تبدیلی کے لیے عمران خان نے جو کابینہ میدان میں اتاری اُس میں کیا کیا ہے یہ سوچنے سے کہیں بڑھ کر یہ دیکھنا ہے کہ کیا نہیں ہے! محض ''ونڈرفل‘‘ کہنے سے حق ادا نہیں ہوگا‘ حقیقت یہ ہے کہ کابینہ میں جو لوگ پائے جاتے ہیں وہ پورے پورے ''ونڈر‘‘ ہیں! عمران خان کی سینس آف سلیکشن کی داد دینا ہی پڑے گی کہ انہوں نے قوم کے انتہائی ''باصلاحیت‘‘ افراد کو ایک پلیٹ فارم‘ بلکہ ایک پیج پر لاکر ایسا کارنامہ انجام دیا ہے کہ لوگ ایک زمانے تک یاد رکھیں گے! اور ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان اور فواد چودھری جیسی شخصیات کو کابینہ میں رکھ کر تو عمران خان نے پلیٹ فارم یا پیج کو بھی آزمائش میں ڈال دیا ہے!
کابینہ کے ہیوی ویٹس میں مشیر اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان بھی شامل ہیں مگر اس وقت جو رونق میلہ فواد چودھری نے سجا رکھا ہے اُس کا جواب نہیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کا قلم دان سنبھال کر انہوں نے‘ مزید کچھ کہے بغیر‘ ثابت کردیا ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی وزارت کو سنبھالنے اور چلانے کی نئی ''ٹیکنالوجی‘‘ سامنے آچکی ہے! عمران خان نے جس انداز سے فواد چودھری کو یہ‘ تکنیکی طور پر انتہائی پیچیدہ‘ وزارت سونپی وہ کچھ یوں تھا ؎
اب جس کے جی میں آئے وہی پائے روشنی
ہم نے تو دل جلاکے سرِعام رکھ دیا
فواد چودھری منظّم یعنی فطری علوم و فنون کے حوالے سے اس قدر روشنی بکھیر رہے ہیں کہ قدم قدم پر ع
... مجھ سے راستہ دیکھا نہ جائے
والی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے! فواد چودھری کو اللہ نے وہی کمال عطا کیا ہے جو شیخ رشید‘ مولا بخش چانڈیو‘ منظور وسان‘ طلال چودھری‘ رانا ثنا اللہ خان‘ مراد سعید اور اسی قبیل کے دوسرے بہت سے اہلِ سیاست کو بخشا ہے۔ یہ تمام اصحاب میڈیا والوں کی آنکھوں کے تارے ہیں۔ انتظار رہتا ہے کہ یہ کچھ کہیں تو بات سے بات نکلے اور بات کا بتنگڑ بنانے کی راہ ہموار ہو۔
جب سے فواد چودھری کو سائنس اور ٹیکنالوجی کی وزارت ملی ہے بس یہ سمجھ لیجیے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی دونوں ہی کے ہوش جاتے رہے ہیں! ہوش برقرار رہیں بھی تو کیسے کہ فواد چودھری نے اس کی گنجائش ہی نہیں چھوڑی۔ وہ یومیہ بنیاد پر کچھ نہ کچھ ایسا کہہ دیتے ہیں کہ فطری علوم و فنون کے بنیادی اصول منہ چھپائے کونا پکڑنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ چاند کی رویت کے معاملے میں فواد چودھری نے پیالی میں جو طوفان اٹھایا اُسی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ کس کس معاملے میں کیسی کیسی قیامت ڈھاسکتے ہیں۔ شوّال المکرم کے چاند کی رویت کے حوالے سے جو ہنگامہ فواد چودھری نے برپا کیا اُس نے کچھ دیر کے لیے تو مفتی منیب الرحمٰن کو بھی وختا ڈالا!
پیر کی شب میڈیا سے گفتگو میں فواد چودھری نے ایک ایسی بات کہی کہ سُن کر ہمارے تو ہوش ہی اُڑ گئے۔ بات ہے ہی کچھ ایسی کہ پڑھ کر آپ کے ہوش نہ اُڑیں تو خود آپ کو بھی حیرت ہی ہوگی۔ فواد چودھری نے آصف علی زرداری کی گرفتاری کے حوالے سے صورتِ حال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اماوس کی رات ڈھل چکی۔ اب چاند کی اور سورج کی راتیں آئیں گی۔سورج کی راتیں؟ یہ تو کمال ہوگیا۔ چاند چونکہ نکلتا ہی رات کو ہے اس لیے کسی کو حیرت نہیں ہوتی۔ اب ہمیں اُن راتوں کا انتظار کرنا ہے جن میں سورج نکلا کرے گا!
سورج کی راتوں والی بات سُن کر ہمیں ایک لطیفہ یاد آگیا۔ دو افیمچی بتیا رہے تھے۔ ایک نے پوچھا :یار! رات کو سورج کیوں نہیں نکلتا؟ دوسرے نے جواب دیا :ارے یار! کس نے کہہ دیا کہ سورج رات کے وقت نہیں نکلتا؟ سورج نکلتا تو ہے مگر اندھیرے کی وجہ سے ہمیں دکھائی نہیں دیتا!
فواد چودھری نے سورج والی راتوں کی خوش خبری سُناکر ہمارا کام بڑھادیا ہے۔ اب ہمیں رات کو دیکھنے میں مدد دینے والے آلات کا انتظام کرنا پڑے گا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ رات کو سورج نکلے مگر اندھیرے کی وجہ سے ہمیں دکھائی ہی نہ دے! ہم نہیں چاہتے کہ فواد چودھری بھی اپنی بات رکھنے کے لیے اندھیرے کا بہانہ گھڑیں!
مرزا تنقید بیگ نے جب سورج کی راتوں والی بات سُنی تو کہا کہ اس حوالے سے فواد چودھری کو ہدفِ تنقید بنانا کسی طور درست نہیں۔ انہوں نے ایک ایسی حقیقت بیان کی ہے جو اُن کی حکومت سے جُڑی ہوئی ہے۔ تبدیلی کا ایجنڈا لے کر قائم ہونے والی حکومت نے قدم قدم پر یہی تو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ سورج رات کو بھی نکلتا ہے! مرزا کا استدلال ہے کہ حکومتیں ایسی ہی ہوتی ہیں یعنی ٹوپی سے کبوتر اور رومال سے انڈا برآمد کرکے عوام کو ورطۂ حیرت میں ڈالنے کی کوشش کرتی ہیں۔ ایسے میں رات کوسورج کے نکلنے کی بات کہنے میں کیا قباحت ہے؟ ویسے تو محض تُکّا ہے‘ چل گیا تو تیر سمجھ لیجیے۔
فواد چودھری نے پہلے چاند کو آزمائش میں ڈالا۔ اور اب سورج تک پہنچ گئے ہیں۔ سورج ستارہ ہے اور علامہ اقبالؔ کہہ گئے ہیں کہ کوئی اس منزل میں اٹک کر نہ رہ جائے کیونکہ ع
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
فواد چودھری خاصے توانا بھی ہیں اور عمل نواز بھی۔ یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ وہ ستاروں سے آگے پائے جانے والے جہانوں تک پہنچنے کی بھی کوشش کریں گے۔ اُن کا کچھ نہ جائے گا۔ اس کوشش کے نتیجے میں جو کچھ گزرے گی وہ ہم پر‘ آپ پر گزرے گی کیونکہ علامہ ہی نے کہا ہے ع
ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں
سائنس اور ٹیکنالوجی کے وفاقی وزیر نے کہا کہ اماوس کی یعنی بے چاند کی (تاریک) ڈھل چکی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ہاں جمہوری عمل کے نتیجے میں قائم ہونے والی حکومتیں بھی اماوس کی رات ثابت ہوتی رہی ہیں۔ فرق اگر ہے تو صرف اتنا کہ یہ رات ڈھلنے میں اتنا وقت لیتی ہے کہ لوگ جاں بہ لب ہو جاتے ہیں۔ ع
رات کیا گزرے گی‘ ہم جاں سے گزر جائیں گے!
مرزا کی نظر میں فواد چودھری جیسی شخصیات کا دم غنیمت ہے کہ حکومت کی پیدا کردہ مشکلات کے اثرات کو وہ اپنی پُرلطف باتوں کی مدد سے کچھ کم تو کرتی ہیں! عوام بھی اس بات کو سمجھتے ہیں کہ اُن کے مسائل تو خیر کیا حل ہوں گے‘ اچھا ہے کہ حکومت بذلہ سنجی کی راہ پر گامزن رہنے والوں کو فرنٹ پر رکھے تاکہ وہ ع
تمہی نے درد دیا ہے‘ تمہی دوا دینا
کے اصول کی بنیاد پر کام کرتے ہوئے عوام کے دل بستگی کا تھوڑا بہت سامان تو کرتے رہیں۔ شاید کسی نے عمران خان کو سمجھادیا ہے کہ گُڑ دو نہ دو‘ گُڑ جیسی بات تو کرو! ع
کہ زندگی کے لیے کچھ نہ کچھ تو آس رہے
مرزا کہتے ہیں کہ اس معاشرے میں جب سبھی کچھ ''خندۂ بے جا‘‘ کی نذر ہوچکا ہے تو پھر ایک سائنس اور ٹیکنالوجی کی وزارت کو کیا روئیں۔ مسائل نے حل نہ ہونے کی قسم کھا رکھی ہے۔ ایسے میں بہترین دستیاب آپشن یہ ہے کہ دل کو بہلانے والی ہر بات پر مسرّت محسوس کی جائے اور رات کو سورج کے نکلنے کی راہ دیکھی جائے تاکہ دل بے آس نہ رہے۔ ؎
اپنی ناکامیوں پہ آخرِ کار
مسکرانا تو اختیار میں ہے!