہر دور کے انسان نے یہ تسلیم کیا ہے کہ دنیا کو پانا ہے تو کچھ کھونا بھی ہے‘ کچھ کرنا بھی ہے اور کچھ جھیلنا ہے۔ آج کا انسان ایسا کوئی تکلّف برداشت کرنے کو تیار نہیں۔ وہ بہت کچھ‘ بلکہ سب کچھ پانا چاہتا ہے‘ مگر اپنے پلّے سے کچھ دینے کو تیار نہیں۔ ایسا تو کسی طور ممکن نہیں کہ کچھ دیئے بغیر بہت کچھ مل جائے۔ ہر دور میں اُنہی انسانوں نے پایا ہے‘ جنہوں نے کچھ دیا ہے یا کیا ہے۔ ایسے لاکھوں‘ بلکہ کروڑوں مثالیں موجود ہیں کہ کسی نے کچھ پانا چاہا اور پھر اُس کے لیے زندگی کھپادی۔ بھرپور کامیابی زندگی بھر کا معاملہ ہوا کرتا ہے۔ کامیابی اور چیز ہے‘ دولت کا حصول کوئی اور بات۔ لوگ ان دونوں معاملات کو آپس میں گڈمڈ کردیتے ہیں۔ کسی نہ کسی طور بہت سی دولت کے حصول کو بھرپور کامیابی سمجھ لیا گیا ہے۔ آج کا انسان زیادہ سے زیادہ دولت پانے کا آرزو مند ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ گزرے ہوئے ادوار میں جب کسی کو بھرپور محنت کے نتیجے میں بہت دولت ملتی تھی‘ تب وہ اُس سے زندگی میں آسانیاں پیدا کیا کرتا تھا۔ آج کا انسان اس معاملے میں خاصا پس ماندہ رہ گیا ہے۔ اس کا معاملہ یہ ہے کہ جس قدر دولت آتی جاتی ہے‘ اُسی قدر الجھن بھی بڑھتی جاتی ہے۔ دولت سے مستفید ہونے اور زندگی کو آسان تر بنانے پر متوجہ رہنے کی بجائے وہ محض دولت کے حصول پر متوجہ رہتا ہے۔ اس کے نتیجے میں دولت حاصل تو ہو جاتی ہے‘ مگر وہ کام نہیں کر پاتی‘ جس کے لیے وہ حاصل کی گئی ہوتی ہے۔ 
معاملہ صرف یہ نہیں کہ آج کا انسان بہت زیادہ دولت پانا چاہتا ہے‘ بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ جن کا دولت پر کچھ زیادہ استحقاق نہیں‘ وہ بھی چاہتے ہیں کہ اُن کی تجوریاں اور جیبیں بھری رہیں۔ کوئی صلاحیت نہ ہونے پر بھی بہت کچھ پانے کی آرزو یا ہوس ‘اس دنیا میں خرابیاں پیدا کرنے والی ایک بڑی اور بنیادی وجہ ہے۔ آج کا انسان بلند سے بلند تر معیارِ زندگی یقینی بنانے کا خواہش مند ہے اور اس کے لیے جان کی بازی لگانے سے بھی گریز نہیں کرتا۔ یہی اصل مسئلہ ہے۔ انسان زیادہ سے زیادہ دولت حاصل کرکے پُرتعیّش زندگی بسر کرنے کا تو سوچتا ہے‘ مگر اس کے لیے جو کچھ بھی کرنا ضروری ہے وہ نہیں کرتا۔ بڑی نوکری یا مضبوط کاروبار کے لیے جو کچھ کرنا ہوتا ہے‘ وہ انسان کی ترجیحات میں مشکل سے شامل ہو پاتا ہے۔ ملازمت پیشہ افراد چاہتے ہیں کہ اُنہیں ترقی دی جاتی رہے‘ تنخواہ اور مراعات میں اضافہ کیا جاتا رہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے جو کچھ کرنا پڑتا ہے‘ وہ اُن سے نہیں ہو پاتا‘ یعنی دامن بچاتے ہوئے زندگی بسر کرتے ہیں۔ یہی معاملہ کاروبار کا ہے۔ کاروبار میں وہی لوگ زیادہ کامیاب ہو پاتے ہیں ‘جو دن رات اپنے شعبے پر نظر رکھتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ توجہ کے ساتھ محنت کرتے رہتے ہیں۔ جو ایسا نہیں کرتے‘ وہ دوسروں سے بہت پیچھے رہ جاتے ہیں۔ اُن کے کاروبار کا بنیادی ڈھانچا کمزور پڑتا جاتا ہے اور بالآخر وہ وقت بھی آ ہی جاتا ہے‘ جب کوئی اُس سے مستفید ہونے میں دلچسپی نہیں لیتا۔ 
