"MIK" (space) message & send to 7575

دماغ کی اب ضرورت کیا ہے؟

جو کچھ بھی ہے‘ دماغ کی کرشمہ سازی کا نمونہ ہے۔ ہمیں دنیا میں جتنی بھی ایجادات دکھائی دے رہی ہیں‘ اُنہیں حقیقت کا حصہ بنانے میں دماغ ہی نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ یہی معاملہ دریافتوں کا بھی ہے۔ اس دنیا میں جتنے قابلِ ستائش کام ہوئے ہیں‘ وہ سب کے سب دماغی محنت کا نتیجہ ہیں۔ خیر‘ بُرائی کے نمونے بھی ذہن ہی کا ''چمتکار‘‘ کہے جانے چاہئیں ‘کیونکہ کوئی بھی چیز‘ کوئی بھی معاملہ دماغ کی حد سے باہر نہیں۔ 
ہم جو زندگی بسر کر رہے ہیں‘ وہ سر بہ سر دماغ کی کارفرمائی کی محتاج اور نتیجہ ہے۔ دماغ کو بروئے کار لائے بغیر ہم کیا کرسکتے ہیں۔ اس کا اندازہ دنیا کے ہر انسان کو ہے۔ سبھی جانتے ہیں کہ دماغ کو حرکت نہ دی جائے تو جمود قائم رہے گا‘ پتا بھی نہ ہلے گا اور کوئی بھی کام ڈھنگ سے نہ ہو پائے گا۔ دماغ کی حرکت ہی دنیا کے ہر معاملے کو حرکت عطا کرتی ہے۔ جب ہمارے دماغ کام کر رہے ہوتے ہیں‘ تب بہت کچھ ہو رہا ہے یا ہونے کی منزل میں ہوتا ہے۔ دنیا کی ہر کاری گری دماغ کے اچھی طرح کام کرنے پر انحصار پذیر ہے۔ دماغ کا کام کرنے کا طریقہ دو پہلوؤں پر مشتمل ہے۔ ایک پہلو تو یہ ہے کہ دماغ غیر محسوس طور پر اپنے ڈھنگ سے کام کر رہا ہوتا ہے۔ اس عمل میں ہماری شعوری کوشش کا عمل دخل نہیں ہوتا‘ مثلاً: موٹر سائیکل چلاتے وقت دماغ ہماری طرف سے کسی خاص کوشش ‘یعنی تحریک کے بغیر ہی کام کر رہا ہوتا ہے اور ہمیں بتاتا رہتا ہے کہ کہاں بریک لگانا ہے‘ کہاں سے تیزی سے گزرنا ہے‘ کس گاڑی سے بچنا ہے اور کس طور دوسروں کو بچاتے ہوئے گزرنا ہے۔ موٹر سائیکل یا تین‘ چار پہیوں والی کوئی گاڑی چلانے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ ڈرائیونگ کے دوران دماغ اپنے طور پر کام کر رہا ہوتا ہے‘ اُس پر محنت نہیں کرنا پڑتی۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم اور بہت کچھ بھی اِسی طور‘ یعنی لاشعوری یا تحت الشعوری انداز سے کرتے ہیں۔ جب ہم کہیں پیدل جارہے ہوتے ہیں‘ تو منزل تک پہنچنے کے لیے دماغ پر کچھ خاص زور نہیں دیتے۔ دماغ خود ہی ہمیں بتا رہا ہوتا ہے کہ کہاں مُڑنا ہے اور کہاں سیدھے چلتے جانا ہے۔ 
دوسری طرف اور بہت کچھ ہے ‘جو ہم سے شعوری کوشش کا مطالبہ کرتا ہے۔ اس حوالے سے ہمیں دماغ کو متحرک کرنا اور رکھنا پڑتا ہے۔ انفرادی اور اجتماعی ہر دو طرح کے معاملات‘ پیشہ ورانہ امور‘ کاروباری سرگرمیوں‘ صنعتی عمل‘ سماجی تعلقات‘ خالص معاشی رابطوں اور اِسی طور حصولِ علم و فن سمیت دوسرے بہت سے معاملات میں ہمیں لازمی طور پر دماغ سے مدد لینا پڑتی ہے یا یوں کہیے کہ ان تمام معاملات میں دماغ سے کام لیے بغیر چارہ نہیں‘ مگر جناب‘ ایسا بہت کچھ ہے‘ جو دماغ کا محتاج نہیں۔ حیران نہ ہوں‘ اب دماغ کی محتاجی ختم ہو جانے کی بات پر پاکستانیوں کو حیران نہیں ہونا چاہیے! ہم خیر سے اُن گِنے چُنے معاشروں میں سے ہیں‘ جنہوں نے دماغ کی محتاجی بہت پہلے ترک کردی ہے! ماہرین کہتے ہیں کہ روئے ارض پر جیلی فِش کم و بیش 65 کروڑ سال سے ہے۔ آپ سوچیں گے ‘اِس میں حیرت کی بات کیا ہے۔ ہمارے گرد جو کچھ بھی ہے‘ وہ اتنا قدیم ہے کہ ہم اُس کی حقیقی عمر کا اندازہ نہیں لگاسکتے۔ جناب! بات کچھ یوں ہے کہ جیلی فِش سے متعلق ایک حقیقت ایسی ہے ‘جو بہت سوں کو غیر معمولی قلبی سکون اور ذہنی تقویت عطا کرتی ہے۔ وہ حقیقت یہ ہے کہ جیلی فش دماغ کے بغیر 65 کروڑ سال سے بقاء یقینی بنانے میں کامیاب رہی ہے! جیلی فش کے علاوہ کورلز‘ سٹار فش‘ سی ارچنز‘ سینڈ ڈالرز‘ سیپیاں اور دوسری بہت سی مخلوق بھی باضابطہ دماغ کے بغیر جی رہی ہے۔ سوال 65 کروڑ سال کا ہے۔ 
