دنیا کا ہر انسان شعور کی کم از کم اس سطح پر تو ضرور رہتا ہے کہ اپنا بھلا اور بُرا سمجھ سکے اور جذبات پر تھوڑا سا قابو پاکر وہ سب کچھ کرے ‘جو اپنے مفاد میں ہو۔ بہت سے لوگوں کے بارے میں یہ تصور پایا جاتا ہے کہ وہ اپنا بھلا اور بُرا سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ ایسا نہیں ہے۔ رب کا بخشا ہوا شعور ہم میں سے ہر ایک کے حصے میں آیا ہے۔ دنیا کا ہر انسان بہت اچھی طرح جانتا ہے کہ کون سی چیز اُسے نقصان پہنچاسکتی ہے اور کس چیز سے فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ اپنے خلاف جاتے ہوئے معاملات سے بھی ؛اگر کوئی دور نہیں ہو پاتا تو اِس میں قصور شعور کا نہیں‘ جذبات اور تربیت کا ہے۔ اگر‘ تربیت ڈھنگ سے نہ کی گئی ہو تو انسان جذبات کی رَو میں بہتے ہوئے اپنے ہی خلاف چلا جاتا ہے۔
یعنی لوگ بظاہر خطرناک معاملات سے بھی الگ اس لیے نہیں ہو پاتے کہ اُن کا اپنے جذبات اور مزاج پر بس نہیں چلتا۔ جذبات کو قابو میں رکھنے کی تربیت نہ ملی ہو تو انسان بظاہر بے ضرر سی صورتِ حال کو بھی اپنے خلاف کرلیتا ہے۔
ہر انسان کو کسی بھی معاملے میں منطقی حد کا خیال رکھنا چاہیے۔اس حد کو پہچاننا کسی بھی انسان کے لیے ناممکن نہیں ہوتا۔ ہر انسان کا شعور اتنا پختہ ضرور ہوتا ہے کہ کسی بھی معاملے میں ایک خاص منطقی حد سے آگے جانے کی صورت میں پہنچنے والے نقصان کو پہچان سکے۔ دنیا بھر میں تعلیم و تربیت کا مدار اس نکتے پر ہے کہ انسان کو یہ سمجھنے کے قابل بنایا جائے کہ اُس کا فائدہ کہاں ختم اور نقصان شروع ہوتا ہے۔
ہر انسان یہ سب کچھ جانتا ہے ‘مگر بعض اوقات وہ محض غفلت کے باعث قطعیت کے ساتھ کوئی فیصلہ نہیں کر پاتا یا پھر جذبات سے مغلوب ہوکر ایسے فیصلے کر بیٹھتا ہے ‘جن پر عمل پیرا ہونے سے اُسے محض نقصان پہنچتا ہے۔
ہر معاشرہ فرد کو اپنے میں ضم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اجتماعیت کا حصہ بن جانے سے انسان کی اپنی یعنی انفرادی شناخت خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ ہر انسان چاہتا ہے کہ اُس کی اپنی ایک واضح شناخت ہو۔ اس شناخت کے برقرار رکھنے کے لیے وہ دن رات محنت کرتا ہے۔ کسی خاص شعبے میں مہارت کا حصول اسی مقصد کے تحت ہوتا ہے ‘یعنی یہ کہ لوگ اس حوالے سے پہچانیں؛ اگر انفرادی شناخت دب جائے تو انسان کی شخصیت مسخ ہو جاتی ہے‘ وہ بجھ سا جاتا ہے اور پھر اپنے شعبے میں یا کسی بھی شعبے میں کوئی خاص کام کرنے کے قابل نہیں رہتا۔ یہاں ایک اہم سوال اپنی صلاحیتوں اور سکت کو پہچاننے کے ساتھ حد کا خیال رکھنے کا بھی ہے۔ ہر انسان کو‘ مبہم طور پر ہی سہی‘ اندازہ ہوتا ہے کہ اُس کے وجود کی منطقی حد کہاں تک ہے۔ اس حد کو شناخت کرنا کبھی کبھی مسئلہ بن جاتا ہے‘ مگر خیر یہ مسئلہ ایسا پیچیدہ نہیں ہوتا کہ حل نہ کیا جاسکے۔
منطقی حد سے کیا مراد ہے؟ یہ سوال اہم ہے۔ بات کچھ یوں ہے کہ دنیا کے ہر انسان کو اپنے لیے کوئی نہ کوئی کردار تو متعین کرنا ہی پڑتا ہے۔ (یہاں کردار سے مراد character نہیں ‘بلکہ role ہے) ہر انسان کو اس دنیا میں قیام کے دوران اپنے حصے کا کام کرنا ہوتا ہے۔ یہ کام کیا ہونا چاہیے ‘اس کا تعین بالعموم خود کو اُسی کو کرنا ہوتا ہے۔ کبھی کبھی یہ کردار ریاست‘ کمیونٹی‘ قبیلے یا خاندان کی طرف سے بھی متعین کیا جاتا ہے۔ خیر‘ ہر انسان کو اچھی طرح اندازہ ہوتا ہے کہ اُسے زندگی بھر کسی بھی معاملے میں کیا کرنا ہے۔