باقی دنیا کو ایک طرف ہٹاکر آج کے پاکستانی معاشرے پر تھوڑی سنجیدگی سے ایک نظر ڈالیے تو اندازہ ہوگا کہ لوگ کچھ کیے بغیر پوری دنیا کو اپنی جیب میں ڈالنے کے لیے بے تاب رہتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ بے تابی یعنی ہوس بڑھتی ہی چلی جاتی ہے۔ یہ ہوس تعلیم و تربیت میں رہ جانے والی چند ایک بنیادی خامیوں اور خرابیوں کا نتیجہ ہے۔ زندگی کے لیے تیار کرتے وقت بچوں کو یہ بات لازمی سکھائی جانی چاہیے کہ دنیا میں کسی بھی چیز کا حصول صلاحیت اور سکت کے بغیر ممکن نہیں‘ یعنی یہ دونوں اوصاف ہوں تو اُنہیں بروئے کار بھی لانا پڑتا ہے۔ صلاحیت اور سکت کو بروئے کار لانے کے لیے منصوبہ سازی بھی لازم ہے۔ سوچے سمجھے بغیر کی جانے والی محنت مطلوب نتائج کی ضامن نہیں ہوا کرتی۔ ہماری نئی نسل بہت کچھ سیکھ رہی ہے۔ نئے علوم و فنون میں مہارت کے حصول کا اہتمام بھی کیا جارہا ہے۔ یہ سب تو ٹھیک ہے ‘مگر ساتھ ہی ساتھ اُن کی اخلاقی تربیت بھی کی جانی چاہیے۔ نئی نسل کو بتایا جانا چاہیے کہ اس دنیا میں حقیقی کامیاب وہی ہیں ‘جو ہزاروں برس کے تہذیبی عمل میں طے پانے والی اقدار کی پاس داری کرتے ہوئے اپنی صلاحیت اور سکت کو بروئے کار لاتے ہیں۔ جن معاشروں میں بنیادی تہذیبی اقدار کو نظر انداز کیا گیا ہے‘ اُن معاشروں کو قدرت نے بھی نظر انداز کردیا ہے۔ اُصولوں اور اقدار کے احترام سے عاری معاشرہ کسی نہ کسی طور جی تو لیتا ہے‘ ترقی نہیں کر پاتا۔
ایسے معاشرے میں حقیقی فلاح کا پہلو بھی زیادہ مضبوط نہیں ہو پاتا۔ جب لوگ کسی نہ کسی طور زیادہ سے زیادہ دولت کا حصول یقینی بنانے کی دوڑ میں شریک ہوتے ہیں‘ تب کوئی کسی کی صلاحیت‘ سکت‘ جذبات اور مجبوریوں کا احترام نہیں کرتا۔ ایسے ماحول میں سب کو صرف اپنا مفاد سُوجھ رہا ہوتا ہے۔ معاشرے اس طور پروان نہیں چڑھا کرتے۔ آج ہمارے ہاں ہر شعبے میں جو بہت سی خرابیاں دکھائی دے رہی ہیں‘ اُن کی جڑ میں یہی ذہنیت کارفرما ہے۔ لوگ راتوں رات بہت کچھ پانا چاہتے ہیں۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ بہت کچھ پانے کے لیے بہت کچھ سیکھنا اور کرنا پڑتا ہے‘ لوگ اس مرحلے کو چھوڑ کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔ جب کچھ سیکھا نہیں جائے گا اور اُس کے مطابق محنت بھی نہیں کی جائے گی‘ تو صرف دھوکا دینے اور دَھکّا مار کر آگے نکلنے کی ذہنیت ہی رہ جائے گی اور واقعی ہمارے ہاں صرف یہ ذہنیت رہ گئی ہے۔ 
انسان آسمان کی طرف دیکھتا ہے تو ستاروں کو پانے کی آرزو کرتا ہے‘ مگر یہ نہیں سوچتا کہ زمین نے پاؤں جکڑ رکھے ہیں۔ یہ بندش ختم ہو تو ستاروں تک پہنچنے کا سوچا جائے۔ آج کے انسان کا یہی سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ وہ کماحقہ سیکھنے اور سیکھے ہوئے کو بروئے کار لانے کی بجائے محض خواہش کی بنیاد پر دنیا کو جیب میں ڈال لینا چاہتا ہے۔ ہمارے معاشرے کی بھی عمومی روش یہی ہے۔ اس روش پر گامزن رہنے کا جو نتیجہ برآمد ہوسکتا ہے‘ وہی تو ہو رہا ہے۔ ویسے تو خیر پورے معاشرے کی اصلاح لازم ہے‘ مگر نئی نسل کو خصوصی طور پر ہدف بناکر اعلیٰ تہذیبی اقدار تعلیم کی جانی چاہئیں‘ تاکہ عملی زندگی قدم رکھنے پر وہ حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرے‘ جتنا سیکھنا ہے سیکھے اور جو کچھ کرنا ہے‘ وہ کرے!۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں