امتحانات کا موسم کہیں ختم ہوچکا ہے اور کہیں ختم ہوچلا ہے۔ سکولز میں نچلی جماعتوں کے نتائج کا اعلان ہوچکا ہے۔ ایسے میں: ع
کہیں بجتی ہے شہنائی‘ کہیں ماتم بھی ہوتے ہیں
کا سماں ہے۔ ہر طرف ایک ہی لفظ کا رونا رویا جارہا ہے‘ دہائی دی جارہی ہے۔ یہ لفظ ہے ''پرسنٹیج‘‘ یعنی حاصل شدہ مارکس کا تناسب یا مجموعی پوزیشن۔
ایک زمانہ تھا کہ علم کے حصول کے حوالے سے اس بات پر زیادہ زور دیا جاتا تھا کہ پوری زندگی کی تطہیر و تہذیب ہو۔ بچے کو درس گاہ بھیجنے کا بنیادی مقصد‘ اُسے بہتر زندگی کے لیے تیار کرنا ہوتا تھا۔ سارا زور محض پرسنٹیج پر نہیں ہوتا تھا ‘بلکہ یہ بھی دیکھا جاتا تھا کہ بچہ بہتر زندگی کے لیے اپنے آپ کو کس طور تیار کر رہا ہے یا کرسکتا ہے۔ اب تمام معاملات کو گھما پِھراکر پرسنٹیج کی چوکھٹ پر قربان کیا جارہا ہے۔ ٹیچرز‘ ٹیوٹرز اور والدین کی مجموعی توجہ محض اس بات پر ہے کہ بچہ زیادہ سے زیادہ مارکس حاصل کرے اور دوسروں سے بہت نمایاں دکھائی دے۔ یہ مقصد یقینا بہت اہم ہے۔ کوئی بچہ اگر زیادہ مارکس لیتا ہے‘ تو اُس میں اعتماد کا گراف بھی بلند ہوتا ہے اور وہ دوسروں سے آگے نکل کر مزید تعلیم بہتر انداز سے حاصل کرنے کی طرف بھی بڑھتا ہے۔ پرسنٹیج زیادہ ہوگی تو بچہ اگلی جماعتوں میں آسانی سے داخلہ پائے گا اور اعلیٰ تعلیم کے حصول کی راہ بھی ہموار ہوگی۔
ایسا کیوں ہے کہ تمام معاملات کو سمیٹ کر پرسنٹیج کی دہلیز تک پہنچا دیا گیا ہے؟ کیا تعلیم و تربیت کا مقصد محض یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ مارکس لے کر خود کو دوسروں سے بہتر ثابت کیا جائے؟ کیا دنیا کا نظام اِسی طور چل رہا ہے؟ یقیناایسا نہیں ہے۔ والدین یہی چاہتے ہیں کہ اُن کا بچہ دوسرے بچوں سے بہتر اور برتر دکھائی دے۔ یہ سوچ غلط نہیں‘ مگر اس مقصد کے حصول کے پیرا میٹرز اپنے طور پر طے کرنا بھی کسی طور درست نہیں۔ بچہ دوسروں سے بہتر اور برتر کئی اعتبار سے دکھائی دے سکتا ہے۔ لازم نہیں کہ سبھی کی صلاحیتیں ایک سی ہوں۔ ہر بچہ کسی نہ کسی فطری رجحان یا میلان کے ساتھ پیدا ہوتا ہے۔ میلان کا مفہوم ہے جھکاؤ۔ بچے کا جس طرف جھکاؤ ہوتا ہے‘ وہ اُسی طرف جاسکتا ہے؛ اگر اُس سے ہٹ کر اُسے کچھ بنانے کی کوشش کی جائے‘ تو نتیجہ انتہائی مایوس کن برآمد ہوتا ہے۔ کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ کسی بچے کو کسی ایسے شعبے کیلئے تیار کیا جاتا ہے‘ جو اُس کی مرضی کا نہیں ہوتا۔ وہ کسی نہ کسی طور مہارت حاصل کرکے بہت کچھ کما بھی لیتا ہے مگر زندگی ڈھنگ سے نہیں گزرتی۔ بہتر‘ بلکہ قابلِ رشک مالی حیثیت کے باوجود اُس کی زندگی میں اچھا خاصا خلا رہ جاتا ہے۔ جہاں فطری میلان کو نظر انداز کردیا جائے ‘وہاں ایسا ہی ہوتا ہے۔
اب آئیے‘ اس سوال کی طرف کہ پرسنٹیج کی دوڑ کیوں جاری ہے؟ بچے پر زیادہ سے زیادہ مارکس لانے کیلئے دباؤ کیوں ڈالا جارہا ہے‘ زور کیوں دیا جارہا ہے؟ فی زمانہ بیشتر بچے آگہی کی بلند سطح پر ہیں۔ وہ معاشرے میں جو کچھ دیکھتے ہیں ‘وہ اُن کے ذہن میں داخل ہوکر اُن کی صلاحیتوں پر بھی اثر انداز ہوتا ہے؛ اگر ماحول میں مثبت اثرات زیادہ ہوں تو بچے میں اعتماد پیدا ہوتا ہے اور وہ زیادہ دل جمعی کے ساتھ بہتر انداز سے علم حاصل کے قابل ہو پاتا ہے۔ آئی ٹی سیکٹر کی بے مثال اور حیرت انگیز ترقی نے بچوں کو وقت سے بہت پہلے بڑا ہی نہیں کردیا‘ بلکہ اُنہیں بعض معاملات میں خواہ مخواہ تیز بھی کردیا ہے۔ لازم ہوگیا ہے کہ اُن کی شخصیت میں رونما ہونے والی تبدیلیوں پر نظر رکھی جائے اور اُنہیں تعلیم و تربیت کے مختلف مراحل میں بہتر انداز سے آگے بڑھنے کے قابل بنایا جائے۔
