کسی بھی معاشرے کے عام آدمی کو بہتر زندگی بسر کرنے کی تحریک دینے کے حوالے سے جن شخصیات نے پوری زندگی وقف کی‘ اُن میں ڈیل کارنیگی کا نام سب سے نمایاں ہے۔ امریکا میں ڈیل کارنیگی ہی نے اصلاحِ عامہ کی تحریک شروع کی۔ اُنہوں نے قلم سے تلوار کا کام لیا اور زندگی سے عدمِ رغبت کی جڑ کاٹ دی۔ ڈیل کارنیگی نے یوں تو کام کی اور بھی بہت سی باتیں لکھی ہیں‘ مگر ایک جملہ تو ایسا غضب کا ہے کہ اُسے کتاب کے برابر سمجھیے۔ کارنیگی کہتے ہیں کہ کسی بھی معاملے میں آپ قصور وار ہوں یا نہ ہوں‘ ذمہ دار تو آپ ہی ہیں!
اس جملے کی گہرائی اور گیرائی پر غور کیجیے تو اندازہ ہوگا کہ یہ زندگی کے ہر معاملے پر محیط ہے۔ دنیا کا ہر انسان اپنے تمام معاملات کا ذمہ دار ہوتا ہے؛ اگر‘ صورتِ حال واضح نشاندہی کر رہی ہو کہ متعلقہ فرد قصور وار نہیں ہے‘ تب بھی وہ ذمہ دار ہونے سے انکار تو کر ہی نہیں سکتا‘ مثلاً: اگر آپ نے کسی سے دوستی کی اور آپ اُس کے دوست کی حیثیت سے پہچانے جانے لگے‘ پھر اُس نے کوئی غلط کام کیا اور تنہا نہیں پھنسا ‘بلکہ آپ کو بھی پھنسا گیا تو بے قصور ہونے پر بھی ذمہ دار تو آپ ہی ہیں کہ اچھی طرح جانے بغیر‘ چھان پھٹک کیے بغیر اُس سے اتنی گہری دوستی کی ہی کیوں کہ اُس کے کِیے پر آپ کو بھی قصور وار قرار دے کر دھرلیا جائے!
ہم زندگی بھر اس امر کے لیے کوشاں رہتے ہیں کہ ہمیں قصور وار ٹھہرایا جائے‘ نہ ذمہ دار۔ بھری دنیا میں کوئی ایک انسان بھی ایسا نہیں‘ جو یہ چاہتا ہو کہ اُسے دوسروں کے کِیے پر قصور وار گردانا جائے۔ انسان کا عمومی مزاج تو یہ ہے کہ اپنے کِیے پر بھی قصور وار دیئے جانے پر راضی نہیں ہوتا۔ ایسے میں اِس امر کی گنجائش کہاں ہے کہ دوسروں کا کیا بُھگتا جائے؟
قوم یہ بات ہضم کرنے میں اب تک کامیاب نہیں ہوسکی کہ ہم ورلڈ کپ کے سیمی فائنل مرحلے تک نہیں پہنچ پائے۔ اس بار ورلڈ کپ کے معاملے میں دو رُخی حقیقت سامنے ہے۔ ایک حقیقت تو یہ ہے کہ ہم پوائنٹس ٹیبل پر پانچویں پوزیشن کے حامل ہو پائے۔ ہمارے بھی 11 پوائنٹس تھے اور نیوزی لینڈ کے بھی 11 پوائنٹس ہی تھے‘ مگر وہ بہتر رن ریٹ کی بنیاد پر سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کرگئی۔ دوسری حقیقت یہ ہے کہ سپورٹس مین سپرٹ کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے گڑھا کھود کر ہمیں اُس میں گرایا گیا۔
سرفراز الیون کو تنقید کا نشانہ بننا پڑا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بہت حد تک اطمینان بخش نتائج دینے کے بعد بھی حاصل شدہ حتمی پوزیشن کے لیے سرفراز الیون کو بہت کچھ جھیلنا پڑا ہے۔ سرفراز احمد نے درست کہا ہے کہ قوم سے معافی مانگنے کی کوئی بات نہیں۔ ٹیم 11 پوائنٹس کے ساتھ واپس آئی ہے۔ چوتھی سیمی فائنلسٹ‘ یعنی نیوزی لینڈ کی طرح ہم نے بھی پانچ میچ جیتے‘ تین ہارے اور ایک بے نتیجہ رہا۔ پہلے میچ میں ویسٹ انڈیز کے مقابل شرم ناک انداز سے ہارنے کے بعد ٹیم نے شاندار کم بیک کرتے ہوئے ون ڈے ٹاپر انگلینڈ کو پچھاڑا۔ آسٹریلیا اور بھارت سے ہارنے کے بعد ٹیم کے ہر کھلاڑی کو انتہائی پریشان کن صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑا‘ مگر خیر‘ پوری ذہنی تیاری کے ساتھ ٹیم ایونٹ میں واپس آئی۔ آخری چاروں میچ ناک آؤٹ بنیاد پر کھیلے اور جیتے‘ کیونکہ ہارنے کی گنجائش تھی ہی نہیں۔
سرفراز پیشہ ورانہ اور اخلاقی مصلحتوں کے اسیر ہیں ‘اس لیے اس سے زیادہ کچھ نہیں کہہ سکتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ پوری دیانت سے جائزہ لیا جائے تو تکنیکی بنیاد پر قومی ٹیم سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کرکے واپس آئی ہے! کرکٹ سے شغف رکھنے والا عام آدمی بھی اچھی طرح سمجھتا ہے کہ انگلینڈ کو ڈولی میں بٹھاکر بھارت اور نیوزی لینڈ نے پوری تندہی سے کاندھا دیا اور سیمی فائنل کی چوکھٹ تک پہنچایا۔ آئی سی سی خدا جانے کہاں مرگئی ہے ‘جس نے دو تین نو بالز پر محمد عامر کو سپاٹ فکسنگ کا مجرم قرار دے کر پانچ سال کے لیے کرکٹ سے دور کردیا تھا۔ انگلینڈ کے آخری دو میچ پورے کے پورے فکسڈ تھے۔ گاڑی کی تلاشی لے کر پستول برآمد کرنے کی کوشش کرنے والی آئی سی سی کو گاڑی کی چھت پر رکھی ہوئی توپ کیوں دکھائی نہ دی؟
بات پھر قصور اور ذمہ داری تک آگئی ہے۔ ہماری ٹیم ورلڈ کپ سے باہر ہوئی‘ تو اِس میں اُس کا کوئی قصور نہ تھا۔ سیمی فائنل تک رسائی کے لیے جو کچھ کرنا تھا‘ وہ سرفراز الیون نے کسی نہ کسی طور کرہی دیا۔ آخری مراحل میں انگلینڈ‘ نیوزی لینڈ اور بھارت نے مل کر جو کچھ طے کیا ‘وہ طشت از بام ہوچکا ہے۔ جس طور پاکستان کو ایونٹ سے باہر کی راہ دکھائی گئی ‘وہ شاید ورلڈ کپ کی تاریخ کا شرم ناک ترین باب ہے۔ بھارت اور نیوزی لینڈ کا گھناؤنا کردار مدتِ دراز تک کرکٹ سے شغف رکھنے والوں کے حافظوں سے چمٹا رہے گا۔
خیر‘ پھر ڈیل کارنیگی کی طرف چلتے ہیں۔ سرفراز الیون نے ورلڈ کپ میں جو کچھ کیا وہ اِتنا بُرا نہیں تھا کہ اُس کی بنیاد پر لتاڑنے کا سلسلہ شروع کیا جائے ‘مگر ہاں‘ یہ بات ماننا پڑے گی کہ تھوڑی سی کوشش سے معاملات کو بہتر بنایا جاسکتا تھا یا یوں کہیے کہ سازش کرنے والوں کے دماغوں میں ہلچل پیدا کرنے والی صورتِ حال پیدا کی جاسکتی تھی۔ جن کی فطرت ہی ڈسنا ہو وہ ڈسے بغیر نہیں رہتے اور آئندہ بھی ایسا ہی کریں گے‘ مگر ڈسے جانے سے بچنے کی کوشش کرنا ہمارا بھی تو فرض ٹھہرا۔ ایونٹ کی ابتداء اچھی ہونی چاہیے تھی۔ ٹھیک ہے‘ سری لنکا کے خلاف میچ بارش کی نذر ہونے سے ہمیں اُس یقینی پوائنٹ سے محروم ہونا پڑا جو بعد میں ہمارے کام آسکتا تھا اور سازشیں کرنے والوں کا بھی ناک میں دم کرسکتا تھا۔ دوسری طرف بھارت کے مقابل بارش کی بدولت نیوزی لینڈ کو مفت کا پوائنٹ مل گیا۔ مفت کا ‘اس لیے کہ بھارت کے مقابلے میں کمزور ہونے کے باعث نیوزی لینڈ کو یقینی طور پر ہار ہی جانا تھا ‘جبکہ سری لنکن سکواڈ کے مقابل سرفراز الیون کی فتح بہت حد تک یقینی تھی۔ یہ تو تھا‘ نصیب کا معاملہ۔ اب آئیے ‘اس سوال کی طرف کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے تھا؟ بُرا چاہنے والوں کا مشکلات سے دوچار کرنے کے لیے افغانستان کے مقابل ہماری فتح کا شاندار ہونا لازم تھا‘ کیونکہ اِس کے نتیجے میں ہمارا رن ریٹ بہتر ہو جاتا اور بعد میں ''بڑوں‘‘ کی سازشوں کے باوجود بنگلہ دیش کے خلاف میدان میں اترتے وقت ہم پر ''دماغ پھاڑ‘‘ قسم کا دباؤ نہ ہوتا۔ جو ہونا تھا ‘وہ تو ہو ہی چکا ہے۔ سانپ کے نکل جانے پر لکیر کا پیٹنا بے کار ہوتا ہے‘ مگر لکیر پیٹنے اور اپنے گریبان میں جھانک کر خامیوں اور کوتاہیوں کا جائزہ لینے میں بہت فرق ہے۔ احمد فرازؔ نے خوب کہا ہے کہ ؎
فرازؔ! اُس نے وفا کی یا بے وفائی کی
جوابدہ تو ہمی ہیں‘ سوال جو بھی ہو
سرفراز الیون نے سیمی فائنل تک رسائی کے لیے جو کچھ کیا ‘وہ مجموعی طور پر قابلِ تعریف و اطمینان بخش تھا ‘مگر اسے مزید قابلِ تعریف و اطمینان بخش بنایا جاسکتا تھا۔ بات گھوم پھر کر اس نکتے پر آتی ہے کہ صلاحیت و سکت کو ممکن حد تک بروئے کار لایا جانا چاہیے۔ ہماری راہ میں دیواریں کھڑی کی جاتی رہیں گی‘ سازشیں ہوتی رہیں گی ‘مگر ہمیں اپنے حصے کا کام کرنا ہے اور اس معاملے میں کوئی کسر باقی نہیں رہنے دینی ہے‘ کیونکہ حتمی تجزیے میں جوابدہ تو ہمی ہیں!