"MIK" (space) message & send to 7575

دیکھا دیکھی

 

ایک زمانے سے سُنتے آئے ہیں کہ خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے۔ پکڑتا ہوگا۔ ہم نے بیل میں لگے ہوئے خربوزے کبھی نہیں دیکھے ۔اس لیے پورے تیقّن کے ساتھ کچھ نہیں کہہ سکتے۔ لوگ کہتے ہیں تو ہم مان لیتے ہیں کہ ایسا ہی ہوتا ہوگا۔ خیر‘ خربوزوں والی بات ہمیں یوں یاد آئی کہ ہم (پاکستانی) اور خربوزے خیر سے ایک پیج پر ہیں ‘کیونکہ ہمیں بھی ایک دوسرے کو دیکھ کر رنگ پکڑنے کا بہت شوق ہے! اپنی شخصی صفات اور متعلقہ انفرادیت کو وقیع گردانتے ہوئے اپنی مرضی کی زندگی بسر کرنے سے ہم میں سے بیشتر عمر بھر گریزاں رہتے ہیں۔ ضرورت اور گنجائش نہ ہو‘ تب بھی دوسروں کو دیکھ کر رنگ پکڑنا ہمارے لیے فطرتِ ثانی کی حیثیت اختیار کرگیا ہے۔ 
ایسا کیوں ہے؟ انسان اپنے وجود کی گہرائیوں میں اُترنے کی بجائے دوسروں کو دیکھ کر جینے کا انداز کیوں بدلتا ہے؟ اپنے وجود سے کہیں زیادہ دوسروں میں کشش کیوں محسوس ہوتی ہے؟ ''گھر کی مُرغی دال برابر‘‘ والی ذہنیت ہمارے دماغ سے چپک اور چمٹ کر کیوں رہ گئی ہے؟ کیا طبیعت‘ مزاج اور ذہن کا یہ رجحان فطری ہے؟ یہ اور ایسے ہی بہت سے دوسرے سوال ہیں ‘جن کی مدد سے یہ جاننے کی کوشش کی جاتی رہی ہے کہ انسان اپنے آپ کو کمتر اور دوسروں کو برتر گرداننے کی روش پر کیوں گامزن رہا ہے۔ 
انسان میں ایک چیز تو فطری ہے۔ یہ کہ وہ اپنے آپ میں زیادہ دلچسپی لینے کی بجائے دوسروں پر زیادہ 
متوجہ ہوکر اُن سے کچھ نہ کچھ سیکھنے‘ اخذ کرنے یا پھر اُن کی نقّالی کی کوشش کو ترجیحی درجے میں رکھتا ہے۔ کم و بیش 99 فیصد انسانوں میں یہ تصور کسی نہ کسی حد تک ضرور پایا جاتا ہے کہ جو کچھ اُنہیں ملا ہے‘ وہ اُس سے کمتر ہے ‘جو دوسروں کو ملا ہے۔ جو کچھ قدرت نے ہمیں بخشا ہے ‘اُس سے ہم پوری طرح مطمئن ہوئے بغیر جیتے ہیں۔ ایسی حالت میں زندگی بسر کرنے کا لطف بھی جاتا رہتا ہے اور اپنے وجود کا حق بھی ادا نہیں ہو پاتا۔ جو کچھ ملا ہے اُس پر رب کے حضور اظہارِ تشکّر لازم ہے کہ ایسا کرنے ہی سے اُس کی نعمتوں کو سمجھنے‘ مستفید ہونے اور پروان چڑھانے کی توفیق نصیب ہوتی ہے۔ یہ تو ہوئی آئیڈیل صورتِ حال کی بات۔ یہاں معاملہ یہ ہے کہ لوگ حاصل شدہ نعمتوں اور صفات پر رب کا شکر ادا کرنے پر مائل ہونے کے بجائے شِکوہ سنج رہتے ہیں۔ جو کچھ ملا ہے‘ اُس پر صابر و شاکر رہنے کی بجائے ہر وقت رونا دھونا کیا جائے‘ تو وہ سب کچھ بہت حد تک بے معنی اور غیر متعلق لگنے لگتا ہے ‘جو ہاتھ آیا ہوا ہے۔ جو کچھ دوسروں کے پاس ہے‘ وہ اچھا لگتا ہے۔ یہی فطری میلان ہے۔ سوال ورائٹی کا ہے۔ انسان کو جو کچھ قدرت کی طرف سے ملتا ہے‘ اُس کے ساتھ زندگی بسر کرتے کرتے وہ بیزاری سی محسوس کرنے لگتا ہے۔ زندگی تنوّع چاہتی ہے۔ اس خواہش کی تکمیل کے لیے انسان بہت کچھ کرتا ہے۔ مشکل یہ ہے کہ کسی بھی معاشرے کا سوادِ اعظم (اکثریت) اپنے معاملات کو درست کرنے کے نام پر محض خانہ پُری کر رہا ہوتا ہے۔ رسمی کارروائی کی منزل سے گزر رہا ہوتا ہے۔ زندگی میں تنوّع کس طور متعارف کرایا جانا چاہیے‘ اس حوالے سے موزوں ترین افراد سے مشاورت کرنے کی بجائے اپنے طور پر فیصلے کو کرنے کو ترجیح دی جاتی ہے۔ ہر فرد ذہنی صلاحیت کے اعتبار سے اس قابل نہیں ہوتا کہ زندگی کو زیادہ بامعنی اور متنوّع بنانے کے لیے اپنے طور پر درست فیصلے کرسکے۔ یہی سبب ہے کہ اس راہ میں اکثریت ٹھوکریں ہی کھاتی ہے۔ 
زندگی کو رنگا رنگ اور متنوّع بنانے کا آسان ترین طریقہ یہ ہے کہ دوسروں کو دیکھ کر اُن جیسا بننے کی کوشش کی جائے۔ جب معاشرے میں اکثریت ایسا کر رہی ہو تو دوسروں کی دیکھا دیکھی اپنے آپ کو‘ بلا جواز طور پر بے ڈھنگے طریقے سے‘ بدلنے کا رجحان تیزی سے پنپنے لگتا ہے۔ یہ رجحان اصلاً اس حقیقت سے تقویت پاتا ہے کہ اِس میں انسان کو کچھ زیادہ محنت نہیں کرنا پڑتی۔ نقّالی انسان سے زیادہ محنت کا تقاضا کرتی ہی نہیں۔ ساری محنت تو وہاں لازم ہوتی ہے جہاں خوب سوچ سمجھ کر‘ منصوبے کے تحت کچھ کرنے کی کوشش کی جائے اور اپنے آپ کو حقیقی مفہوم میں تبدیل کرنے کی ٹھانی جائے۔ 
آج ہمارے معاشرے کا عمومی چلن یہ ہے کہ دوسروں کی دیکھا دیکھی بہت کچھ بننے اور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ کماحقہ یعنی اطمینان بخش حد تک ہوم ورک نہ کیا گیا ہو تو انسان کسی بھی شعبے میں قابلِ ذکر اور قابلِ رشک کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر پاتا۔ کچھ سیکھنا اور اُسے بروئے کار لانا اُسی وقت ممکن ہے جب انسان یہ طے کرلے کہ وہ کسی بھی معاملے میں دوسروں سے محض روا روی میں متاثر نہیں ہوگا اور جو کچھ بھی کرے گا وہ نقّالی سے کہیں آگے جاکر خالص شعوری سطح پر ہوگا۔ جب کوئی کام پورے شعور کے ساتھ کیا جاتا ہے تب زندگی کو واقعی نئی معنویت ملتی ہے اور ہم محسوس کرتے ہیں کہ ہمیں دستیاب ماحول ڈھنگ سے جینے کے حوالے سے کچھ بہتر ہوا ہے۔ 
آج ہمارے ہاں پورا ماحول دیکھا دیکھی سے عبارت ہے۔ لوگ بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں مگر اِس حوالے سے منصوبہ سازی کرتے ہیں نہ محنت پر یقین رکھتے ہیں۔ ہمیں اچھی طرح معلوم ہے کہ اگر ڈھنگ سے جینا ہے تو بہت کچھ قربان کرنا پڑے گا اور اور بہت کچھ اپنانا بھی پڑے گا ‘مگر ہم ہی ہیں کہ دیکھے کو اَن دیکھا کرکے آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ اِس انداز سے آگے بڑھنا دراصل پیچھے جانے کا عمل ہوتا ہے کیونکہ عموماً شدید منفی نتائج ہی بھگتنا پڑتے ہیں۔ موزوں ترین تیاری کے بغیر کیا جانے والا ہر کام مطلوب نتائج پیدا کرنے میں ناکام ہی نہیں رہتا ‘بلکہ غیر مطلوب نتائج سے دوچار بھی کردیا کرتا ہے۔ نقّالی اور دوسروں کی دیکھا دیکھی اپنی زندگی کو کسی نہ کسی طرح راتوں رات تبدیل کرنے کی روش پر گامزن رہنے سے ہم اپنے لیے مشکلات ہی کھڑی کرتے رہتے ہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ دوسروں کے ساتھ ساتھ اپنے لیے پیدا ہونے والی مشکلات دیکھنے اور جھیلنے کے باوجود ہم کوئی سبق نہیں سیکھتے اور غلطیوں کو دُہراتے رہتے ہیں۔ 
اپنی صلاحیتوں کا معیار بلند کرنے اور زیادہ محنت کرنے کی عادت کو پروان چڑھانے کے بجائے اگر ہم محض نقّالی پر متوجہ رہیں تو رہے سہے امکانات بھی کمزور پڑتے چلے جاتے ہیں۔ نقّالی کسی بھی درجے میں اِتنی بلند نہیں ہوسکتی کہ اصل کا مقابلہ کرسکے۔ اپنے حالات بدلنے کیلئے محض نقّالی سے کوئی بڑا مثبت نتیجہ یقینی نہیں بنایا جاسکتا۔ آپ بھی؛ اگر اپنے لیے کوئی بڑی حقیقی تبدیلی چاہتے ہیں تو محض دوسروں کو دیکھ کر کچھ بننے کی کوشش سے کچھ بھلا نہ ہوگا۔ حقیقی تبدیلی کے لیے آپ کو ہوم ورک پر توجہ دینا ہوگی یعنی میدانِ عمل میں نکلنے سے قبل پوری تیاری کرنا ہوگی تاکہ موقع کی نزاکت کی مناسبت سے وہ سب کچھ کرنا ممکن ہو جس کا کیا جانا ناگزیر ہو۔ نقّالی بالآخر شخصیت کو مسخ کردیتی ہے۔ بہترین آپشن یہ ہے کہ انسان اپنی صلاحیت کے مطابق کچھ کرنے کی ٹھانے اور اس حوالے سے اپنی سکت کے مطابق کوشاں ہو۔

 

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں