"MIK" (space) message & send to 7575

ناظرین کی تربیت لازم ٹھہری

ہر سال کی طرح امسال بھی ماہِ صیام کی آمد سے قبل ہی سَحر و افطار کی نشریات کے حوالے سے تحفظات اور خدشات کے اظہار کا سلسلہ شروع ہوا۔ یہ معاملہ پنجاب اسمبلی تک بھی پہنچا۔ وہاں ایک قرارداد پیش کی گئی‘ جس میں اس بات پر زور دیا گیا کہ سَحر و افطار کی نشریات کی میزبانی سیلیبریٹیز کو نہ دی جائے ‘بلکہ یہ ذمہ داری اُن افراد کو سونپی جائے ‘جو دین کی تعلیم اور متعلقہ تربیت کے حامل ہوں۔ دینی تعلیم سے مزین شخص ‘جب کوئی بات بتائے گا ‘تو اُس میں وزن بھی ہوگا اور لوگ پوری سنجیدگی سے سُن بھی سکیں گے۔ پنجاب اسمبلی نے یہ قرارداد منظور بھی کی ہے۔ 
ایک عشرے سے بھی زائد مدت سے ہمارے ہاں سَحر و افطار کی نشریات کے حوالے سے ہر سطح پر تحفظات پائے گئے ہیں۔ چار پانچ سال قبل تک تو معاملہ خطرناک حد تک بگڑ گیا تھا۔ گیم شو کے نام پر دینی شعائر کا تمسخر اڑانے کا سلسلہ نقطۂ عروج پر تھا۔ افطار کے بعد عشاء کی صلوٰۃ اور اُس کے بعد تراویح کی صلوٰۃ تک گیم شو کے نام پر‘ محض ریٹنگ بڑھانے کیلئے‘ چند بڑے چینلز پر جو کچھ ہوا کرتا تھا‘ وہ انتہائی شرم ناک تھا۔ 
سارا چکر ریٹنگ کا تھا۔ چینلز کو اشتہارات ریٹنگ کی بنیاد پر ملتے ہیں۔ ریٹنگ بڑھانے کے لیے جو کچھ بھی کیا جاسکا تھا ‘وہ کیا گیا۔ شہر کے پس ماندہ علاقوں کے مفلوک الحال خواتین و حضرات اور بچوں کو کیمرے کے سامنے لاکر ایک طرف تو اُن سے ہمدردی کا اظہار کیا جاتا تھا اور دوسری طرف مدد کے نام پر اُنہیں اس طور ''نوازا‘‘ جاتا تھا کہ دیکھنے والوں کی آنکھیں شرم سے جھک جایا کرتی تھیں۔ کہیں کہیں تو کسی پس ماندہ بستی کے ایک گھرانے کو منتخب کرکے محض ایک ماہ کا راشن پہنچانے کا معاملہ بھی ''سیگمنٹ‘‘ کے طور پر پیش کیا جاتا تھا۔ جس معاملے میں دین نے جتنی رازداری برتنے کی تلقین کی ہے‘ اُسے اُتنے ہی زور و شور سے پیش کیا گیا۔ دین کہتا ہے کسی کی مدد ‘اس طور کی جائے کہ وہ ہاتھ پھیلانے کی ندامت سے بھی محفوظ رہے اور رازداری کی صورت میں عزتِ نفس بھی محفوظ رہے۔ 
بعض چینلز نے افطار کے بعد سے رات گئے تک جاری رہنے والے گیم شوز میں ایسا ماحول پیدا کیا کہ لوگ پہلے تو عبادات میں خلل محسوس کرنے لگے اور پھر عبادات سے غافل بھی ہوتے گئے۔ افطار کے بعد کھانے کا اور اُس کے بعد عشاء کی نماز کا اہتمام کرنے کی بجائے خواتین ِ خانہ بچوں سمیت منی سکرین کے سامنے بیٹھ کر وقت ضائع کرتی رہیں۔ تب 90 فیصد سے زائد گھرانوں کا یہی کیس تھا۔ 
جن چینلز نے یہ طے کیا تھا کہ ریٹنگ بڑھانے کے لیے کچھ بھی کر گزریں گے‘ وہ اپنی مرضی سے طے کی ہوئی ڈگر پر گامزن رہے۔ کوئی کچھ بھی سوچتا اور کہتا رہے‘ اُنہیں کسی بات سے کچھ غرض نہ تھی۔ سَحر و افطار کی نشریات میں ان چینلز نے وہ سب کچھ کیا ‘جو لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے ناگزیر تھا اور اس کا خاطر خواہ نتیجہ بھی برآمد ہوا۔ لوگ ان نشریات کی رنگینیوں میں گم ہوتے گئے اور ریٹنگ بڑھتی گئی۔ سیٹ ڈیزائننگ‘ کیمرا مین شپ‘ کونٹینٹ اور پریزنٹیشن ... سبھی کچھ ایسا تھا ‘جو لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں انتہائی کامیاب تھا۔ 
دُنیا نیوز سمیت چند ہی چینلز تھے ‘جنہوں نے دینی شعائر کے حوالے سے خالص متانت کو اولین ترجیح کا درجہ دیا اور ناظرین کو دین تعلیمات کے حوالے سے بنیادی امور سے آگاہ کرنے کا فریضہ انجام دیتے رہے۔ ریٹنگ بڑھانے کے نام پر بیشتر چینلز ‘جو کچھ کر رہے تھے‘ وہ دُنیا نیوز نے کبھی نہیں کیا۔ 
لوگ کیا دیکھنا چاہتے ہیں؟ وہی جو چینلز اُنہیں دکھانا چاہیں۔ عوام کا مزاج بھیڑ چال والا ہوتا ہے‘ جو کچھ وہ زیادہ دیکھتے ہیں‘ اُس کے زیادہ اثرات بھی قبول کرتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ جب چینلز نہیں تھے‘ تب پی ٹی وی عوام کی ذہنی اور اخلاقی تربیت کا خاص خیال رکھتا تھا۔ ڈرامے بہت سوچ بچار کے بعد تیار کیے جاتے تھے۔ حالاتِ حاضرہ کے پروگرام بھی غیر معمولی محنت سے تیار کیے جاتے تھے۔ پی ٹی وی سرکاری ذریعۂ ابلاغ تھا۔ کسی کو پچھاڑنے کی فکر تو تھی نہیں ‘اس لیے عوامی مفاد کو ہر شے پر مقدم رکھ کر پروگرام تیار کیے جاتے تھے۔ سرکاری پروپیگنڈا آرگن کی حیثیت سے کام کرنا اپنی جگہ‘ مگر معاشرے میں شعور پیدا کرنے کے حوالے سے بھی پی ٹی وی کے کردار سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ 
ناظرین کا حق ہے کہ اُنہیں تازہ ترین معلومات کے علاوہ ایسا مواد بھی فراہم کیا جاتا رہے‘ جو اُن کی تفریح طبع کے ساتھ ساتھ اصلاحِ احوال کا اہتمام بھی کرے۔ یہ معاملہ بہت حد تک اخلاقی نوعیت کا ہے۔ چینلز کو تجارتی بنیاد پر کام کرتے ہوئے ایسا بہت سا مواد پیش کرنا ہوتا ہے‘ جو لوگوں کی زیادہ سے زیادہ توجہ اپنی طرف منعطف کرانے میں کامیاب ہو۔ یہ مواد معاشرے کے لیے انتہائی خطرناک بھی ہوسکتا ہے۔ کاروباری ادارے اشتہارات دیتے وقت صرف ریٹنگ دیکھتے ہیں۔ اُنہیں اس بات سے بظاہر کچھ غرض نہیں ہوتی کہ جو کچھ منی سکرین پر پیش کیا جارہا ہے‘ وہ معاشرے کو کس سمت لے جارہا ہے‘ کون سے گل کھلانے کی تیاری کی جارہی ہے۔ 
نیوز اور انٹرٹینمنٹ کے چینلز اپنا بیشتر وقت صرف خبروں اور ڈراموں وغیرہ کو دیتے ہیں۔ معاشرے کی مجموعی بہبود کے حوالے سے بھی‘ اُن پر کچھ نہ کچھ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ حکومت متعلقہ قواعد و ضوابط کے ذریعے چینلز کو پابند کرتی ہے کہ معاشرے کے مجموعی مفاد کو ضرب لگانے والا مواد پیش کرنے سے گریز کریں۔ کہیں یہ دباؤ محض اخلاقی ہے تو کہیں قانونی شکل میں۔ بہر کیف‘ چینلز کو بہت سی باتوں کا پابند کرنے کے ساتھ ساتھ ناظرین کی تربیت کا اہتمام کرنا بھی لازم ہے۔ عوام چینلز پر ایسا بہت کچھ دیکھ رہے ہیں‘ جس میں اُن کے لیے کچھ بھی نہیں ہوتا۔ بہت سے لوگ محض عادتاً ٹی وی دیکھتے ہیں۔
جس طور تمباکو نوشی اور شراب نوشی کی لَت پڑ جاتی ہے ‘بالکل اُسی طور ٹی وی دیکھنا بھی لَت میں تبدیل ہوچکا ہے۔ پروگرامنگ میں معاشرے کی اجتماعی بہبود کا خیال رکھ کر‘ عوام کی بہتر انداز سے تربیت کرکے اِس لَت سے بھرپور فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ میڈیا کے ذریعے‘ جس قدر بگاڑ پیدا کیا گیا ہے‘ اُس کے ازالے کی ایک ہی صورت ہے ... یہ کہ اب میڈیا آؤٹ لیٹس اور بالخصوص چینلز ناظرین کے ذوق میں پیدا ہونے والی گراوٹ دور کرنے پر متوجہ ہوں اور اپنے فکسڈ پوائنٹ چارٹ (ایف پی سی) یعنی براڈ کاسٹنگ شیڈول میں سنجیدہ مواد کا تناسب بڑھائیں۔ صحت اور تعلیم سے متعلق چینلز مقدور خاصے سنجیدہ ہوتے ہیں۔ نیوز چینلز کو بھی اپنے طور پر طے کرنا چاہیے کہ ہر معاملے میں سنسنی پھیلانے کی بجائے عوام سے جُڑے ہوئے معاملات کو اس طور پیش کیا جائے کہ لوگ پریشان کم ہوں اور اُن کی رہنمائی زیادہ ہو۔ اس وقت ہمارے ہاں میڈیا کی عمومی روش دیکھتے ہوئے‘ کسی بڑی اور نمایاں بہتری کی توقع تو خیر کمزور ہی ہے‘ مگر پھر بھی گمان تو اچھا ہی رکھنا چاہیے۔ حکومت اپنا کردار ادا کرے‘ یعنی قواعد و ضوابط مرتب کرکے احسن طریقے سے نافذ کرے اور دوسری طرف میڈیا آؤٹ لیٹس بھی اپنی اخلاقی ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے تھوڑی سنجیدگی اپنائیں‘ لوگوں کی تعلیم و تربیت پر بھی توجہ دیں اور اُن کا عمومی مذاق بلند کرنے پر مائل ہوں۔ اس وقت معاشرے کو بلند عمومی مذاق کی اشد ضرورت ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں