اردو کے شعراء کی ایک نمایاں خصوصیت اپنے عہد کی مشکلات‘ خرابیٔ حالات اور تقدیر کی ستم ظریفیوں کا پوری شرح و بسط سے بیان بھی ہے۔ ہر دور کے اردو شعراء نے یہ فریضہ بخوبی انجام دیا ہے۔ حالات کی ستم ظریفی کو ڈھنگ سے بیان کرنے کے حوالے سے کئی شعراء کا حوالہ دیا جاسکتا ہے‘ تاہم خواجہ میر دردؔ سے کم ہی ہوں گے۔ اُنہوں نے زندگی کے تلخ حقائق کی تصویر ایسی کھینچی ہے کہ دیکھے سے دل دُکھتا بھی ہے اور بھرتا بھی نہیں۔ اُن کے دور میں دہلی کا عجیب حال تھا۔ پورے ملک پر راج کرنے کے خواہش مند طالع آزما اچھی خاصی طاقت جمع کرکے آتے تھے اور اچھا خاصا ہنستا بستا شہر دیکھتے ہی دیکھتے اُجڑ جاتا تھا۔ یہ سب کچھ دیکھ کر ہی خواجہ میر دردؔ نے کہا تھا: ؎
زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے
ہم تو اس جینے ہاتھوں مر چلے
یہ سلسلہ تب سے اب تک جاری ہے‘ بلکہ اب تو مزید شدت اختیار کرگیا ہے۔ آج کے شعراء بھی یہ کہنے میں بخل سے کام لیتے ہیں ‘نہ تاخیر سے کہ ہم ایک پُرفتن عہد میں جی رہے ہیں۔ اس عہد میں قدم قدم پر فِتنے ہیں‘ ہنگامے ہیں۔ ایسے ماحول میں ڈھنگ سے جینے کی خواہش کو عملی جامہ پہنانا کمالِ فن سے کم نہیں ہے۔
ہر عہد اپنے ساتھ بہت سے آشوب لے کر آتا ہے۔ اور ہر آشوب کے بطن میں کچھ نہ کچھ خوش بختی بھی پنہاں ہوتی ہے۔ یہ اپنی اپنی فہم کا معاملہ ہے۔ کچھ اس میں حوصلے کو بھی دخل ہے۔ زندگی کے دامن میں بہت کچھ ہوتا ہے۔ اور یہ سب کچھ ہمیں سمجھنا‘ پرکھنا اور برتنا ہوتا ہے۔ خاصی چھان پھٹک کے بعد ہمیں وہ مل پاتا ہے‘ جو ہماری ضرورت اور مزاج کے مطابق ہو۔ اپنی اصل کے اعتبار سے زندگی کسی کے لیے آسان نہیں ہوتی اور ایسا بھی نہیں ہے کہ وہ لازمی طور پر مشکل ہی ہوتی ہے۔ یہ تو اپنی اپنی توفیق پر منحصر ہے کہ گنتی کی چند سانسوں کو ڈھنگ سے استعمال کرکے بامقصد زندگی میں تبدیل کیا جائے یا پھر مِٹی میں ملادیا جائے۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ زندگی سب کے حصے میں تھوڑی بہت الجھنیں اور تھوڑی بہت خوشیاں لکھتی ہے۔ جب ہم الجھنوںسے نمٹنے پر متوجہ نہیں ہوتے ‘تب خوشیوں کی تاثیر کم ہوتی چلی جاتی ہے۔ اسی طور جب ہم الجھنوں سے نمٹنے کے لیے کماحقہ محنت کرتے ہیں ‘تب خوشیوں کے تاثر و تاثیر کا دائرہ وسعت اختیار کر جاتا ہے۔
زندگی کے دامن سے ہمیں کیا ملتا ہے؟ اس کا مدار بہت حد تک اس امر پر بھی ہے کہ ہم میں حسّاسیت کس حد یا سطح تک ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ کسی معاملے میں آپ فوراً جذباتی ہو اُٹھتے ہیں جبکہ بہت سے لوگ ایسے کسی بھی معاملے میں ذرا بھی جذباتی نہیں ہوتے اور پُرسکون رہتے ہوئے کام کرتے رہتے ہیں‘ اسی طور بعض معاملات کا آپ پر ذرا بھی اثر نہیں ہوتا‘ مگر بہت سے لوگ ہتھے سے اکھڑ جاتے ہیں‘ آن کی آن میں آپے سے باہر ہو جاتے ہیں۔ دنیا بھر میں ایسے لوگوں کی تعداد غیر معمولی طور پر زیادہ ہے‘ جو معاملات کو منفی طرزِ فکر کے ساتھ قبول کرتے ہیں۔ ایسے لوگ ہر ایسی ویسی بات پر پریشان ہونے کو اپنے لیے فرائض کے شمار میں رکھتے ہیں۔ کوئی لاکھ سمجھائے‘ انہیں صرف اس بات سے غرض ہوتی ہے کہ بات بات پر پریشان ہوکر خود بھی ہلکان ہوں اور دوسروں کو بھی ہلکان کریں: ؎
قدم قدم کوئی لغزش‘ نظر نظر وحشت
نَفَس نَفَس کوئی الجھن‘ یہ کیا تماشا ہے!
