ایک دوڑ ہے‘ جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ اس دوڑ میں کسی نہ کسی حوالے سے اور کسی نہ کسی حد تک سبھی شریک ہیں۔ یہ دوڑ ہے‘ گلا کاٹنے کی۔ عام طور پر دوڑ میں لوگ ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش میں گِرانے پر یقین رکھتے ہیں۔ اب معاملہ گِرانے کی منزل سے بہت آگے کا ہے۔ طے یہ ہوا ہے کہ مدِ مقابل کو زندہ ہی نہ رہنے دیا جائے۔ زندگی ہوگی تو مسابقت کا امکان بھی زندہ رہے گا۔ اب مقابلہ آگے نکلنے سے کہیں بڑھ کر گلا کاٹنے کا ہے۔ سب کی یہ خواہش ہے کہ کوئی حقیقی مدِ مقابل اس قابل ہی نہ رہے کہ کبھی دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا ہوکر للکار سکے۔ ولی محمد ولیؔ نے کہا تھا ؎
مفلسی سب بہار کھوتی ہے
مرد کا اعتبار کھوتی ہے
یہ شعر اب معاشرے پر صادق آچکا ہے۔ معاشی حالات کی خرابی نے کئی معاشروں کو انتہائی گراوٹ کا شکار کردیا ہے۔ خود کو زندہ رکھنے کی خاطر دوسروں کو دنیا سے چلتا کرنا لازم قرار دے لیا گیا ہے۔ کوئی نہیں چاہتا کہ اُس کی راہ میں کوئی رکاوٹ باقی رہے۔ اب رکاوٹ کو ہٹانے سے زیادہ اُسے ہمیشہ کیلئے ختم کرنے پر یقین رکھنے کا رجحان عام ہے۔
معاشی خرابیاں عمومی سطح پر انتہائی نوعیت کی معاشرتی خرابیوں کو جنم دیتی ہیں۔ اخلاقی اقدار کو خیر باد کہنے کی روش پر گامزن رہنے کو زندگی سمجھ لیا جاتا ہے۔ تہذیبی عمل نے ہمیں جو کچھ سکھایا ہے‘ وہ سب کچھ ہم یوں بھول چکے ہیں ‘گویا کبھی ہم میں کوئی اچھی بات پائی ہی نہ جاتی تھی۔ بات بات پر بے حواس ہوکر حالتِ جنگ کی سی کیفیت سے دوچار ہو جانا ‘ہم نے فیشن کے درجے میں رکھ لیا ہے۔ زندگی کی گاڑی کو چالو حالت میں رکھنے کیلئے ہر انسان کو جدوجہد کرنا پڑتی ہے۔ ہر معاشرے کا یہی معاملہ ہے ‘مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ انسان حواس کھو بیٹھے اور تمام ہی تسلیم شدہ اقدار کو یکسر فراموش کرکے خالص حیوانی سطح پر اتر آئے۔
آج کا پاکستانی معاشرہ انتہائی عجیب نوعیت کی ذہنی پیچیدگیوں کے چنگل میں ہے۔ ہر شخص اپنے طور پر بہت کچھ طے کرچکا ہے‘ فیصلے کر بیٹھا ہے۔ مسابقت ہر معاشرے میں ہوتی ہے اور صحت مند رویّے کے ساتھ ہو تو خیر و برکت کا ذریعہ بنتی ہے۔ کئی معاشروں نے صحت مند مسابقت کا رجحان پروان چڑھاکر زندگی کو آسان بنایا ہے۔ مغربی معاشروں کے علاوہ کئی مشرقی معاشرے بھی اس حوالے سے روشن مثال کا درجہ رکھتے ہیں۔ جاپان‘ چین‘ ملائیشیا اور انڈونیشیا جیسے ترقی یافتہ معاشروں میں بھی زندگی آسان نہیں۔ وہاں معیاری انداز سے جینے کیلئے بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔ یہی حال ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا کے پس ماندہ معاشروں کا بھی ہے۔ بنگلہ دیش‘ نیپال اور خود ہمارے پڑوس میں بھارت کا بھی یہی حال ہے۔ سب سے بری حالت میں افغانستان ہے‘ جہاں باضابطہ معاشرہ پایا ہی نہیں جاتا۔ ریاستی نظم انتہائی کمزور پڑچکا ‘ جس کے نتیجے میں عوام کیلئے معیاری انداز سے زندگی بسر کرنا انتہائی دشوار ہوچکا ہے؛ اگر ہم اپنے خطے پر نظر دوڑائیں تو اندازہ لگانا مشکل نہ ہوگا کہ پاکستان بعض معاملات میں تھوڑے بہت ایڈوانٹیج کا حامل ہے۔ محل ِوقوع کی نوعیت‘ قدرتی وسائل کی فراوانی اور زرخیز زمین کی دستیابی نے ہمیں کئی پریشانیوں سے بچا رکھا ہے۔ اس کے باوجود حکمرانی کے بہتر انداز اختیار نہ کیے جانے کے باعث ہم اب تک بہت سی الجھنوں سے دوچار ہیں۔
