دنیا کا ہر انسان کسی بھی معاملے کو اپنے تناظر کی عینک سے دیکھتا ہے۔ دیکھنا بھی چاہیے۔ دانش کا تقاضا بھی یہی ہے۔ دانش کے تقاضے نبھاتے ہوئے زندگی بسر کرنے کی صورت میں معاملات متوازن رہتے ہیں اور انسان دوسروں کے لیے زیادہ الجھنیں پیدا نہیں کرتا ہے۔
آج کی دنیا میں ''پرسنل ڈیویلپمنٹ‘‘ کا غلغلہ ہے۔ شخصی ارتقاء کا تصور نیا نہیں۔ ہر دور کا انسان مجموعی طور پر اپنی ذات کو زیادہ سے زیادہ مضبوط بنانے ہی پر متوجہ رہا ہے۔ ہر دور کے اہلِ دانش نے جو کچھ بھی لکھا؛ اُس کا انتہائی اور صریح بنیادی مقصد صرف یہ تھا کہ انسان پورے ماحول سے مطابقت پیدا کرنے کے لیے اپنی شخصیت میں غیر معمولی تبدیلی لائے‘ اپنے آپ کو اس طور تبدیل کرے کہ دنیا اُس کی طرف متوجہ ہو اور اُسے سراہنے میں بخل سے کام نہ لے۔ خالص علمی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو پورے خلوص کے ساتھ یقینی بنائے جانے والے شخصی ارتقاء میں کوئی بُرائی یا قباحت نہیں۔ تاریخ کا ہر دور اس امر کے لیے کوشاں رہا ہے کہ انسان اپنی انفرادی حیثیت کو کسی طور نظر انداز نہ کرے اور جس قدر بھی شخصی ارتقاء یقینی بناسکتا ہے‘ بنائے۔
مغرب نے دو ڈھائی صدیوں کے دوران انسان کی شخصی یا انفرادی حیثیت کو اس قدر اہمیت دی ہے کہ باقی سب کچھ دُھندلا سا گیا ہے۔ مغرب کے اہلِ دانش نے اِن ڈھائی تین صدیوں کے دوران جو کچھ سوچا‘ کہا اور لکھا ہے ‘اُس میں شخصی ارتقاء پر بہت زور دیا گیا ہے۔ یہی سبب ہے کہ آج کے مغربی معاشروں میں شخصی آزادی اور شخصی ارتقاء کو دیگر تمام امور سے برتر سمجھنے کی روش عام ہے۔ معاشرے کے مقابل فرد کی آزادی اور ارتقاء دونوں کو ہر حال میں یقینی بنانے کی بھرپور کوشش مغربی معاشروں کا انتہائی بنیادی خاصہ ہے۔ حد یہ ہے کہ بچوں کو سرنش کرنے کا حق بھی والدین سے چھین لیا گیا ہے! فرد کی بہبود کی ذمہ داری ریاست کے کاندھوں پر آ جانے سے خاندانی نظام کی کچھ خاص وقعت نہیں رہی۔ اور یوں گھر کا ہر فرد اپنی مرضی سے جینے کی کوشش میں جائز و ناجائز اور حرام و حلال میں تمیز کے شعور سے بھی بے بہرہ ہوچکا ہے۔
مغرب نے شخصی ارتقاء کا تصور پوری شرح و بِسط کے ساتھ دیا ہے۔ باقی خطوں اور معاشروں نے اس حوالے سے مغرب سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ انیسویں صدی کے وسط سے اب تک مغرب باقی دنیا کا باضابطہ امام ہے۔ آج ہماری زندگی میں جتنی بھی سہولتیں پائی جاتی ہیں وہ‘ موجودہ شکل میں‘ تقریباً سب کی سب مغرب کی دی ہوئی ہیں۔ ہر شعبے کی جدید ترین ٹیکنالوجی مغرب کی دَین ہے۔ مغرب نے یہ سب کیونکر یقینی بنایا یہ ایک الگ بحث ہے۔ ہر شعبے میں غیر معمولی ارتقاء یقینی بنانے کی کوشش میں مغرب نے اگر بہت کچھ پایا ہے تو بہت کچھ کھویا بھی ہے۔ شخصی ارتقاء کا غلغلہ یوں بلند ہوا کہ باقی سب کچھ غیر متعلق سا ہوکر رہ گیا۔ سوچا یہ گیا تھا کہ فرد کسی طور اجتماعیت کے دریا میں غرق نہ ہو‘ یعنی اپنی انفرادیت بھی قائم رکھے اور معاشرے کے لیے زیادہ سے زیادہ مفید بھی ثابت ہو۔ اندھا دھند ترقی کی دوڑ میں مغرب کا انسان اِس طور بڑھتا چلا گیا کہ مذہب اور اخلاقی و روحانی اقدار سمیت سارا کا سارا تہذیبی اثاثہ بہت پیچھے رہ گیا۔
یہ ہے؛ شخصی ارتقاء کی قیمت جو مغرب نے ادا کی ہے۔ ریاست کو تمام معاملات کا ذمہ دار ٹھہراکر ہر فرد کو اپنے طور پر جینے کی بھرپور آزادی بخش دی گئی۔ اس بے لگام آزادی نے گھر‘ خاندان اور برادری کا تصور یکسر ختم کردیا۔ فرد جب بے لگام ہوا تو تمام رشتوں اور اُن کے تقدس کو بھول گیا۔ شخصی ارتقاء کے لیے لازم سا ہوگیا کہ دنیا کی زندگی ہی کو سب کچھ سمجھ لیا جائے۔ اِس سوچ نے مادّہ پرستی کو جنم دیا جس کے باعث ذہن و دل صرف اِس دنیا تک محدود ہوکر رہ گئے۔ کائنات میں انسان کے لیے بہت بڑا مقام رکھا گیا ہے مگر مادّہ پرستی نے اُس مقام کو انتہائی محدود کردیا۔ شخصی آزادی کے تصور کو فروغ دینے کی کوشش میں مغرب نے تہذیب کے وسیع و وقیع ورثے ہی کو داؤ پر لگادیا۔
المیہ یہ ہے کہ دیگر بہت سے معاشروں کی طرف پاکستانی معاشرہ بھی شخصی ارتقاء کے محدود تصور کا اسیر ہوکر رہ گیا ہے۔ آج ہماری زندگی میں زر ہی سب کچھ ہے۔ پاکستان میں شخصی آزادی و ارتقاء کا تصور اب تک خام شکل میں ہے‘ مگر دیگر معاشروں پر اِس کے جو اثرات مرتب ہوئے تھے وہ بہت پہلے ہم پر بھی مرتب ہوچکے ہیں۔ آج کا عام پاکستانی ہر معاملے میں صرف اپنی ذات کو دیکھتا ہے۔ اُسے اس بات سے بظاہر کچھ خاص غرض نہیں کہ دوسروں کی زندگی میں کیا ہے اور وہ اُن کے لیے کیا کرسکتا ہے۔ خالص مادّہ پرستی نے ذہن و دل میں گھر کرلیا ہے۔ عالمی سطح پر شخصی آزادی و ارتقاء کے غلغلے نے ہمارے ہاں بھی ذہنی کجی کا گراف بلند کیا ہے۔ کچھ بننے کے لیے جو کچھ درکار ہوا کرتا ہے ‘اُس کا اہتمام کیے بغیر بہت کچھ پانے کی اندھی خواہش نے تمام معاملات کو زر پرستی کی چوکھٹ پر لاکر اُن کا جھٹکا کر ڈالا ہے۔
ترقی یافتہ معاشروں میں اگر شخصی ترقی کا تصور پروان چڑھا ہے ‘تو اس بنیاد پر کہ انسان بہت کچھ پانے کی خواہش کی تکمیل کے لیے بہت کچھ کرے گا بھی اور بہت کچھ کھوئے گا بھی۔ یہاں معاملہ یہ ہے کہ لوگ کچھ کیے بغیر بہت کچھ‘ بلکہ سب کچھ پانا چاہتے ہیں اور اِسے شخصی ارتقاء سمجھ کر اپنے آپ کو دھوکا دے رہے ہیں۔
آج بازار میں ایسی بہت سی کتب دستیاب ہیں ‘جن میں زیادہ سے زیادہ انفرادی کامیابی یقینی بنانے کی ''ضمانت‘‘ فراہم کی گئی ہے۔ کامیابی اور شخصی ارتقاء کے نام پر پیش کیا جانے والا یہ لٹریچر اُتھلے پانی جیسا ہے۔ میڈیا پر پیش کی جانے والی ٹیبل سٹوریز کی طرح یہ لٹریچر بھی بے تحقیق اور پُھسپُھسا ہے۔ اِسے پڑھ کر نئی نسل اگر کچھ سیکھتی ہے ‘تو صرف یہ کہ اس دنیا میں ہر قیمت پر کامیاب ہونا ہر انسان پر لازم ہے‘ یعنی یہ کہ مادّی ترقی ہی سب کچھ ہے‘ زیادہ سے زیادہ دولت کا حصول ہی زندگی کا بنیادی مقصد ہونا چاہیے۔ شخصی آزادی و ارتقاء کا یہ تصور ہر اعتبار سے بیماری کے درجے میں ہے۔ یہ تصور ذہنوں میں کجی کا گراف بلند کر رہا ہے‘ دِلوں کو سوز سے خالی کرتا جارہا ہے اور روحانی سطح پر شرمناک کم مائیگی کا باعث بن رہا ہے۔
ہر دور کا انسان دنیا کو پانے کا خواہش مند رہا ہے اور اس راہ میں عبرت ناک قسم کی ٹھوکریں بھی کھائی ہیں۔ حقیقی المیہ یہ ہے کہ انسان نے اپنی ہی تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا۔ جسم کی خاطر روح کی تازگی و شادابی سے محروم ہوجانے والوں کا انجام دیکھ کر بھی کوئی سبق نہیں سیکھا گیا۔ ہزاروں سال پہلے کے انسان کی طرح آج کا انسان بھی شخصی ارتقاء کے نام پر اپنے آپ کو دھوکا ہی دے رہا ہے۔ سب سے بڑی قباحت یہ ہے کہ جب ہوش آتا ہے تب پُلوں کے نیچے سے اچھا خاصا پانی گزر چکا ہوتا ہے اور تدارک کی زیادہ گنجائش نہیں رہتی۔ اس حوالے سے خاطر خواہ تدبر اور اصلاحِ نفس کی اشد ضرورت ہے۔