چینی صدر شی جن پنگ نے امریکا پر واضح کیا ہے کہ چین تجارتی قضیے کا حل تو چاہتا ہے‘ مگر اسے اُس کی کمزوری نہ سمجھا جائے۔ چین جب بھی ضرورت محسوس کرے گا‘ تب معاشی اور مالیاتی اصلاحات متعارف کرائے گا‘ تاہم وہ ایسا اپنی مرضی کی رفتار کے مطابق کرے گا۔ بیجنگ میں بلوم برگ کے تحت ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے شی جن پنگ نے کہا ''چین پُرسکون اور پُرامن رہتے ہوئے ترقی کرنا چاہتا ہے۔ وہ مغربی طاقتوں کا پیدا کردہ نو آبادیاتی دور واپس نہیں لانا چاہتا! چین اپنے ہر خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے کے لیے بہت کچھ کر رہا ہے‘ تاہم یہ سب کچھ کسی کے خلاف نہیں‘ بلکہ چین کے مفادات کو مستحکم کرنے سے متعلق ہے۔‘‘
امریکی صدر ٹرمپ کو بہت جلد شروع ہونے والی انتخابی مہم کے لیے چند ایک غیر معمولی باتیں درکار ہیں۔ وہ قوم کو یقین دلانا چاہتے ہیں کہ وہ تجارتی جنگ میں چین کو محض شکست دینے میں نہیں ‘بلکہ اپنے قدموں میں جھکانے میں بھی کامیاب ہوگئے ہیں۔ یہ خالصاً ذاتی مفاد کا معاملہ ہے۔ وہ اب تک یہ دعویٰ کرتے آئے ہیں کہ چین کو ''کٹ ٹو سائز‘‘ کی منزل تک لے آئیں گے۔ یہ سب کچھ کیسے ہوگا‘ اِس کی وضاحت اُنہوں نے نہیں کی۔ کر بھی کیسے سکتے ہیں؟ چین کوئی بکری کا بچہ تو ہے نہیں کہ دوڑے اور پکڑ لیا اور پھر دنیا کی امامت کے لیے آگے تو وہ آئے‘ جس نے اِس منصب کا حق ادا کرنے پر متوجہ دی ہو۔ امریکا اور یورپ نے ڈھائی تین سو سال کے دوران دنیا پر حکمرانی کی ہے اور اصول‘ اخلاق اور انصاف پر صرف اور صرف اپنے مفادات کو ترجیح دی ہے۔ کئی خطوں کو تاراج کرکے اُنہوں نے اپنے ہاں ''ارضی جنتیں‘‘ کھڑی کی ہیں۔ یورپ کے بہت سے ممالک آج فلاحی ریاست کا درجہ رکھتے ہیں ‘مگر اِنہی ممالک نے دو تین صدیوں کے دوران دور افتادہ‘ پس ماندہ خطوں کے ساتھ جو کچھ کیا ہے کیا وہ آسانی سے بھلادیا جائے گا یا معاف کردیا جائے گا؟
خیر‘ یہ بحث پھر کبھی سہی۔ یہاں معاملہ یہ ہے کہ صدر ٹرمپ چین کو ''اوقات کے دائرے‘‘ میں رکھنا چاہتے ہیں۔ اس حوالے سے ناکامی کی صورت میں اُن کا اپنا منصب ہی خطرے میں نہیں پڑے گا ‘بلکہ عالمی سیاست و معیشت میں بھی غیر معمولی گڑبڑ پیدا ہوگی۔ امریکا چین تجارتی قضیے سے بھارت کے پالیسی میکرز بہت خوش تھے۔ اُنہیں یقین تھا کہ یہ قضیہ بھارتی سیاست و معیشت کے لیے لاٹری کے انعام جیسا ثابت ہوگا اور راتوں رات بہت کچھ موافق ہو جائے گا۔ ایسا نہ ہوسکا۔ ہوتا بھی کیسے؟ کسی بھی قضیے سے مستفید ہونے کے لیے منصوبہ سازی تو بہرحال کرنا پڑتی ہے۔ ایسے معاملات میں کچھ ہوتا نہیں‘ کرنا پڑتا ہے۔
امریکا کا معاملہ یہ ہے کہ وہ بہت سے معاملات میں بھارت کو روک تو نہیں سکتا مگر مشورے دینے اور انتباہ کرنے سے باز نہیں آتا۔ مثلاً بھارت نے روس سے S-400 میزائل سسٹم خریدنے کا معاہدہ کیا ہے ‘جو 5 ارب ڈالر سے زیادہ کا ہے۔ بھارت کو ایسے 5 سسٹم ملیں گے۔ اب ‘صدر ٹرمپ بھارت سے کہہ رہے ہیں کہ بے شک روس سے میزائل سسٹم لے‘ مگر اس بات کو بھی یقینی بنائے کہ جدید ترین دفاعی ٹیکنالوجی اِدھر سے اُدھر نہ ہو! یہ معاملہ خالصاً دو ممالک کے درمیان ہے۔ ایسے میں امریکی صدر کو اِتنا سوچنے اور بولنے کی کیا ضرورت ہے؟ امریکی صدر نے چینی ہم منصب کو جو انتباہ کیا ہے اُس کے حوالے سے بھارت میں اخباری قارئین کا ردعمل بھی خوب‘ بروقت اور بھرپور ہے۔ ٹائمز آف انڈیا کی ویب سائٹ پر ''رئیل انڈینز‘‘ نے لکھا ''بھارتی باشندے اپنے گوری چمڑے والے آقا ٹرمپ کی حمایت میں نعرے لگاتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ چین سے تجارتی قضیے میں امریکا کو جو نقصان پہنچا ہے اُس سے زیادہ نقصان کا سامنا بھارت کو کرنا پڑا ہے کیونکہ امریکی معیشت کی سُست روی سے بھارت میں لاکھوں ملازمتیں خطرے میں پڑگئی ہیں۔‘‘
''سنمیش‘‘ نے لکھا ''بی جے پی نے خام قومی پیداوار (جی ڈی پی) کی شرح کو بلند کرنا بچوں کا کھیل سمجھ لیا ہے کہ بیس ایئر تبدیل کیا اور کام ہوگیا! ہاں‘ ایسے آسان کام تو بی جے پی کا آئی ٹی سیل کر ہی سکتا ہے۔ اِس بات پر کوئی غور نہیں کر رہا کہ ایک سال سے بھی زائد مدت کے دوران اسٹاک مارکیٹ کمزور تر ہوتی گئی ہے اور عوام کو سیکڑوں ارب ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑاہے۔‘‘ امریکی قیادت کے پیٹ میں پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے حوالے سے بھی مروڑ اٹھ رہے ہیں۔ پاکستان کو مشورہ دیا جارہا ہے کہ چینی قیادت سے زیادہ سے زیادہ فوائد حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ ساتھ ہی ساتھ امریکا نے چین پر سی پیک سے جُڑے ہوئے منصوبوں میں کرپشن کا الزام لگاکر معاملات کو الجھانے کی اپنی سی کوشش بھی کی ہے۔ چین نے وضاحت کی ہے کہ کسی بھی منصوبے میں کسی بھی سطح پر کرپشن نہیں پائی جاتی۔ چین کے سفیر واؤ جنگ نے اسلام آباد میں پاک چائنا انسٹی ٹیوٹ کے تحت پانچویں سی پیک میڈیا فورم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امریکا کو اس حوالے سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں‘ چین اپنی ذمہ داری اچھی طرح محسوس کرتا ہے۔ سی پیک کے دوسرے مرحلے میں صنعتوں کو فروغ دینے پر توجہ مرکوز رکھی جائے گی۔
واؤ جنگ کہتے ہیں کہ ریلوے لائن کے تخمینے کے بارے میں امریکی محکمۂ خارجہ کو رائے دینے سے گریز کرنا چاہیے تھا کیونکہ یہ سب کچھ سفارتی آداب کے منافی ہے۔ چینی سفیر نے امریکی نائب وزیر خارجہ ایلس ویلز کا یہ الزام بھی مسترد کردیا کہ سی پیک اتھارٹی کو کرپشن کی تحقیقات کے حوالے سے استثنٰی حاصل ہے۔
یورپ نے دانش مندی کا ثبوت دیتے ہوئے حقیقت پسندی کی راہ پر گامزن رہنے کو ترجیح دی ہے مگر امریکا اب تک عشروں پُرانے مائنڈ سیٹ سے جُڑا ہوا ہے۔ وہ ہر معاملے کو طاقت کے ذریعے درست کرنا چاہتا ہے۔ پہلے مرحلے میں دھونس دھمکی سے کام لیا جاتا ہے۔ بدگمانیاں پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جو ممالک آسانی سے قابو میں نہ آئیں اُن سے بات کرنے کے بجائے عالمی اداروں کے ذریعے پابندیاں لگاکر زیرِ نگیں کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ امریکی پالیسیوں میں اب تک ایسی کوئی تبدیلی دکھائی نہیں دی جو حقیقت پسندی کا مظہر ہو۔ وقت کا تقاضا ہے کہ معاملات کو درست کرنے کے لیے بات چیت اور افہام و تفہیم کی راہ پر گامزن ہوا جائے۔ اور ہو کیا رہا ہے؟ امریکی قیادت نے ہر ابھرتی ہوئی قوت کے مقابل وہی ردعمل ظاہر کرنا شروع کردیا ہے جو دُم پر پاؤں پڑنے کی صورت میں ظاہر کیا جاتا ہے!
امریکا اور ابھرتی ہوئی بڑی طاقتوں کے درمیان مناقشوں کے نتیجے میں چند ایک مواقع بھی پیدا ہوتے ہیں۔ خود کچھ کرنے کے بجائے بھارتی قیادت ایسے مواقع پر جھپٹنے کے لیے بے تاب دکھائی دے رہی ہے۔ چین اور اُس کے ہم خیال ممالک کے درمیان بڑھتے ہوئے روابط نے امریکا کو پریشان کردیا ہے اور بھارت اب تک امریکا کو دیکھ دیکھ کر چل رہا ہے۔ اِس حوالے سے یورپ کی دانش سے بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔ بھارتی قیادت کو اِتنا ضرور سوچنا چاہیے کہ چین اور اُس کے ہم خیال ممالک کے حوالے سے امریکا نے اپنی پالیسیاں تبدیل کرلیں تو بھارت کہاں کھڑا ہوگا۔ کسی بھی ابھرتی ہوئی ریاست کو دھمکاکر ترقی کرنے سے روکا نہیں جاسکتا۔ یہ معاملہ فکر اور پالیسی کے حوالے سے توازن اور استحکام کا طالب ہے۔