کسی خاص شعبے کو ذہن میں رکھ کر آگے بڑھنے کیلئے؛ چونکہ انتہائی بلند پرسنٹیج کا حصول لازم ہوتا ہے‘ اس لیے والدین غیر معمولی طور پر فکر مند رہتے ہیں‘ مثلاً: میڈیکل کیلئے مقابلہ بہت سخت ہے۔ یہی سبب ہے کہ مقابلہ (پرسنٹیج) اب 90 فیصد یا اس سے بھی آگے چلا گیا ہے۔ یہی حال انجینئرنگ کا ہے۔ دونوں شعبوں میں انتہائی پڑھاکو بچے کو اگلی کلاسز میں داخلہ مل پاتا ہے۔ یہ پڑھاکو بچے پڑھے ہوئے کو کس طور ہضم کر پاتے ہیں اور زندگی بسر کرنے کے حوالے سے ان کے ذہن میں کیا تصورات ہیں‘ یہ سب کچھ ثانوی نوعیت کی اہمیت کا حامل ہے۔ سب سے زیادہ اہم نکتہ یہ ہے کہ یہ کتنے مارکس لاتے ہیں۔ اعلیٰ جماعتوں میں داخلہ صرف مارکس کی بنیاد پر ملتا ہے‘ حقیقی رجحان کی بنیاد پر نہیں۔
عمومی مشاہدہ ہے کہ جن بچوں کو صرف مارکس لانے پر توجہ مرکوز کرنے کی ہدایت کی جاتی ہے‘ وہ محض رٹّوطوطے بن کر رہ جاتے ہیں‘ جو کچھ پڑھا ہو اُسے ہضم کرنے سے کہیں بڑھ کر وہ صرف یہ دیکھتے ہیں کہ سب کچھ نوکِ زباں ہو‘ یعنی جیسے ہی کوئی کچھ پوچھے تو فرفر سنادیا جائے۔ یاد رکھنا اور فرفر سنا دینا بھی قابلیت ہے‘ مگر تمام قابلیتیں اس ایک قابلیت کی چوکھٹ پر قربان نہیں کی جاسکتیں۔
پاکستان کی نئی نسل میں بہت کچھ کرنے کی تمنا اور لگن پائی جاتی ہے۔ اُس میں کام کرنے کی صلاحیت اور سکت بھی ہے۔ سوال صرف سمت کے تعین کا ہے۔ تعلیمی نظام کی نوعیت ایسی ہے کہ کوئی بچہ کسی شعبے میں کیسا ہی رجحان رکھتا ہو؛ اگر اُس کی پرسنٹیج مطلوبہ بلندی تک نہ پہنچے تو تو راستہ نہیں کھلتا۔ اس حوالے سے متوازن پالیسی اپنانے کی ضرورت ہے۔ دنیا بھر میں مقبول و مروّج طریق یہ ہے کہ محض ڈگری یا پرسنٹیج دیکھ کر داخلہ نہیں دیا جاتا ‘بلکہ رجحان اور میلان بھی دیکھا جاتا ہے۔ قوم کی تعلیم کے حوالے سے تمام معاملات طے کرنے والوں کو یہ نکتہ ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ جس بچے میں جو رجحان پایا جاتا ہو‘ اُسے اُس کے مطابق؛ شعبہ دیا جانا چاہیے۔ امتحانات کے سالانہ نظام کی بجائے سمسٹر سسٹم اپنانے سے بہتر نتائج یقینی بنائے جاسکتے ہیں۔
قومی سطح پر والدین کو یہ بات یاد دلانے کی ضرورت ہے کہ کسی بھی بچے کو بہتر زندگی کے لیے تیار کرنا ہی تعلیم و تربیت کا بنیادی مقصد ہے۔ بچہ سکول‘ گھر اور معاشرے کے عمومی ماحول میں جو کچھ سیکھتا ہے ‘وہی سب کچھ زندگی بھر اُس کے ساتھ رہتا ہے۔ والدین کے لیے انتہائی لازم ہے کہ بچے کی تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت پر بھی بھرپور توجہ مرکوز کریں۔ بچہ نصابی مواد‘ یعنی متن میں سے کیا یاد رکھ پاتا ہے اور کتنی تیزی سے سُنا پاتا ہے‘ اس کا خیال رکھنا بھی لازم ہے‘ مگر اس سے بڑھ کر لازم ہے بچے میں وہ بھرپور اعتماد پیدا کرنا جو تعلیم کے حصول کے ساتھ ساتھ بہتر زندگی کے لیے بھی غیر معمولی حد تک معاون ہو۔ یہ اعتماد ٹیچرز اور ٹیوٹرز پیدا نہیں کرسکتے۔ یہ کام تو والدین ہی کو کرنا پڑے گا۔ آج کے ٹیچرز اور ٹیوٹرز زیادہ سے زیادہ یہ کرسکتے ہیں کہ نصابی مواد کو ذہن نشین کرادیں یا ٹھونس دیں۔ بچے کو آنے والی پوری زندگی کے لیے تیار کرنے کا فریضہ صرف والدین انجام دے سکتے ہیں اور اگر وہ یہ فریضہ کماحقہ انجام دینا چاہتے ہیں ‘تو لازم ہے کہ پرسنٹیج کی منزل میں اٹک کر نہ رہ جائیں۔ اُنہیں پرسنٹیج کے معاملے کو ساتھ لے کر کئی قدم آگے جانا ہوگا ‘تاکہ بچے کی شخصیت پوری طرح کُھل اور کِھل سکے۔