ہر معاملے کے مثبت اور منفی دونوں ہی طرح کے پہلو ہوتے ہیں۔ ہر دور کے انسان کو طرح طرح کے مسائل اور چیلنجز کا سامنا رہا ہے۔ جب بہت کچھ ایجاد نہ ہوا تھا اور زندگی کی رفتار خاصی کم تھی تب انسان سوچتا تھا کہ کچھ ایسا ہونا چاہیے کہ معاملات تیزی سے نمٹائے جاسکیں۔ زندگی کی رفتار تیز کرنے کے لیے انسان نے صدیوں محنت کی۔ اس محنت کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے۔ آج زندگی عقل کو دنگ کردینے والی رفتار کے ساتھ بسر کی جارہی ہے۔
ویسے تو انسان نے ہر دور میں زندگی کی رفتار تیز کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے اور اس کا پھل بھی پایا ہے مگر پندرہویں صدی عیسوی کے بعد یہ عمل بہت تیز ہوگیا اور گزشتہ تین صدیوں کے دوران انسان نے وہ سبھی کچھ ایجاد یا دریافت کرلیا ہے ‘ جو زندگی کو آسان اور تیز بنانے کے لیے لازم یا ناگزیر سمجھا جاتا رہا ہے۔ آج کے انسان کو ہر شعبے میں غیر معمولی رفتار کے ساتھ کام کرنے میں مدد دینے والی تمام ہی چیزیں تیار کی جاچکی ہیں۔ یہی سبب ہے کہ صنعتی ادارے بہت بڑے پیمانے پر اشیائے صرف تیار کرنے کے قابل ہوچکے ہیں۔ دنیا کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کے لیے اشیاء و خدمات کی فراہمی بڑے پیمانے پر جاری رکھنے میں وہ ترقی کلیدی کردار ادا کر رہی ہے‘ جو انسان نے ہزاروں کے عمل میں یقینی بنائی ہے۔
انسان بہت کچھ جانتا تھا اور بہت کچھ جانتا ہے۔ وہ ترقی کے عمل میں کی جانے والی محنت کے طریقے ہی نہیں‘ اُن کے اثرات اور نتائج بھی جانتا تھا۔ اُسے اچھی طرح معلوم تھا کہ جب زندگی کی رفتار تیز ہوگی تو بہت سے مسائل بھی جنم لیں گے۔ اور ایسا ہی ہوا ہے‘ یعنی زندگی نے جیسے جیسے رفتار پکڑی‘ پریشانیاں بھی بڑھتی گئیں‘ مسائل شدت اختیار کرتے گئے۔ جو لوگ آج ساٹھ یا ستر برس کے ہیں وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ 1960ء سے 1980ء تک زندگی کس قدر سُست رفتار اور پُرسکون تھی۔ تب دل و دماغ پر مرتب ہونے والے اثرات بھی برائے نام تھے۔ بہت سے معاملات میں انسان کو کمی اور محرومی کا سامنا ضرور کرنا پڑتا تھا مگر ساتھ ہی ساتھ غیر ضروری ذہنی دباؤ سے محفوظ رہنا بھی تو ممکن تھا۔ بہت سی مشکلات تھیں تو چند ایک بیش قیمت آسانیاں بھی تھیں۔ زندگی سُست رفتار ضرور تھی‘ پیچیدہ نہ تھی۔
آج ہم زندگی کو برق رفتار بنانے میں تو کامیاب ہوچکے ہیں ‘مگر ساتھ ہی ساتھ بہت سی الجھنیں بھی پاؤں کی زنجیر بن بیٹھی ہیں۔ جو کچھ انسان نے ایجاد اور دریافت کیا ہے وہ زندگی کی رفتار کو اس قدر بڑھاچکا ہے کہ اب ذہن پر مرتب ہونے والے دباؤ میں صرف اضافہ ہو رہا ہے اور کمی کے دور تک آثار ہیں نہ امکان۔ ساتھ ہی ساتھ اس نکتے کو بھی ذہن نشین رکھیے کہ زندگی کی رفتار میں اضافے کا عمل جاری ہے۔ یعنی آنے والی نسلوں کے ذہن پر مرتب ہونے والا دباؤ آج کے ذہنی دباؤ سے کئی گنا ہوگا اور تب ڈھنگ سے جینا واقعی جُوئے شیر لانے کے مترادف ہوچکا ہوگا۔
آج کا ایک بڑا یا بنیادی مسئلہ ذہن پر مرتب ہونے والا دباؤ ہے۔ اور معاملہ صرف ذہن تک محدود نہیں رہتا‘ جسم بھی شدید متاثر ہوتا ہے۔ زندگی کی تیز رفتاری نے انسان کو شدید نوعیت کی الجھنوں سے دوچار کیا ہے۔ بہت کوشش کرنے پر بھی وہ اِن الجھنوں کا دائرہ محدود رکھنے میں کامیاب نہیں ہو پارہا۔ آج کی دنیا میں جسم و جاں کی تھکن ایک بڑا‘ پیچیدہ مسئلہ ہے۔ بہت کچھ پانے کی تمنا میں انسان بہت کچھ کھوچکا ہے۔ زندگی کا سارا حُسن تیزی سے تیزی کی نذر ہوچکا ہے۔ ماحول میں پائی جانے والی تیزی سبھی کو متاثر کرتی ہے۔ جو اِس تیزی کے غیر ضروری اثرات سے بچنا چاہتے ہیں اُنہیں غیر معمولی تیاری کرنا پڑتی ہے۔ ذہن کو غیر ضروری دباؤ سے بچانا ہم میں سے کس کی خواہش نہیں؟ مگر ہم ایسا کر نہیں پاتے۔ سبب اس کا یہ ہے کہ ہم اس حوالے سے اُتنے سنجیدہ نہیں جتنے ہونے چاہئیں۔