65 کروڑ سال اور وہ بھی دماغ کے بغیر! یہ بات ہمارے اپنے معاشرے کے اُن لوگوں کو اچھا خاصا سکون عطا کرنے کے لیے کافی ہے‘ جو دماغ کم کم ہی استعمال کرتے ہیں اور کبھی کبھی ‘اس حوالے سے تھوڑی بہت شرم سی محسوس کرتے ہیں۔ ارے بھئی شرمانا کیا؟ کیا جیلی فش شرماتی ہے؟ بالکل نہیں۔ تو پھر کسی انسان کو شرمانے کی کیا ضرورت ہے؟ 
آج کا پاکستان دماغ یا ذہن کے بغیر کام کر رہا ہے۔ اور دنیا دیکھ لے کہ سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہی چل رہا ہے! لوگ جی رہے ہیں اور خوب کھا‘ پی رہے ہیں۔ کہیں کوئی کمی دکھائی دے رہی ہے؟ نہیں نا‘ تو پھر کیسا دماغ اور کہاں کا ذہن؟ اب کون ہے‘ جسے دماغ کی حاجت یا ضرورت محسوس ہو؟ اب کسی بھی معاملے میں دماغ کو ''زحمتِ کلام‘‘ دینے کی روایت توانا نہیں رہی۔ روزمرہ امور کی بات تو خیر جانے ہی دیجیے۔حقیقت یہ ہے کہ جن معاملات میں ذہن کو بروئے کار لانے کی واضح ضرورت ہوتی ہے ‘وہ بھی خاص ذہنی تحرک کے بغیر نمٹائے جارہے ہیں۔ 
المیہ کہیے یا نیرنگیٔ دوراں کہ آج پاکستان میں دماغ یا ذہن کو یوں الوداع کہی جاچکی ہے‘ گویا یہ نعمت کسی کام کی نہ ہو۔ بیشتر پاکستان خود کو بے دماغی و بے ذہنی کا شاہکار ثابت کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ زندگی کے بیشتر اہم معاملات بھی خاص دماغی کاوش کے بغیر یوں نمٹائے جارہے ہیں کہ لوگوں کی ہمت دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ ہر طرف بے ذہنی کی بہار ہے۔ ایسے میں وہ لوگ اپنے ہی ماحول میں اجنبی سے ہوکر رہ گئے ہیں‘ جو بیشتر معاملات میں ذہن کو بروئے کار لانے پر متوجہ رہتے ہیں۔ ایسے لوگ ہر زاویے سے عجیب دکھائی دیتے ہیں۔ 
جب ماحول روا روی کا ہو اور چل سو چل کا چلن ہو تو کس کو پڑی ہے کہ ذہن کو خواہ مخواہ متحرّک کرتا پھرے؟ جس جنس کی قدر و قیمت ہی ختم ہوچلی ہو‘ اُسے بازار میں کون منہ لگائے گا؟ پاکستان کی معاشرتی ساخت ‘یعنی ''بین الانسانی‘‘ تعلقات میں ذہن کی relevance برائے نام رہ گئی ہے۔ ایسے میں کون ہے‘ جو ذہن کو زندگی کا حصہ بنانے کا سوچے؟ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ذہن کو بروئے کار لانے والوں کو عموماً بُرے حشر سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ اُن کا انجام دیکھ کر دوسروں کو بھی ''تحریک‘‘ ملتی ہے کہ اور سب کچھ کرنا ہے‘ ذہن کو خواہ مخواہ بروئے کار نہیں لانا ہے! 
اکثریت یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ جب جیلی فش دماغ کے بغیر 65 کروڑ سال بعد بھی اپنی بقاء یقینی بنانے میں کامیاب ہوسکتی ہے ‘تو پھر بے ذہنی کی حالت میں زندگی بسر کرنے کے حوالے سے زیادہ پریشان ہونے کی کیا ضرورت ہے؟ گزرتا وقت ثابت کرتا جارہا ہے کہ جو دماغ کو حرکت نہیں دیتے‘ ذہن کو بروئے کار نہیں لاتے وہ زیادہ فائدے میں رہتے ہیں‘ یعنی پُرسکون زندگی بسر کرتے ہیں۔ ہم نے تو آج تک یہی دیکھا ہے کہ جو دماغ سے کام لے وہ اپنے لیے بھی پریشانی کا سامان کرتا ہے اور دوسروں کو بھی الجھن میں مبتلا کرتا ہے۔ ایسے میں لوگ بے ذہنی کو زندگی کا بنیادی شعار بنانے پر متوجہ کیوں نہیں ہوں گے؟ زمانے کی روش یہ ہے کہ جو کچھ چل رہا ہے‘ اُسے چلنے دیا جائے‘ اپنی طرف سے کوئی منطق لڑانے کی کوشش نہ کی جائے‘ بلکہ لفظ منطق کو اپنی زندگی ہی سے نکال باہر کیا جائے۔ ایسے میں جو بھی دماغ کی موجودگی ثابت کرنے کی کوشش کرے گا‘معاشرے کا باغی کہلائے گا۔ جب دماغ لڑانے اور چلانے کی کچھ خاص ضرورت ہی نہیں رہی‘ تو پھر اسے بالائے طاق رکھ کر لوگ سکون کا سانس کیوں نہ لیں؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں