ایک زمانے سے ہم یہ تماشا دیکھتے آئے ہیں۔ اور سچ تو یہ ہے کہ محض ہم نے نہیں‘ بلکہ تاریخ کی ہر نسل نے یہ تماشا خوب دیکھا ہے اور رَج کے دیکھا ہے۔ یہ تماشا ہے‘ جھوٹ کی نام نہاد کامیابی کا۔ ہر دور میں جھوٹ کامیاب ہی دکھائی دیا ہے۔ اہلِ دانش کہتے ہیں کہ سچ ہار کر بھی جیت جاتا ہے اور جھوٹ کی فتح کو کسی بھی اعتبار سے فتح قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یہ بات حقیقت پر مبنی ہے‘ مگر عام آدمی کے حلق سے نہیں اُترتی۔ اُترے بھی کیسے؟ عام آدمی دیکھے سے یقین کرتا ہے۔ جھوٹ کامیاب ہوتا دکھائی دیتا ہے ‘اس لیے اُسے ہر دور میں تسلیم اور قبول کیا گیا ہے۔ سچ ہر جگہ ناکامی یا مشکلات سے دوچار دکھائی دیتا ہے۔ اُس کی کامیابی دیر سے واقع ہوتی ہے اور خاصی دیرپا ہوتی ہے‘ مگر عام آدمی فوری نتائج کے حصول کا خواہش مند ہوتا ہے۔ جب ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا تو جس کا نتیجہ نظر آرہا ہو‘ اُسے بدیہی حقیقت سمجھ کر تسلیم اور قبول کرلیا جاتا ہے۔
ہر معاشرے میں غالب اکثریت اُن کی ہوتی ہے ‘جو ''خوگرِ پیکرِ محسوس‘‘ ہوتے ہیں۔ اَن دیکھے خدا کو ماننے والے خال خال ہیں تو پھر دوسری اَن دیکھی حقیقتوں کو بھلا کس طور گلے لگایا جاسکتا ہے؟ عام آدمی کا ذہن بہت تیزی سے بھٹک اور بہک جاتا ہے۔ وہ چونکہ صرف علامات و آثار ہی کو سب کچھ سمجھتا ہے ‘اس لیے ایسی کوئی بھی بات سمجھنے کی کوشش نہیں کرتا ‘جو ہو مگر دکھائی نہ دے رہی ہو۔ اُس کے ذہن میں یہ بات ٹُھونسنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے کہ کسی بھی شے کو دیکھنے کی منزل میں نہیں رک جانا چاہیے ‘بلکہ اُس (شے) کی حقیقت کو سمجھنے کی بھی کوشش کرنی چاہیے‘ تاکہ ڈھنگ سے جینے کا ایک اہم تقاضا نبھایا جاسکے۔
ہر دور کا ایک بنیادی المیہ یہ رہا ہے کہ لوگ جھوٹ کو تو آسانی سے قبول کرتے ہیں‘ مگر سچ کو قبول کرنے میں ایسی آنا کانی کرتے ہیں کہ دیدۂ بینا رکھنے والا ہر شخص یہ تماشا دیکھ کر شرمندہ سا ہوکر رہ جاتا ہے۔
ایسا کیوں ہے؟ بات کچھ یوں ہے کہ ہر معاشرے میں لوگ کم و بیش ہر حوالے سے اپنی مرضی کے اور فوری نتائج چاہتے ہیں۔ کوئی بھی صورتِ حال معاملات کو ایک واضح شکل دینے کے لیے کچھ وقت مانگتی ہے۔ ایسے میں صبر کرنا ہی پڑتا ہے۔ انتظار کی گھڑیاں انسان پر بہت شاق گزرتی ہیں‘ کیونکہ وہ مزاجاً عجلت پسند‘ بلکہ عجلت زدہ ہے۔ کائنات کے خالق نے بھی انسان کو جلد باز اور ناشکرا کہا ہے۔ عجلت پسندی یا عجلت زدگی دراصل ناشکرے پن کے بطن ہی سے جنم لیتی ہے۔ کسی بھی صورتِ حال میں انسان ‘اگر تھوڑا سا صبر کرے تو بہتر نتائج کے برآمد ہونے کی سبیل نکلتی ہے۔ فوری نتائج کے حصول کی شدید خواہش بیک وقت متعدد معاملات کو بگاڑ دیتی ہے۔اس لیے عجلت سے گریز نا گزیر ہے۔
ہر دور میں یہی ہوا ہے کہ سچ جب طرف دار ڈھونڈنے نکلتا ہے تو کوئی نہیں ملتا۔ دوسری طرف جھوٹ کو ٹولے کے ٹولے مل جاتے ہیں۔ افسوس ناک‘ بلکہ الم ناک سہی ‘مگر یہ ہے تو حقیقت۔ ہر دور کا انسان جھوٹ ہی کو زندگی کا سہارا بناتا آیا ہے۔ جھوٹ کی مدد سے‘ چونکہ بہت سے کام آسان ہو جاتے ہیں‘ اس لیے اُسے گلے لگانے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کی جاتی۔ کسی بھی معاملے میں قباحت تو اُس وقت محسوس کی جاتی ہے ‘جب اپنے مفاد پر فوری زد پڑ رہی ہو۔ جب اپنے مفاد کو تقویت اور تحفظ فراہم کرنا آسان ہوجائے‘ تب کسی بھی معاملے میں کیسی الجھن؟
ہر دور میں کسی بھی سچ کو آسانی سے طرف دار نہیں ملے۔ ملتے بھی کیسے؟ جو سچ کا ساتھ دیتا ہے‘ اُس کا بہت کچھ داؤ پر لگ جاتا ہے۔ کسی بھی سچ کا ساتھ دینے کے نام پر کون آسانی سے اپنے آپ کو خطرات کی نذر کرنا پسند کرے گا؟ آج بھی معاملہ یہی ہے۔ انسان نے بہت کچھ ایجاد اور دریافت کرلیا ہے‘ مگر اس کے باوجود وہ بہت سے معاملات میں اب تک ابتدائی دور کے انسان جیسا ہی ہے۔ اُس کی نفسی ساخت زیادہ تبدیل نہیں ہوئی۔ بہت کچھ لکھا جاچکا اور لکھا جارہا ہے‘ مگر پھر بھی انسان نے کچھ زیادہ سیکھا نہیں۔ سوچنے‘ سمجھنے اور چیزوں یا تعلقات کو برتنے کا ڈھنگ وہی ہے۔ جھوٹ کل بھی راج کر رہا تھا اور آج ہی راج کر رہا ہے۔ یہ الگ بات کہ جھوٹ کا راج سراسر عارضی ہے۔ ابدیت صرف سچ کے مقدر میں لکھی گئی ہے‘ مگر سچ کو پہچاننا‘ تسلیم کرنا اور پوری طرح اُس کا ہو رہنا کم ہی لوگوں کے مقدر میں لکھا ہوتا ہے۔ بات سیدھی سی ہے‘ سچ قربانی مانگتا ہے۔
ذرا سا سچ برداشت نہیں کیا جاتا اور بہت سا جھوٹ خوشی خوشی قبول کرلیا جاتا ہے۔ سبب صرف یہ ہے کہ جھوٹ سے عام طور پر وقتی فائدہ پہنچتا ہے۔ کسی کے پاس دیکھنے والی آنکھ ہو تو دیکھے کہ جھوٹ کسی بھی نقصان کو ختم نہیں کرتا‘ اُس کا صرف رخ موڑتا ہے‘ یعنی اِس کی ٹوپی اُس کے سر اور اُس کی ٹوپی اِس کے سر!
سچ کا معاملہ اِس کے برعکس ہے۔ بات سچ کی آجائے تو فائدہ یا نقصان‘ جسے پہنچنا چاہیے ‘اُسی کو پہنچتا ہے۔ سچ کے فروغ کی صورت میں کسی کا کِیا کوئی اور نہیں بھگتتا۔ اِس کی کوئی گنجائش ہی نہیں۔ لوگ ایسی کوئی بھی صورتِ حال پسند نہیں کرتے جس میں اپنے سر کی ٹوپی کسی اور سر پر رکھنے کی گنجائش نہ نکلتی ہو۔ انسان مزاجاً ایسا ہی واقع ہوا ہے۔ وہ اپنے سر سے بلا ٹالنا چاہتا ہے۔ سچ کو گلے لگانے کی صورت میں زندگی امتحان لیتی ہے اور کبھی کبھی بلا اپنے گھر تک آجاتی ہے۔ بدیہی طور پر تو سچ کا ساتھ دینا بہت مشکل لگتا ہے۔ کون ہے‘ جو راہ چلتی مصیبت کو روک کر اپنے گھر لے جائے؟ مگر یہ بھی تو دیکھنا چاہیے کہ سچ کا ساتھ دینے کا صِلہ کیا ہے‘ جس نے ہمیں خلق کیا ہے اور ہمیں پال رہا ہے‘ وہ ضمانت بھی تو دے چکا ہے کہ اگر ہم نے روئے زمین پر سچ کا ساتھ دیا تو آخرت ہماری ہے ‘یعنی وہاں کامیابی ہی کامیابی لکھی ہے۔ اس کا واضح مطلب یہ ہوا کہ آخرت پر ہمارا یقین جس قدر مستحکم ہوگا‘ ہم اُسی قدر سچ کو اپنائیں گے اور جھوٹ سے دور رہنے کی کوشش کریں گے۔ جھوٹ ہمیں نِری عارضی مسرت فراہم کرسکتا ہے‘ اور کچھ نہیں۔ جھوٹ کی مدد سے ملنے والی کامیابی فی الاصل کامیابی ہوتی ہی نہیں۔
سچ چاہتا ہے کہ اُسے گلے لگاکر اُخروی زندگی کو حقیقی کامیابی سے ہم کنار کیا جائے‘ مگر کم ہی لوگ اِس کے لیے خود کو نفسی‘ روحانی اور جسمانی طورپر تیار کر پاتے ہیں۔ انسان عمومی سطح پر فوری‘ دُنیوی کامیابی دیکھ کر پھسل جاتا ہے۔ آخرت کے حقیقی اور ابدی فائدے پر غور کرنے کی توفیق کسی کسی کو نصیب ہوتی ہے۔ کسی شاعر نے اسی بابت کیا خوب کہا ہے: ؎
کوئی بازار میں یوسف کا خریدار نہیں
اب تو مہنگائی کے چرچے ہیں زلیخاؤں میں
عقل کہتی ہے کہ جھوٹ کو گلے لگاکر نقصان کی راہ روکی جائے۔ یہ بات بڑی خوش نما لگتی ہے‘ مگر دانش کا تقاضا ہے کہ سچ کو اپناکر تھوڑی بہت یا جتنی بھی ملے ‘اُتنی تکلیف برداشت کرلی جائے ‘تاکہ اُخروی کامیابی یقینی بنائی جاسکے ‘جو ہر اعتبار سے حقیقی اور ابدی ہے اور جو انسان کے لیے باعث ِ سکون ہے۔