ہم یومیہ بنیاد پر جو کام کرتے ہیں اُنہیں معمول کہا جاتا ہے۔ معمولات بھی ہم سے پوری توجہ کے طالب ہوتے ہیں۔ اگر عدم توجہ کا معاملہ ہو تو معمولات بھی ڈھنگ سے انجام کو نہیں پہنچتے۔ ایسے میں سوچا جاسکتا ہے کہ زندگی مجموعی طور پر ہم سے کس قدر توجہ چاہتی ہے۔ بہت کچھ ایسا ہے جو ہمارے حواس و ادراک کی حدود میں نہیں۔ جو زمانے ہم نے ابھی دیکھے ہی نہیں اُن کے بارے میں ہم کوئی بھی منصوبہ کیسے بناسکتے ہیں‘ تیاری کیسے کرسکتے ہیں‘ مگر تیاری بھی کرنی پڑتی ہے اور منصوبے بھی بنانے پڑتے ہیں۔ ایسا کرنے سے آنے والے دور میں حیرت زدہ رہ جانے کا امکان خاصا کمزور پڑ جاتا ہے اور ہم زندگی کو اپنی مرضی کے مطابق کوئی نیا رخ دینے میں کامیاب ہو پاتے ہیں۔
ماہرین بتاتے ہیں کہ دنیا بھر میں لوگ زندگی کا ساتھ دینے کے عمل میں شدید تھکن سے دوچار ہیں۔ یہ تھکن جسم اور ذہن دونوں کے لیے ہے۔ ذہنی تھکن زیادہ ہے کیونکہ جسم تو ایک خاص حد تک کام کرنے کے بعد تھک کر رک جاتا ہے اور آرام کے مرحلے سے گزر جاتا ہے ‘مگر ذہن کا سفر جاری رہتا ہے۔ جب انسان جسم کو آرام دینے کی منزل سے گزر رہا ہوتا ہے تب وہ ذہن کو آرام نہیں دے رہا ہوتا۔ یہ خطرناک بات ہے۔ ذہن کو بھی سُکون درکار ہوتا ہے۔ ذہن صرف نیند کی حالت ہی میں آرام نہیں چاہتا بلکہ بیداری کی حالت میں اُسے راحت درکار ہوتی ہے۔ آج کا انسان ترقی کی دوڑ میں شامل رہنے کے حوالے سے اس قدر الجھن کا شکار ہے کہ خواہش کے باوجود اپنے معاملات کو درست کرنے میں کامیاب نہیں ہو پارہا۔ اس کا نتیجہ غیر معمولی تھکن کی صورت میں برآمد ہوا ہے۔ آج کا انسان زندگی کا ایک خاص معیار متعین کرنے کے بعد اُسے برقرار رکھنے کی دُھن میں اپنے پورے وجود کو داؤ پر لگا دیتا ہے۔ معاملات معاش سے شروع ہوکر معاش پر ختم ہو رہے ہیں۔ ہر انسان چاہتا ہے کہ ماحول میں ترقی کے جتنے بھی مظہر پائے جارہے ہیں وہ سب کے سب کسی نہ کسی حد تک اُس کی زندگی کا حصہ ہونے چاہئیں۔ اِس کوشش میں وہ سبھی کچھ داؤ پر لگاتا چلا جاتا ہے۔ اور پھر وہ وقت بہت جلد آ جاتا ہے جب وہ محض معاشی حیوان بن کر رہ جاتا ہے۔
دنیا بھر میں ''برن آؤٹ‘‘ کے کیس بہت تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ ترقی یافتہ‘ ترقی پذیر اور پس ماندہ ... تینوں ہی طرح کے معاشروں میں اربوں افراد شدید جسمانی تھکن اور ذہنی دباؤ کا شکار ہیں۔ زیادہ سے زیادہ کے حصول کی کوشش انسان کے باطن کو کھوکھلا کرتی جارہی ہے۔ جن باتوں سے دل کو غیر معمولی سکون مل سکتا ہے اور ذہن استحکام پاسکتا ہے وہ ہر طرف اور ہر سطح پر موجود و دستیاب ہیں مگر انسان اُن سے خاطر خواہ حد تک مستفید ہونے کی طرف مائل نہیں ہو رہا۔ یہ حقیقت اِس دور کے نمایاں ترین المیوں میں شامل ہے۔ زندگی کی بڑھتی ہوئی رفتار کا ساتھ دینے کی کوشش انسان کو تہی دامنی سے دوچار کرتی جارہی ہے۔ وقت آچکا ہے کہ انسان زندگی کی رفتار کم کرنے پر متوجہ ہو اور اپنے جسم و ذہن کو حقیقی مطلوب راحت و استحکام سے ہم کنار کرنے کی طرف مائل ہو۔