"MIK" (space) message & send to 7575

دل بڑا ہونا چاہیے !

حالات کی چکی میں پسنے والے انسانوں کے لیے ہر لمحہ ایک مسئلہ ہوا کرتا ہے۔ دنیا میں ایسے افراد کروڑوں نہیں‘ اربوں ہیں‘ جن کے لیے زندگی سراسر آزمائش ہے۔ قدم قدم پر حوصلہ ٹوٹ ٹوٹ جاتا ہے‘ مگر یہ لوگ پھر کھڑے ہو جاتے ہیں اور ڈٹ کر چلنے لگتے ہیں۔ انتہائی بنیادی مسائل تمام معاشروں میں یکساں نوعیت کے ہیں‘ کچھ خاص فرق نہیں پایا جاتا۔ انتہائی نوعیت کی مشکلات سے دوچار افراد کے درد کو سمجھنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ اس طرف متوجہ ہونا پڑتا ہے‘ دل کو درد آشنا کرنا پڑتا ہے۔ کسی کے درد کو محسوس کرکے اُس کی مدد کے لیے بڑھنے کا وصف اللہ کی خاص عطا ہے اور اُسی کو عطا ہوتا ہے ‘جس کا دل‘ رضائے ربانی کے حصول کی خاطر‘ اِس طرف جھکے۔ ممبئی کی اشونی شینائے شاہ اور اس کے شوہر نے خدمت کی ایک انوکھی مثال قائم کی ہے۔ دونوں نے ایم بی اے کیا ہے اور دونوں کو اچھی جاب ملی ہے۔ اس کے باوجود وہ روزانہ کاندیولی ریلوے سٹیشن کے باہر فاسٹ فوڈ کا سٹال لگاتے ہیں اور وہاں چار گھنٹے گزارنے ‘یعنی مال فروخت کرنے کے بعد آفس روانہ ہوتے ہیں۔ جب اچھی جابز ملی ہوئی ہیں‘ تو اشونی شینائے شاہ اور اس کے شوہر کو فاسٹ فوڈ کا سٹال لگانے کی کیا ضرورت ہے؟
بات کچھ یوں ہے کہ اِن کی گھریلو ملازمہ بوڑھی ہے۔ خاتون کا شوہر فالج زدہ ہے۔ کوئی بیٹا نہیں‘ جو کمائے اور بڑھاپے میں والدین کو سکون کا سانس لینے کا موقع فراہم کرے۔ اشونی اور اس کا شوہر اپنی ملازمہ کے تیار کیے ہوئے فوڈ آئٹم کاندیولی ریلوے سٹیشن کے باہر قائم سٹال پر بیچتے ہیں اور جو کچھ بھی یافت ہوتی ہے ‘وہ ملازمہ کے حوالے کردیتے ہیں‘ تاکہ وہ گھر بھی چلائے اور شوہر کا علاج بھی کرائے۔ 
ہر معاشرے میں بے اولاد بوڑھے جوڑے ایسی تعداد میں ہوتے ہیں‘ جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ کوئی کمانے والا نہ ہو تو دو وقت کی روٹی ڈھنگ سے کھا پانا جُوئے شیر لانے کے مترادف ہو جاتا ہے۔ ایسے لوگ زندگی کی ہر نعمت کو ترستے رہتے ہیں۔ ترقی یافتہ معاشروں میں کیفیت بہت بہتر ہے ‘کیونکہ سوشل سکیورٹی سسٹم کے تحت بے اولاد و بے سہارا بوڑھے جوڑوں کو کچھ نہ کچھ مل ہی جاتا ہے‘ جس سے وہ عزت کے ساتھ اور ڈھنگ سے جی لیتے ہیں۔ 
ایشیا اور افریقا کے بیشتر معاشروں میں پس ماندگی کا یہ عالم ہے کہ عام‘ یعنی درمیانی عمر کے افراد کے لیے ڈھنگ سے جینا انتہائی دشوار ثابت ہوتا ہے۔ ایسے میں بے اولاد و بے سہارا بوڑھے جوڑوں کی مشکلات کا اندازہ لگانا ذرا بھی دشوار نہیں۔ ایسے لوگ دو وقت کی روٹی کا اہتمام کرنے ہی میں خرچ ہو جاتے ہیں۔ ایسے میں آسائشوں کا تو سوچا بھی نہیں جاسکتا۔ بھارت جیسے انتہائی منقسم معاشرے میں دوسروں کا درد رکھنے والے خال خال ہیں۔ دین دھرم کی باتیں تو بہت کی جاتی ہیں‘ مگر جب غریبوں کی مدد کرنے کا سوال آتا ہے تو جیب ڈھیلی کرنے والے چند ایک ہی سامنے آتے ہیں۔ ایسے میں اشونی شاہ اور اُس کے شوہر کے جذبے کو سراہے بغیر نہیں رہا جاسکتا۔ 
ہمارے ہاں بھی کمزور مالی حیثیت والے بوڑھے جوڑے خاصی معقول تعداد میں ہیں۔ پریشانی صرف بے اولاد جوڑوں کے لیے نہیں ہوتی۔ اگر کسی کی تین چار بیٹیاں ہوں تو وہ اُن کے گھر بسانے ہی میں خرچ ہو جاتا ہے اور جب عمر کا آخری مرحلہ آتا ہے تو اُن کا ساتھ دینے والا کوئی نہیں ہوتا۔ بے اولاد اور اولادِ نرینہ سے محروم جوڑوں کا درد یکساں ہے۔ گھروں میں کام کرنے والی بہت سی ملازمائیں بوڑھی ہوتی ہیں۔ آرام کے دنوں میں بھی اُنہیں کام کرنا پڑتا ہے۔ بہت سے لوگ بڑی عمر کی خواتین کو کام پر رکھنے سے کتراتے ہیں۔ اس کا ایک سبب تو یہ ہے کہ عمر زائد ہونے کے باعث اُن سے کام نہیں ہو پاتا اور دوسرا بڑا سبب یہ ہے کہ خاصی بڑی عمر کی خاتون سے گھر کے کام کرانے میں شرم سی محسوس ہوتی ہے۔ 
پاکستانی معاشرہ اس اعتبار سے منفرد ہے کہ یہاں رب کی خوشنودی کے حصول کی خاطر نادار افراد کی مدد کرنے والوں کی تعداد اچھی خاصی ہے۔ لوگ کسی نہ کسی شکل میں خیرات دینا‘ بلکہ دیتے رہنا پسند کرتے ہیں۔ بہت سے لوگ یومیہ بنیاد پر غریبوں کی مدد کرتے ہیں‘ یعنی جو مانگنے والا دکھائی دے‘ اُسے کچھ نہ کچھ دیتے ہیں۔ کچھ لوگ ماہانہ بنیاد پر مدد کرنے کا طریقہ اختیار کرتے ہیں۔ سالانہ بنیاد پر مدد کرنے کا طریقہ بھی اختیار کیا جاتا ہے۔ اس صورت میں زکوٰۃ اور خُمس وغیرہ کی مد میں رقم نکال کر غریبوں میں تقسیم کی جاتی ہے۔ انتہائی کمزور مالی حیثیت کے حامل بوڑھے جوڑوں کی مدد کرنا ہماری ترجیحات میں سرفہرست ہونا چاہیے۔ جن کی آمدن کا کوئی ذریعہ نہیں ‘اُن کی مشکلات کا ادراک و احساس لازم ہے‘ تاکہ وہ بھی ڈھنگ سے‘ کم از کم مطلوبہ اشیاء و خدمات کے ساتھ جی سکیں‘مگر خیر‘ یہ سب کچھ محض کہنے سے نہیں ہوسکتا۔ کہنے اور کرنے کے درمیان وسیع خلیج پائی جاتی ہے جسے پاٹنا لازم ہے۔ 
کراچی‘ حیدر آباد‘ سکھر‘ ملتان‘ لاہور‘ راولپنڈی‘ پشاور اور دیگر بڑے شہروں میں ایسے بوڑھے جوڑوں کی کمی نہیں‘ جو بے اولاد یا اولادِ نرینہ سے محروم رہ جانے کے باعث عمر کے آخری حصے میں شدید مشکلات سے دوچار ہوتے ہیں۔ کوئی کمانے والا نہ ہونے کے باعث ایسے لوگوں کو آخر تک کمانا پڑتا ہے ‘تاکہ کسی نہ کسی طور عزت کے ساتھ دو وقت کی روٹی کا اہتمام کرسکیں۔ دیہی معاشرے میں تو کسی نہ کسی طور گزارا ہو ہی جاتا ہے۔ شہروں میں معاملہ مختلف ہوتا ہے۔ اگر مکان کرائے کا ہو تو کمزور مالی حیثیت کے حامل بوڑھے جوڑوں کے لیے سانسوں کا تسلسل برقرار رکھنا بھی زندگی کا سب سے بڑا چیلنج بن جاتا ہے۔ یہ امر بہت خوش آئند ہے کہ ہمارے معاشرے میں خیراتی اور امدادی ادارے بڑی تعداد میں موجود ہیں‘ جو نادار افرادکی مدد کرنے میں تاخیر و تساہل سے کام نہیں لیتے۔ بہت سے لوگ سفید پوشی کا بھرم برقرار رکھنے کے لیے خیراتی اداروں سے رابطہ کرنے میں شدید ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو عمر کے آخری حصے میں سکون کا سانس لینے کا موقع فراہم کرنے ایک طریقہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مستحکم مالی حیثیت کے حامل اُنہیں adopt کرلیں۔ لوئر مڈل کلاس طبقے سے تعلق رکھنے والے تین چار افراد مل کر ایسے کسی بھی جوڑے کو یوں اپناسکتے ہیں کہ کوئی راشن وغیرہ ڈلوانے کی ذمہ داری اپنے سر لے‘ کوئی یوٹیلٹی کے بل دے دے‘ کوئی چائے وغیرہ کا خرچ برداشت کرے اور کوئی سالانہ بنیاد پر کپڑوں اور دیگر ضرورتوں کا خیال رکھے۔ ایسی صورت میں کسی پر زیادہ بوجھ بھی نہیں پڑے گا اور ایک بے سہارا بوڑھا جوڑا عمر کے آخری حصے میں کچھ راحت بھی محسوس کرے گا۔ 
ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ بہت بڑی عمر کی خواتین سے گھریلو خادمہ کی حیثیت سے کام نہ لیں ‘بلکہ اُنہیں ایک طرف بٹھاکر اتنا کچھ کردیں کہ اُنہیں کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلانا پڑے۔ یہ کام مشکل دکھائی دیتا ہے‘ مگر کچھ زیادہ مشکل ہے نہیں۔ ہم سب یہ اپنے اپنے طور پر یہ کام بااحسن کرسکتے ہیں۔ سوال صرف کسی کے حقیقی درد کو محسوس کرنے کا ہے۔ جو شدید مشکلات کے باوجود غیرت کے مارے ہاتھ بھی نہیں پھیلا سکتے‘ اُن کی خبر گیری اور مدد ہمارے لیے اولین ترجیح کا حامل فریضہ ہونا چاہیے۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں