کرکٹ کو غیر یقینی اتفاقات کا کھیل قرار دیا جاتا ہے۔ میچ کے دوران کئی بار پانسہ پلٹتا ہے۔ محض ایک وکٹ کے گرنے سے کبھی کبھی پورا میچ داؤ پر لگ جاتا ہے اور کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ دو تین اوورز میں باؤلرز کی دُھنائی سے ہاتھ آیا ہوا میچ اکثر ہاتھ سے جاتا رہتا ہے اور کئی بار دیکھنے میں آیا ہے۔
انگلینڈ اور ویلز میں کھیلے جانے والے بارہویں کرکٹ ورلڈ کپ میں یہی ہو رہا ہے۔ اب تک جو اہم میچز ہوئے ہیں‘ اُن کے نتائج نے کرکٹ کے شائقین کو رائے بدلنے پر مجبور کردیا ہے۔ ورلڈ کپ شروع ہونے سے قبل کیے جانے والے تجزیوں میں کہا اور لکھا جارہا تھا کہ جو ٹیم 300 کا ٹوٹل دے گی‘ وہی کسی حد تک مقابلہ کرنے کے قابل ہوسکے گی اور یہ کہ 350 کا ٹوٹل فتح گر ثابت ہوسکے گا۔ ایسا کچھ بھی نہیں ہو رہا۔ آسٹریلیا اور ویسٹ انڈیز کے میچ نے ثابت کیا کہ کوئی بھی ٹیم کسی بھی وقت دباؤ کا شکار ہوسکتی ہے۔ اس میچ نے آسٹریلیا کو ایک خاص حد تک ایکسپوز کیا۔ اس کے بعد آسٹریلیا اور بھارت کے میچ نے یہ بات مزید ثابت کردی کہ کسی بھی ٹیم کو جو کچھ سمجھا جارہا ہے ‘وہ ٹیم ویسی ہے ‘نہیں۔ یہ میچ اس اعتبار سے دلچسپ تھا کہ دونوں ہی ٹیمیں ایکسپوز ہوگئیں۔
بھارت نے 355 کا ہدف دیا ‘جو پہاڑ جیسا تھا۔ اتنے بڑے ہدف کے سامنے کسی بھی ٹیم کے قدم ڈگمگاسکتے ہیں۔ آسٹریلیا کے معاملے میں ایسا نہیں ہوا۔ اُس نے بھارت کے دیئے ہوئے ہدف کو حاصل کرنے کیلئے نپے تُلے انداز سے اننگز شروع کی۔ بھارت کی بولنگ کی کمزوریاں سامنے آتی گئیں۔ آسٹریلیا کیلئے یہ ہدف کسی بھی مرحلے پر ناممکن نہ تھا۔ بھارت کے باؤلرز کی کمزوریاں کھل کر سامنے آگئیں۔ آپ سوچیں گے جب ایسا ہوا تو پھر آسٹریلیا ہار کیوں گیا۔ آسٹریلیا کی پہلی وکٹ رن آؤٹ کا نتیجہ تھی۔ آسٹریلوی اوپنرز نے غیر ضروری طور پر دوسرا رن لینے کی کوشش کی۔ اس کے بعد بھارت کو وکٹ کے حصول کیلئے سر توڑ کوشش کرنا پڑی۔ ڈیوڈ وارنر کو بھارتی باؤلرز آؤٹ نہ کرسکے‘ وہ ایک غیر ضروری اور جذباتی نوعیت کا شاٹ کھیل کر باؤنڈری پر کیچ ہوا۔ خواجہ عثمان اِن فارم بیٹسمین کی حیثیت سے بھارت کے لیے سب سے بڑا خطرہ تھا۔ فارم کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ اُس نے 38 گیندوں پر 42 رنز اسکور کیے۔ کچھ عرصہ قبل اُس نے بھارتی باؤلرز کو بھارت ہی میں دھو ڈالا تھا۔ وہ جس انداز سے وکٹ چھوڑ کر بولڈ ہوا‘ اُسے حماقت کی انتہا کہا جاسکتا ہے۔ یہ وکٹ بھی بھارتی باؤلر کی محنت کا نتیجہ نہ تھی‘ بلکہ ''ماں کی دعا‘ جنت کی ہوا‘‘ کے مصداق خواجہ عثمان نے طشتری میں سجاکر بھارتی ٹیم کو پیش کی!