کہنے کا مقصد ہے کہ کسی بھی معاملے میں منطقی حد سے مراد وہ مقام ہے ‘جہاں پہنچ کر انسان کو دیکھنا ہوتا ہے کہ اُس کے وجود اور کارکردگی سے دوسروں کو نقصان تو نہیں پہنچ رہا۔ اور یہ کہ خود اُس کی شخصیت بھی متاثر تو نہیں ہو رہی۔ اگر‘ وہ کسی کے لیے نقصان کا باعث بن رہا ہو تو ایسا کرنے سے مجتنب رہنا پڑتا ہے‘ یعنی منطقی حد سے بڑھنے کا خیال یا ارادہ ترک کرنا پڑتا ہے‘ کیونکہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے اور جب کسی بھی معاشرے میں عمومی چلن ہی منطقی حد سے بڑھنے کا ہو تو بگاڑ پھیلتا جاتا ہے۔
ذہن نشین ہے کہ کسی بھی معاشرے میں حقیقی بگاڑ اُسی وقت پیدا ہوتا ہے‘ جب لوگ اپنی اپنی منطقی حدود کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے دوسروں کے معاملات اور زندگی میں مداخلت کرتے ہیں۔ آج دنیا کا ہر معاشرہ ‘اس بنیادی بگاڑ یا خرابی سے دوچار ہے۔ ترقی یافتہ معاشروں میں یہ بگاڑ کم ہے۔ ترقی پذیر معاشرے اس خرابی کا شکار تو ہیں ‘مگر اس حد تک کہ معاملات کو درست کرنا ممکن ہے۔ سب سے بُری حالت پس ماندہ معاشروں کی ہے۔
تقریباً تمام ہی حوالوں سے پچھڑے ہوئے معاشروں میں لوگ ایسی زندگی بسر کر رہے ہیں‘ جو اپنے معاملات میں کم اور دوسروں کے معاملات میں زیادہ الجھی ہوئی ہے۔ لوگ جب اپنے حصے کے کام کو چھوڑ کر دوسروں کے کام میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں اور اپنی اصلاح سے بڑھ کر دوسروں کی اصلاح کے لیے فکر مند رہتے ہیں‘ تب بہت کچھ اِدھر سے اُدھر ہو جاتا ہے۔
اس حوالے سے آج کے پاکستانی معاشرے ہی پر ایک طائرانہ نظر ڈالیے تو اندازہ ہوجائے گا کہ لوگ اپنی اپنی منطقی حدود سے آگے جانے کیلئے بے تاب رہتے ہیں اور ایسا کر گزرنے ہی پر اُن کے دل کو سکون نصیب ہوتا ہے‘ جن معاملات سے دور پرے کا کوئی تعلق نہ ہو‘ اُن میں بھی غیر معمولی دلچسپی لیتے ہوئے اپنا وقت ضائع کرنے کو زندگی کا ایک بنیادی مقصد سمجھ لیا گیا ہے۔
اس حوالے سے کوئی بھی شخص بہت آسانی سے بہت سے معاملات میں کی کھڑکی کھول کر جھانک سکتا ہے اور جھانک ہی رہا ہے۔ جو معاملات ضروری ہیں‘ ان میں دلچسپی لینے اور خود کو اپ ڈیٹ کرتے رہنے میں کچھ ہرج نہیں‘ مگر مسئلہ یہ ہے کہ عام پاکستانی متعدد غیر ضروری معاملات میں بھی دلچسپی لے رہا ہے اور اس کے نتیجے میں اُس کی زندگی میں عدم توازن پیدا ہو رہا ہے۔
عدم توازن کا سبب یہ ہے کہ وہ کرنے کے کام کر نہیں پارہا اور جو کام اُسے کسی بھی درجے میں کرنے ہی نہیں ‘اُن میں ضرورت سے کہیں بڑھ کر دلچسپی لے کر وقت‘ توانائی اور مالی وسائل ضائع کر رہا ہے۔
بات صرف اِتنی ہے کہ زمانے کی ضرورت کے مطابق ‘ذہنی یا نفسی تربیت حاصل کرنے سے گریز کیا جارہا ہے۔ اس تربیت کے نہ ہونے کے باعث ہم ڈھنگ سے زندگی بسر کرنے کے قابل نہیں ہو پارہے۔ ہمیں اپنی حدود کا تعین کرنا ہے اور اُن حدود میں رہتے ہوئے پورے توازن کے ساتھ زندگی بسر کرنی ہے۔
یہاں اس حوالے سے سوال صرف بچوںکو سکول کے ذریعے کچھ سیکھنے سکھانے کا نہیں ‘بلکہ خود بھی بہت کچھ سیکھنے کا ہے۔ زندگی بسر کرناایک فن ہے‘ جو خود بخود نہیں آتا‘ بلکہ سیکھنا پڑتا ہے ‘یعنی جینا سیکھنا پڑے گا۔
یہ کام ہر دور کے لوگوں نے کسی نہ کسی شکل میں کیا ہے۔ ہمارے لیے تو تقریباً لازم ہوگیا ہے کہ زندگی ڈھنگ سے بسر کرنے کا ہنر سیکھیں!