فکر و عمل کی یہ عمومی روش ہے۔ اپنے وجود پر یقین کی کمی اِس بات سے بھی مترشّح ہوتی ہے کہ انسان معمول سے ہٹ کر ہونے والی ہر بات کو شِدّت سے محسوس کرے اور اپنے دل و دماغ پر غیر معمولی بوجھ لاد لے‘ اگر ہم یہ طے کرلیں کہ زندگی مشکل ہے ‘تو پھر زندگی مشکل ہی ثابت ہوتی ہے۔ اور اگر سوچ لیاجائے کہ زندگی کی ہر عطا کو خوش دِلی سے قبول کیا جائے گا تو پھر قدم قدم پر آسانیاں ہماری راہ تکتی ہیں۔ زندگی اپنی اصل میں کچھ بھی نہیں ہوتی۔ یہ وہی ہوتی ہے ‘جو ہم اسے بناتے ہیں۔
ہر قدم پر کسی لغزش کا رونا روتے رہنے سے لوگ رفتہ رفتہ آپ کی ذہنی ساخت اور نوعیت کو سمجھنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور پھر آپ کے بارے میں مثبت سوچ رکھنے والوں کی تعداد گھٹتی چلی جاتی ہے۔ ہر نظر میں وحشت کا سامان کرنا کسی بھی اعتبار سے قرینِ دانش نہیں۔ زندگی ہم سے ہر معاملے میں متوازن اور معتدل طرزِ فکر و عمل کا تقاضا کرتی ہے۔ اگر ہم پہلے سے طے کرلیں کہ ہر معاملے میں صرف منفی پہلو دیکھنا ہے تو ہر طرف منفی فکر و عمل ہی کا نظارہ ہوگا۔
کچھ لوگوں کو عادت سی پڑ جاتی ہے کہ آتی جاتی سانس کو صرف اور صرف الجھن سے آلودہ کرتے رہیے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ عادت ایسی پختہ ہو جاتی ہے کہ انسان الجھے رہنے میں راحت محسوس کرنے لگتا ہے! ذہنی ساخت کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہ اپنے ماحول سے مطابقت پیدا کرنے کے بعد اچھے اور بُرے میں تمیز کے شعور سے لاتعلق اور بے نیاز سی ہو جاتی ہے۔ اگر ذہن کو ڈھیلا چھوڑ دیجیے تو یہ ماحول میں رونما ہونے والی ہر مشکل کو محسوس اور قبول کرتا جاتا ہے۔ مسائل کو حل کرنے والے معاملات کی طرف ذہن مشکل سے متوجہ ہوتا ہے‘ کیونکہ اس میں محنت لگتی ہے۔بقول غالبؔ:؎
جانتا ہوں ثوابِ طاعت و زہد
پر طبیعت اِدھر نہیں آتی!
فی زمانہ ایک بنیادی مسئلہ اپنے آپ کو مزاج اور فکر و عمل کے اعتبار سے متوازن رکھنا بھی ہے۔ آج ہر انسان کے لیے لازم ہوگیا ہے کہ زندگی کو عدم توازن سے دوچار کرنے والی ہر بات سے دامن بچائے۔ یہ ایسا آسان نہیں کہ سوچ لیا اور ہوگیا۔ جو لوگ ارادہ کرلیتے ہیں کہ زندگی کو متوازن رکھیں گے‘ وہ اس حوالے سے ذہن سازی بھی کرتے ہیں۔ بامقصد زندگی بسر کرنے کے لیے فکری ساخت کو ہر طرح کی ٹیڑھ سے بچانا پڑتا ہے۔ مزاج کی نوعیت فکری ساخت پر وسیع اور شدید اثرات مرتب کرتی ہے۔ انسان جن معاملات کی طرف جھکتا اور جن باتوں سے خوف کھاتا ہے‘ وہ باتیں رفتہ رفتہ پورے وجود پر حاوی ہوتی چلی جاتی ہیں۔ جب ایسا ہوتا ہے‘ تب ہر منفی چیز زندگی میں قدم جماتی جاتی ہے اور ہر مثبت معاملہ رخصت ہونے کو پر تولتا رہتا ہے۔
وقت کا تقاضا ہے کہ شخصی ارتقاء کے حوالے سے زیادہ سے زیادہ پڑھا اور سوچا جائے۔ یہ کسی بھی زاویے سے خود غرضی کے ذیل میں نہیں آتا۔ خود غرضی اور خود شناسی میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ماحول میں فکر و نظر کو الجھانے والی جتنی باتیں ہیں‘ اُن سے فاصلہ رکھتے ہوئے خود کو زیادہ سے زیادہ مثبت رکھنا ہے۔ ایسا کرنا ہر اُس انسان کے لیے لازم ہے ‘جس نے معیاری زندگی بسر کرنے کی ٹھان رکھی ہو۔ اگر اس حوالے سے سنجیدگی اختیار نہ کی جائے ‘تو زندگی تماشے میں تبدیل ہو رہتی ہے۔ زندگی کے پیکیج میں صرف دکھ‘ پریشانیاں اور الجھنیں نہیں ہیں۔ اس میں اور بھی بہت کچھ ہے ‘مگر تماشا یہ ہے کہ لوگ ہر چھوٹی سی بات پر پریشان ہونے کا فرض سمجھتے ہیں اور زندگی کے پیکیج میں اپنے وجود کی تسلّی و تشفّی کے لیے قدرت کی طرف سے رکھی جانے والی بیش بہا نعمتوں کو تلاش کرنے پر متوجہ نہیں ہوتے۔