ایک الجھن کا سامنا تو سبھی کو رہتا ہے۔ اس الجھن کا نام ہے تبدیلی۔ ہمیں قدم قدم پر تبدیلی کو جھیلنا پڑتا ہے اور پھر خود بھی کسی نہ کسی تبدیلی کی راہ ہموار کرنا پڑتی ہے۔ جینا اسی کا نام ہے۔ یہ دنیا ہر آن تبدیل ہو رہی ہے‘ بلکہ اب تو تبدیلی کا عمل اتنا تیز ہوچکا ہے کہ دیکھتے ہی دیکھتے معاملات کچھ کے کچھ ہو جاتے ہیں۔ ہم چاہیں یا نہ چاہیں‘ تبدیلی کو برداشت کرنا ہی پڑتا ہے۔ اسی طور ہمیں دوسروں کو بھی یہ بتانا پڑتا ہے کہ ہم تبدیلی کو محض جھیل نہیں رہے بلکہ بہت سی تبدیلیوں کی راہ بھی ہموار کر رہے ہیں۔
تبدیلی کا عمل بہت تیز ہوگیا ہے۔ ایک دور تھا کہ زندگی کا عمومی رنگ ڈھنگ عشروں تک تبدیل نہیں ہوتا تھا۔ ایجاد و اختراع کا عمل بھی سست رفتار تھا۔ مارکیٹ میں آنے والی کوئی بھی چیز ایک مدت تک اپنی اہمیت منواتی رہتی تھی۔ اور پھر یہ بات بھی تھی کہ کچھ نیا سامنے آنے پر پہلے سے موجود تمام چیزیں از کارِ رفتہ نہیں ہو جاتی تھیں۔ نئی چیزیں چونکہ پرانی چیزوں کو مکمل طور پر discard کرنے میں ناکام رہتی تھیں اس لیے ذہنوں پر مرتب ہونے والا دباؤ قابو میں رہا کرتا تھا۔ اب بہت کچھ چند برس میں بدل جاتا ہے۔ ہر شعبے میں پیش رفت کی رفتار اتنی زیادہ ہے کہ جو کچھ سامنے آتا ہے وہ کچھ ہی دنوں میں obsolete سا محسوس ہونے لگتا ہے۔ مارکیٹ میں ہر چیز کے اتنے برانڈ دستیاب ہیں کہ انتخاب کا مرحلہ ناک میں دم کردیتا ہے۔ اور پھر ہر برانڈ کے ماڈل اور ورژن بھی سکون کا سانس نہیں لینے دیتے۔
تبدیلی سے گریز کرنا یا اس سے بھاگنا کسی بھی اعتبار سے عقل کا سَودا نہیں۔ اگر تبدیلی ایک بدیہی قدر کے طور پر نہ ہوتی تو اس دنیا میں کچھ بھی نہ ہوتا۔ یہ تبدیلی ہی تو ہے جس کے دم سے زندگی کے میلے کی رونق برقرار ہے۔ ہم مزاجاً تبدیلی پسند ہیں۔ تبدیلی ہی کے دم سے زندگی کا رنگ ڈھنگ اس قابل رہتا ہے کہ ہم اُسے خوش دلی سے اپنائیں۔ ہم تنوّع چاہتے ہیں۔ تنوّع تبدیلی ہی کا دوسرا نام ہے۔ تنوّع ہی سے زندگی کا ہر معاملہ خوش رنگ اور خوش نما دکھائی دیتا ہے۔ کچھ نیا پانے کی ہماری خواہش کبھی دم نہیں توڑتی۔ روزمرّہ اشیا کے انتخاب کا معاملہ ہو یا کوئی اور معاملہ‘ ہم کچھ نہ کچھ جدت اور ندرت چاہتے ہیں۔ یہ خواہش ہی دنیا کو دل کَش بناتی ہے۔ دنیا کی ساری دل کَشی اس بات سے ہے کہ کچھ نہ کچھ نیا سامنے آتا رہے۔ ہر دور کا انسان کچھ نہ کچھ نیا سوچتا رہا ہے اور اس پر عمل کی صورت میں اس نے دنیا کو کچھ نہ کچھ نیا دیا بھی ہے۔
تبدیلی کا عمل جاری رہنے سے زندگی رنگ بدلتی ہے اور زیادہ دل کش ہوکر سامنے آتی ہے۔ یہ سب کچھ عمل سے ممکن ہے۔ محض سوچنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ جب ہم سوچے ہوئے پر عمل کرتے ہیں تب ماحول میں کچھ بدلتا ہے۔ کسی بھی حقیقی تبدیلی کو یقینی بنانے کے لیے لازم ہے کہ پختہ ارادے اور بھرپور تیاری کے ساتھ کام کیا جائے۔ تبدیلی کے حوالے سے سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ ہر انسان دوسروں سے یہ توقع رکھتا ہے کہ وہ کچھ ایسا کریں کہ حقیقی تبدیلی رونما ہو۔پس ماندہ معاشروں کا یہی المیہ ہے کہ وہاں لوگ تبدیلی کے لیے دوسروں کی طرف دیکھتے ہیں۔ خواہش یہ ہوتی ہے کہ معاشرے کو بدلنے کے لیے جو کچھ بھی کرنا ہے وہ دوسرے کریں۔ تبدیلی کا عمل سب سے محنت کا طالب رہتا ہے۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ معاشرے میں چند افراد محنت کریں اور کوئی حقیقی اور بڑی تبدیلی رونما ہو۔
