بہت کچھ ہے ‘جو آپ کرنا چاہتے ہیں۔ ہر انسان اپنی تمام صلاحیتوں اور سکت کو بروئے کار لاکر کچھ ایسا کرنا چاہتا ہے‘ جسے دیکھ کر دنیا اُسے خوب سراہے۔ یہ خواہش کم و بیش ہر انسان کے دل میں ہوتی ہے کہ اُسے یاد رکھا جائے‘ جو واقعی یہ چاہتا ہے کہ اُسے یاد رکھا جائے‘ اُسے کچھ کرنا بھی تو چاہیے۔ اپنے ماحول ہی پر نظر دوڑائیے تو اندازہ ہوگا کہ لوگ بہت کچھ کرنے کی تگ و دَو میں مصروف رہتے ہیں ‘تاکہ لوگ متوجہ ہوں‘ سراہیں اور یاد رکھیں اور آپ بھی اُنہی کو یاد رکھتے ہیں ‘جو کچھ کرتے ہیں۔
اب‘ سوال یہ ہے کہ نام زندہ رکھنے کے لیے کوئی کیا کرے اور کیسے کرے؟ کرنے کو بہت کچھ ہے‘ مگر یہ بہرحال طے کرنا پڑتا ہے کہ کرنا کیا ہے۔ جو لوگ منصوبہ بندی کے بغیر کچھ کرنے نکل کھڑے ہوتے ہیں ‘وہ عموماً کچھ نہیں کر پاتے۔ کسی بھی بڑے کام کو کرنے کے لیے ذہن کا واضح ہونا انتہائی لازم ہے۔
شخصی ارتقاء کے حوالے سے ایک بنیادی تقاضا اہداف کا تعین ہے۔ ہر انسان بہت کچھ کرنا چاہتا ہے۔ وہ معاشرے میں جو بھی اہم کام دیکھتا ہے‘ اُسے کرنے کو بے تاب ہو جاتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہر انسان سب کچھ تو کیا‘ بہت کچھ بھی نہیں کرسکتا۔ ہر انسان محدود صلاحیتوں اور محدود تر سکت کا حامل ہے۔ وہ اپنے وجود کو متوازن رکھتے ہوئے ایک خاص حد تک ہی جاسکتا ہے۔ ایسے میں اہداف کا تعین غیر معمولی اہمیت اختیار کر جاتا ہے۔
آپ نے بھی بہت کچھ سوچ رکھا ہوگا۔ محض سوچ لینے سے کچھ نہیں ہوتا۔ سوچنے سے انسان کو تحریک ضرور ملتی ہے۔ بہت کچھ کر گزرنے کی خواہش اور کوشش ہر انسان کا معاملہ ہے‘ مگر کچھ کرنا اُسی وقت ممکن ہوتا ہے‘ جب ہم اپنے لیے اہداف کا تعین کرتے ہیں۔ اہداف کا تعین انتہائی اہم اور توجہ طلب مرحلہ ہے۔ کسی بھی کامیاب انسان کے حالاتِ زندگی کا مطالعہ کیجیے تو اندازہ ہوگا کہ اُس نے جو کچھ بھی پایا ہے‘ وہ random سوچ کا نتیجہ نہیں‘ بلکہ غیر معمولی اور دانش مندانہ منصوبہ بندی کا ثمر ہے۔ سوچے سمجھے بغیر بسر کی جانے والی زندگی زیادہ یا مطلوب حد تک بارآور نہیں ہوتی۔ زندگی کو بارآور بنانے پر بہت محنت کرنا پڑتی ہے اور یہ نکتہ بھی ذہن نشین رہے کہ اہداف کا تعین کیے بغیر کی جانے والی محنت منفعت بخش نتائج سے کہیں بڑھ کر مسائل ہی پیدا کرتی ہے۔
بہت سے لوگ چند ایک اہداف متعین کرکے بھرپور کامیابی تک لے جانے والی شاہراہ پر سفر شروع کرتے ہیں۔ یہ اچھی بات ہے کہ انسان سفر شروع کرے مگر زیادہ اہم یہ ہے کہ سفر جاری رکھا جائے‘ جو لوگ مستقل مزاجی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سفر جاری رکھتے ہیں ‘وہ ایک نہ ایک دن منزل تک پہنچ کر دم لیتے ہیں‘ یہ سفر حقیقی مفہوم میں بارآور اُسی وقت ثابت ہوسکتا ہے ‘جب اہداف معقولیت سے ہم کنار اور مطابقت کے حامل ہوں۔
بھرپور کامیابی کے لیے متعین کیے جانے والے اہداف ہر اعتبار سے موزوں اور صورتِ حال کے مطابق ہونے چاہئیں۔ اہداف کے تعین میں متعلقہ فرد کی صلاحیت اور سکت بھی ذہن نشین رکھی جانی چاہیے۔ غیر حقیقت پسندانہ ‘یعنی صلاحیت و سکت سے کہیں بڑھ کر اہداف کا تعین انسان کو الجھنوں سے دوچار کرتا ہے۔
بہت سے لوگ اہداف کے تعین کے معاملے میں ضرورت سے زیادہ احتیاط برتتے ہیں اور ایسے اہداف متعین کرتے ہیں‘ جن کا کسی بھی اعتبار سے کوئی خطرناک پہلو نہیں ہوتا۔ یہ بھی خاصی ''خطرناک‘‘ بات ہے!