چند برس کے دوان معاشی الجھنیں بڑھی ہیں۔ اس کے نتیجے میں معاشرتی ڈھانچہ بھی کمزوریوں سے دوچار ہوا ہے۔ معاشی خرابیوں سے معاشرے کا متاثر ہونا‘ کسی بھی اعتبار سے غیر منطقی بات نہیں۔ دنیا بھر میںایسا ہی ہوتا ہے۔ معاملات اُس وقت زیادہ پیچیدہ ہو جاتے ہیں ‘جب ہم حقیقت پسندی ترک کرکے اپنی مرضی یا خواہشات کی روشنی میں طے کردہ راستے پر چلنے کی ضد کریں۔ دوسروں کو دیکھ کر بہت کچھ پانے کی ضد کرنا کسی بھی اعتبار سے لائقِ تحسین بات نہیں۔ یہاں معاملہ یہ ہے کہ اپنی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے اور سکت میں اضافہ کرنے کی بجائے لوگ زیادہ سے زیادہ آسانیوں کے حصول کے خواہش مند ہیں۔
جن معاشروں نے زندگی کی تلخ حقیقتوں کا سامنا کرتے ہوئے مشکل حالات کو شکست دی ہے‘ اُن سے بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔ ہم آج مشکل میں ہیں ‘مگر ہمارے مسائل ایسے ہرگز نہیں کہ سبھی کچھ داؤ پر لگادیا جائے۔ دین نے بھی ہمیں بہت کچھ دیا ہے اور تہذیبی عمل بھی ایسا گیا گزرا نہیں رہا کہ ہم میں کچھ باقی نہ رہے۔ ہم قابلِ رشک تہذیبی ورثے کے حامل ہیں۔ دینی تعلیمات سے ہٹ کر بھی ہمیں جو تہذیبی و اخلاقی اقدار ملی ہیں‘ وہ کسی بھی اعتبار سے ایسی گئی گزری نہیں کہ چند ایک مشکلات پورے معاشرے کو تلپٹ کردیں۔
ہم خواہ مخواہ ڈھیلے پڑگئے ہیں‘ جن مشکلات کو آزمائش سمجھ کر ہمیں پوری قوت کے ساتھ اپنے وجود کو منوانے کی کوشش کرنی چاہیے‘ اُن مشکلات کو ہم نے اپنا نصیب سمجھ کر ہتھیار ڈال دیئے ہیں۔ معاشرے کی عمومی روش یہ ہے کہ اگر کسی نے میری جیب پر ہاتھ ڈالا ہے تو میں دوسروں کی جیب پر ہاتھ ڈال کر اپنا اُلّو سیدھا کرلوں۔ لوگ اپنا خسارہ اس طور پورا کر رہے ہیں۔ یہ روش انتہائی ناکام معاشروں کی ہوا کرتی ہے۔ ہم خیر سے ابھی زندہ ہیں۔ پاکستانی معاشرے کو درپیش حالات کسی بھی اعتبار سے اس نوعیت کے نہیں کہ ہر معاملے میں انتہائی نوعیت کی طرزِ فکر و عمل اپنائی جائے۔ صومالیہ‘ افغانستان اور شام جیسے معاشروں میں اگر لوگ سانسوں کا تسلسل برقرار رکھنے کیلئے حیوانی سطح پر اُتر آئیں تو بات کو سمجھنا کچھ دشوار نہیں۔ وہاں ریاستی نظم نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے۔ لوگ بہت کچھ اپنے طور پر طے کرتے ہیں اور اُس کے مطابق‘ عمل بھی کر گزرتے ہیں۔ یہاں ایسی کون سی قیامت ٹوٹ پڑی ہے کہ حواس باختہ ہوکر ہاتھ پیر ڈھیلے چھوڑ دیئے جائیں؟ بہت سی الجھنوں کے باجود اب تک بہت کچھ برقرار ہے‘ مگر ہم اپنی روش تبدیل کرنے کیلئے تیار نہیں۔ قدم قدم پر نئی رکاوٹیں؛ اگر پائی جارہی ہیں ‘تو ان میں بیشتر ہماری اپنی پیدا کردہ ہیں۔ معاشی سطح پر پیدا ہونے والی ہر الجھن کو ہم زندگی کی سب سے بڑی آزمائش سمجھ کر ایسے حواس باختہ ہو جاتے ہیں کہ پھر حواس بحال کرنے میں ایک زمانہ لگتا ہے۔
ہم وقفے وقفے سے نازک موڑ پر آجاتے ہیں۔ میڈیا کے ذریعے ہمیں یہ باور کرایا جاتا رہتا ہے کہ مشکلات و مسائل کے حوالے سے ہم ''منفرد‘‘ ہیں۔ ایسا نہیں ہے۔ ہمیں‘ جن مسائل کا سامنا ہے ‘وہ دوسرے بہت سے پس ماندہ اور ترقی پذیر معاشروں میں بھی ہیں۔ گڑبڑ اگر ہے تو اتنی کہ ہم نے حقیقت پسندی کی راہ پر گامزن رہنے سے توبہ کرلی ہے۔ زمینی حقیقتوں کو نظر انداز کرنے کا یہی نتیجہ برآمد ہوا کرتا ہے۔ آج کے پاکستانی معاشرے کا قبلہ درست کرنے کیلئے سب سے بڑھ کر ذہنی تربیت یعنی اصلاحِ نفس کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے اہلِ دانش کو اپنا کردار بروقت اور پوری دیانت سے ادا کرنا ہے۔ قوم کو نفسی امور میں رہنمائی کی ضرورت ہے۔ عوام کو یہ بتایا جائے کہ انہوں نے بہت سے معاملات کو خواہ مخواہ اپنے وجود پر مسلط کرلیا ہے۔ ہر معاملہ اس قابل نہیں ہوتا کہ اُس کے نام پر بے حواس ہوا جائے۔ دانش و تہذیب کا دامن ہاتھ سے نہ چُھوٹے تو بہت کچھ قابو میں رہتا ہے۔ اس حوالے سے ہمہ گیر تربیت لازم ٹھہری!۔