اگر آپ اس دنیا کو ایک نئے روپ میں دیکھنا چاہتے ہیں تو یقین کیجیے کہ یہ خواہش کسی بھی اعتبار سے انوکھی نہیں۔ ہر انسان ایسا ہی تو چاہتا ہے۔ ہاں‘ جب عمل کی بات آتی ہے تو لوگ پیچھے ہٹتے دکھائی دیتے ہیں۔ تبدیلی کا عمل پیچیدگیوں سے اس وقت دوچار ہوتا ہے جب لوگ اپنے حصے کا کام پوری دیانت کے ساتھ کرنے سے راہِ فرار اختیار کرتے ہیں۔ ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ تبدیلی اس دنیا کی سب سے بڑی حقیقت ہے۔ اپنی تخلیق کے بعد سے اب تک یہ دنیا تبدیل ہی تو ہوتی آئی ہے۔ تبدیلی ہی کی بنیاد پر یہ دنیا اس قابل ہو پاتی ہے کہ انسان ڈھنگ سے جیے۔ آپ بھی چاہتے تو ہوں گے کہ دنیا بدل جائے اور اس میں آپ کا بھی کردار ہو۔ دنیا کو بدلنے میں آپ کا بھی کوئی نہ کوئی کردار ضرور ہونا چاہیے۔ کسی نے خوب کہا ہے کہ اگر آپ دنیا کو بدلنا چاہتے ہیں تو جو بھی تبدیلیاں آپ کے ذہن میں ہیں اُن کی عملی تصویر بن جائیے۔ آپ بدلیں گے تو دنیا بھی بدل جائے گی۔ یاد رکھیے‘ حقیقی تبدیلی کے لیے آپ کو اس دنیا میں صرف ایک چیز کو بدلنا ہے ... اپنی ذات کو۔ جس دن آپ ایسا کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے اُس دن دنیا کچھ اور دکھائی دے گی۔
ہر دور اپنے ساتھ چند تقاضے بھی لاتا ہے۔ ایک تقاضا تمام ادوار میں مشترک ہے۔ یہ تقاضا ہے تبدیلی۔ تبدیلی ابدی حقیقت ہے۔ ایک ہماری دنیا ہی پر کچھ موقوف نہیں‘ پوری کائنات تبدیلیوں سے عبارت ہے۔ دیکھنے والی نظر ہو تو دیکھے کہ ہر شے میں پیہم تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ جس کُرّے پر ہم آباد ہیں وہ اپنی تخلیق کے لمحے سے اب تک مسلسل بدلتا آیا ہے۔ یہ تبدیلیاں جغرافیائی یا طبعی سطح پر بھی ہیں اور خالص انسانی سطح پر بھی۔ بہت کچھ ہے جو فطری طور پر بدلتا رہتا ہے اور دوسرا بہت کچھ ہے جو ہم تبدیل کرتے ہیں۔ جو کچھ ہم بدلتے ہیں وہ زیادہ اہم ہے۔ شعوری سطح پر کی جانے والی ہر کوشش دنیا کو ایک نیا رنگ دینے کا ذریعہ ثابت ہوتی ہے۔
دنیا کا ہر انسان تبدیلی کا ذمہ دار ہے یعنی اُسے کوئی نہ کوئی مثبت تبدیلی یقینی بنانی ہے۔ اس ذمہ داری کو پوری دیانت سے نبھانے والے کم کم ہیں۔ تبدیلی کے لیے پوری تندہی سے کچھ کرنے کی توفیق کم ہی لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔ اگر آپ بھی دنیا کو بدلنا چاہتے ہیں تو لازم ہے کہ سب سے پہلے اپنے آپ کو بدلیں۔ اپنے وجود کو تبدیل کیے بغیر دنیا کو بدلنے کی بات کرنا خوش فہمی ہے یا حماقت۔ حقیقی تبدیلی یہی ہے کہ انسان اپنے وجود کو تبدیل کرے تاکہ ماحول میں رونما ہونے والی ہر اہم تبدیلی سے مطابقت پیدا کرنا زیادہ مشکل ثابت نہ ہو۔ دنیا کو بدلنے کی کوشش میں کسی حد تک وہی کامیاب ہوتے ہیں جو پہلے اپنا آپ بدلتے ہیں۔ اپنے وجود کو بدلنے والے دنیا کو بدلنے کے لیے اپنے اندر زیادہ جذبہ اور توانائی پاتے ہیں۔ وقت کی پکار ہے کہ ہر انسان اپنے آپ کو معقول حد تک بدلنے کی کوشش کرے۔ ایسا کرنے ہی سے وہ دوسروں کے لیے زیادہ محترم بھی ٹھہرے گا اور اُس کی بات لوگ دھیان سے سنیں گے۔ تبدیلی کا راگ اُس کے گلے سے اچھا لگتا ہے جو خود بھی تبدیل ہوا ہو۔ ؎
برف جتنی ہے بصد شوق پگھل جائے گی
آپ بدلے تو یہ دنیا بھی بدل جائے گی