بھرپور کامیابی کی خواہش رکھنے والے کسی بھی فرد نے اپنے لیے جو اہداف متعین کیے ہوں‘ وہ ایسے ہونے چاہئیں ‘جن سے بہت کچھ کرنے کی تحریک ملتی ہو۔ کوئی بھی ہدف ایسا آسان نہیں ہونا چاہیے کہ جس کا حصول یقینی بنانے کے لیے کچھ خاص تگ و دَو کی ضرورت محسوس نہ ہوتی ہو۔
فقید المثال نوعیت کی کارکردگی یقینی بنانے کے لیے اہداف تھوڑے بہت ''ڈراؤنے‘‘ ہونے چاہئیں! ہر وہ ہدف واقعی ہدف ہے‘ جو ایک خاص حد تک خوف میں مبتلا رکھتا ہو۔ آسان اہداف ہمارے معمولات میں کوئی ہلچل پیدا کرتے ہیں ‘نہ زندگی میں۔ اگر ہمارا متعین کردہ کوئی ہدف ہمیں کسی بھی طرح کی پریشانی سے دوچار نہیں کرتا‘ الجھن محسوس کرنے پر مجبور نہیں کرتا‘ کچھ زیادہ کام کرنے کی تحریک نہیں دیتا تو سمجھ لینا چاہیے کہ اُس میں زیادہ دم نہیں۔
گزارے کی سطح پر زندگی بسر کرنا کسی بھی انسان کے لیے کوئی بہت مشکل کام نہیں۔ زندہ رہنے کے لیے جس قدر کمانا ضروری ہو اُتنا تو انسان کسی نہ کسی طور کما ہی لیتا ہے۔ ہاں‘ الگ سے یا دوسروں سے بڑھ کر کچھ کر دکھانے کے لیے ہاتھ پاؤں مارنا پڑتے ہیں۔ زندگی کے نام پر یہ پورا کھیل کچھ زیادہ پانے کی جدوجہد ہی سے تو عبارت ہے۔
آپ نے جو اہداف متعین کیے ہیں‘ وہ اگر آپ کو خوفزدہ نہیں کرتے‘ جاگنے پر مجبور نہیں کرتے‘ کچھ نیا اور اچھوتا کرنے کی تحریک نہیں دیتے تو جان لیجیے کہ وہ آپ کے لیے کسی کام کے نہیں۔ ایسے اہداف کا حصول کسی بھی قابلِ ذکر تبدیلی کی راہ ہموار نہیں کرسکتا۔ اگر کسی نے طے کیا ہے کہ اس دنیا میں کچھ کرکے جانا ہے‘ تو اُس کے معمولات سے یہ بات صاف جھلکنی چاہیے۔ غیر معمولی کامیابی ہم سے غیر معمولی سطح کی محنت بھی تو طلب کرتی ہے۔ اور اس سے پہلے انسان کو بہت کچھ حاصل کرنا پڑتا ہے‘ تیاری کے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ صلاحیت اور سکت کو پروان چڑھانا‘ ہر اس انسان کے لیے لازم ہے‘ جو کچھ کر دکھانا‘ کچھ زیادہ پانا چاہتا ہے۔
یہ دنیا اگر احترام کرتی ہے‘ تو اُن کا جو زمین پر رہتے ہوئے ستاروں پر کمندیں ڈالنے کی تیاری کرتے رہتے ہیں۔ بہت سے لوگ خود کچھ نہیں کر پاتے تو دوسروں کو کامیاب دیکھ کر ان کی کارکردگی کو اپنے خوابوں کی تعبیر جان کر خوش ہولیتے ہیں۔ یہ دنیا ہر اُس انسان کو بہت کچھ دیتی ہے ‘جو بہت کچھ پانے کی حقیقی خواہش کو پروان چڑھاتا ہے اور اس حوالے سے بھرپور تیاری کرتا ہے۔
کچھ زیادہ کرنے‘ کچھ بننے اور کچھ کر دکھانے کے لیے بڑی سوچ اپنانا پڑتی ہے یا پھر اپنی سوچ کو بڑا بنانا پڑتا ہے۔ بڑی سوچ اُس وقت پیدا ہوتی ہے جب انسان دوسروں کی بھرپور کامیابی سے تحریک پاکر الگ سے کچھ کرنے کی ٹھان لیتا ہے۔ بھرپور کامیابی کی ٹھان لینے کے بعد تیاری کا مرحلہ آتا ہے۔ یہ تیاری انسان کو بدل ڈالتی ہے۔ ہدف بڑا ہو تو انسان دن رات اُس کے بارے میں سوچتا اور تیاری کی سطح بلند کرنے کے حوالے سے فکر مند رہتا ہے۔ بڑا ہدف ہی انسان کو کچھ کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ بھرپور کامیابی انسان کو نچوڑ لیتی ہے۔ یہ فطری امر ہے‘ قدرت کا طے کردہ اصول ہے۔ ہر انسان کو محنت کے مطابق ہی کامیابی ملتی ہے۔ کبھی کبھی حالات کی مہربانی سے بھی کچھ مل جاتا ہے ‘مگر اُس پر نازاں ہونے کی بجائے اس نکتے پر غور کرنا چاہیے کہ کبھی کبھی حالات کے پلٹ جانے پر بہت کچھ ہاتھ سے جاتا بھی تو رہتا ہے۔
یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ بڑی سوچ بڑی کامیابی یقینی بناتی ہے۔ بڑی سوچ ہی بڑے اہداف متعین کرنے کا حوصلہ بخشتی ہے اور بڑے اہداف زیادہ اور بہتر انداز سے کام کرنے کی تحریک دیتے ہیں۔