اب یہ بات بھی ثابت ہوچکی ہے کہ آسٹریلیا کے کھلاڑی بھی غلطی کرسکتے ہیں اور بھارتی کھلاڑی بھی۔ دونوں فیورٹ ٹیمیں ہیں اور ٹورنامنٹ کی سب سے فیورٹ ٹیم انگلینڈ کو ہم نے جس طور ہرایا وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ پاکستان کو ماہرین ٹورنامنٹ کی سب سے غیر یقینی ٹیم کہتے ہیں‘ یعنی یہ ٹیم کسی بھی وقت کچھ بھی کرسکتی ہے اور در حقیقت ہے بھی کچھ ایسا ہی۔ کون سوچ سکتا تھا کہ پہلے میچ میں ویسٹ انڈیز کے مقابل محض 105 کے مجموعی سکور پر پویلین لَوٹ جانے والی ٹورنامنٹ کی سب سے فیورٹ ٹیم انگلینڈ کے لیے لوہے کا چنا ثابت ہوگی؟
اب تک جو کچھ ہوا ہے‘ اُس کی بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ ورلڈ کپ میں کئی غیر یقینی نتائج ابھریں گے۔ فیورٹ قرار پانے والی ٹیمیں کسی بھی مرحلے پر شدید مشکلات سے دوچار ہوسکتی ہیں۔ بنگلہ دیش اور سری لنکا سیمی فائنل تک راہ تو نہیں پاسکتیں ‘مگر دوسروں کی راہ میں روڑے ضرور اٹکا سکتی ہیں۔
پاکستان کے بارے میں یہ تاثر پروان چڑھادیا گیا ہے کہ ورلڈ کپ کے امکانات کے حوالے سے یہ کمزور ترین ٹیم ہے۔ قوم بھی یہی سمجھتی ہے۔ آسٹریلیا کے مقابل بھارتی باؤلرز کی کارکردگی نے ثابت کردیا ہے کہ وہ بھی ماں کی دعا کے سہارے ہی چل رہے ہیں! آسٹریلیا نے اتوار کو اپنا میچ‘ اگر ہارا ہے تو محض اپنی حماقت سے۔ اوپنرز بہت اچھی طرح سیٹ ہوچکے تھے۔ ایسے میں غیر ضروری دوسرا رن لینے کی کوشش میں وکٹ سے ہاتھ دھونا پڑے۔ ڈیوڈ وارنر نے 86 گیندیں کھیل کر خود کو سیٹ کرلیا تھا۔ جب مارنے کا وقت آگیا تو وہ جذباتیت کا شکار ہوکر اپنی وکٹ کھو بیٹھا۔ خواجہ عثمان نے بھی کچھ ایسا ہی کیا۔ پروفیشنل پائلٹ ہونے کے باوجود وہ سمجھ نہ سکا کہ غلط انداز سے کیا جانے والا ٹیک آف جہاز کو لے ڈوبتا ہے! بھارت نے میچ جیتا ضرور‘ مگر یہ حقیقت نظر انداز نہیں کی جانی چاہیے کہ اُس نے یہ میچ کم جیتا ہے اور آسٹریلیا نے زیادہ ہارا ہے!
پاکستان کو اب آسٹریلیا سے نبرد آزما ہونا ہے۔ آسٹریلیا کو شکست کے بعد لڑنا ہے اور پاکستان کو فتح کے بعد۔ بارش نہ ہوئی ہوتی تو پاکستان کے لیے سری لنکا کو شکست دینا بھی بڑی آزمائش کا درجہ نہ رکھتا۔ آسٹریلیا کے مقابل پاکستانی باؤلرز بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرسکتے ہیں‘ کیونکہ ہمارے پاس بہرحال بھارت سے تو اچھے باؤلرز موجود ہیں۔ خاص طور پر پیس بیٹری زیادہ کارگر ہے۔ محمد عامر اور وہاب ریاض پر بھروسہ کیا جاسکتا ہے۔ شاداب‘ حفیظ اور شعیب بھی ضرورت پڑنے پر بریک تھرو دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
آمدہ اتوار کو بھارت سے ٹاکرا ہے۔ یہ ٹاکرا برصغیر میں کرکٹ کے ایک ارب سے زیادہ شائقین کے لیے فائنل کا درجہ رکھتا ہے۔ اس ایک میچ سے پاکستان اور بھارت کی بہت سی امیدیں وابستہ ہیں اور مورال کا سوال بھی جُڑا ہوا ہے۔ پاکستان میں بہت سوں نے ابھی سے ذہن بنا رکھا ہے کہ بھارت کو شکست دیجیے تو بہت ہے‘ باقی سب کچھ جائے بھاڑ میں! بقول شاعر: ؎
آئے کچھ ابر‘ کچھ شراب آئے
اُس کے بعد آئے جو عذاب آئے
بھارت سے ٹاکرا ''مارو یا مرجاؤ‘‘ والا معاملہ ہے۔ پاکستانی ٹیم اگر غیر یقینی نوعیت کی ہے تو اس میں حیرت کی بات کیا ہے؟ کیا انگلینڈ کے بارے میں کوئی سوچ سکتا تھا کہ پاکستان سے ہار جائے گی؟ آسٹریلیا نے کم و بیش جیتا ہوا میچ بھارت کو پیش کردیا! سبھی حتی المقدور یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ کرکٹ غیر یقینی اتفاقات کا کھیل ہے۔ ایسے میں غیر یقینی ہونے کا ٹیگ صرف پاکستانی ٹیم کے لیے کیوں؟ ویسٹ انڈین ٹیم بھی ایسی ہی تو واقع ہوئی ہے۔ کرکٹ کی تکنیک کو ایک طرف ہٹاکر وہ اپنی مرضی کے مطابق کھیلتی ہے اور معاملے میں وہ حتمی نتیجے کی بھی پروا نہیں کرتی۔ ان تمام حقائق کی روشنی میں قوم کو قومی کرکٹ ٹیم پر بھروسہ رکھنا چاہیے۔ کھیل کو کھیل ہی کے درجے میں لینا ہوگا۔ یہ کوئی زندگی اور موت کا معاملہ نہیں۔ بھارت سے اگلے ٹاکرے میں نتیجہ کچھ بھی ہوسکتا ہے ‘مگر یہ حقیقت ذہن نشین رہے کہ بھارتی ٹیم ناقابلِ شکست نہیں۔ قومی ٹیم کو آسٹریلیا اور بھارت والا میچ ایک بار پھر اچھی طرح دیکھ کر دونوں ٹیموں سے ڈھنگ سے ٹکرانے کی تیاری کرنی چاہیے۔