"MIK" (space) message & send to 7575

کمرے کا درجۂ حرارت

کامیابی کے لیے لوگ زندگی بھر محنت کرتے ہیں مگر پھر بھی تلخ اور دل خراش حقیقت یہ ہے کہ خواہش اور محنت کے باوجود بہت سے لوگ زندگی بھر کامیاب نہیں ہو پاتے۔ حقیقی کامیابی چند ہی افراد کے حصے میں آتی ہے۔ کبھی آپ نے سوچا ہے کہ ایسا کیوں ہے۔ کامیابی کی راہ پر چلنے والے ہر 100 افراد میں سے 99 چند ہی قدموں پر تھک کر بیٹھ جاتے ہیں۔ دنیا بھر میں بھی بھرپور اور من چاہی کامیابی صرف ایک فیصد کے حصے میں آتی ہے۔ صرف ایک فیصد کے لیے کامیابی اور باقی 99 فیصد کے لیے شدید نوعیت کی ناکامی ... مگر کیوں؟ کیا سبب ہے کہ لوگ کامیابی کی طرف بڑھتے ہیں مگر زیادہ دور تک نہیں چل پاتے؟ کامیابی کی طرف جانے سے روکنے والے عوامل کون کون سے ہیں؟ ہمیں یہ حقیقت کسی بھی مرحلے پر نظر انداز نہیں کرنی چاہیے کہ ہم ایک پس ماندہ معاشرہ ہیں یا پس ماندہ معاشرے کا حصہ ہیں۔ پس ماندہ معاشرے وہ ہیں جن میں کام کرنے کی لگن دم توڑ چکی ہے۔ لوگ زندگی ڈھنگ سے بسر کرنے کے بجائے یونہی جیے جانے پر یقین رکھتے ہیں۔ پاکستانی معاشرے کا عمومی چلن یہ ہے کہ ہر معاملے کو کسی نہ کسی طور نمٹادیا جائے‘ جان چھڑالی جائے۔ 
جہاں کام کرنے کی لگن نہ پائی جاتی ہو وہاں بات بات پر بہانے تراشنے یا ایجاد کرنے کا ''ہنر‘‘ تیزی سے پنپتا ہے۔ آج ہم اس مزاج کے ہوگئے ہیں کہ اپنے حصے کا کوئی بھی کام کسی نہ کسی طور ختم کرکے سکون کا سانس لیا جائے یا پھر کام کو کسی نہ کسی بہانے کی مدد سے ٹال کر فراغت کے لمحات پیدا کیے جائیں۔ حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ جب پورے من سے کام کرنے کی لگن پائی ہی نہیں جاتی تو پھر فراغت کے لمحات پیدا کرنے کی ضرورت کیوں محسوس ہو۔ کچھ نہ کرنے کی صورت میں فراغت تو پہلے ہی بہت ہے۔ پھر مزید فراغت کس لیے؟ 
جو کچھ ہمارے معاشرے میں ہو رہا ہے اُس کے لیے کمرے کے درجۂ حرارت کا اصول ذہن نشین رکھنے کی ضرورت ہے۔ کسی بھی کمرے کا جو بھی درجۂ حرارت ہوتا ہے رفتہ رفتہ تمام چیزیں اُسی کے مطابق ہوتی چلی جاتی ہیں۔ مثلاً اگر کسی کمرے کا درجۂ حرارت 30 سینٹی گریڈ ہو تو وہاں رکھی جانے والی آئس کریم بھی دھیرے دھیرے گرم ہوتی ہوئی اسی درجۂ حرارت پر پہنچ جائے گی۔ اسی طور کمرے میں اگر اُبلتے ہوئے پانی سے بھرا ہوا پتیلا رکھا جائے تو یہ پانی ٹھنڈا ہوتے ہوتے کمرے کے درجۂ حرارت تک پہنچ جائے گا۔ کسی بھی معاشرے میں عمومی مزاج دراصل کمرے کے درجۂ حرارت جیسا ہوتا ہے۔ معاشرے میں بہت سے لوگ مزاجاً غیر معمولی جوش و خروش کے حامل ہوتے ہیں۔ یہ فطری معاملہ رفتہ رفتہ کچھ کا کچھ ہوتا چلا جاتا ہے۔ غیر معمولی جوش و خروش رکھنے والے افراد جب پورے ماحول پر نظر دوڑاتے ہیں تب اُنہیں اندازہ ہوتا ہے کہ زیادہ بھاگ دوڑ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ اس وصف کی کوئی وقعت ہے ہی نہیں۔ وہ جب یہ دیکھتے ہیں کہ بہت کچھ سیکھنے اور اپنے کام میں بھرپور مہارت پیدا کرنے سے کچھ خاص حاصل نہیں ہو پاتا تو ذہن یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ اتنی تگ و دَو کرنے کی ضرورت کیا ہے‘ زندگی تو کسی نہ کسی طور گزر ہی جائے گی۔ ایسے میں زیادہ جان مارنا کہاں سے لازم ٹھہرا؟ 
یہ تو ہوا گرم پانی کا معاملہ۔ دوسری طرف معاشرے کی عمومی روش سے نیچے رہتے ہوئے زندگی بسر کرنے والے تھوڑی سی تحریک پاکر اوپر آتے ہیں۔ ایسے لوگ آئس کریم کا درجہ رکھتے ہیں۔ یہ مزاجاً ٹھنڈے ٹھار ہوتے ہیں۔ یہ جب دیکھتے ہیں کہ معاشرہ اُن کے معیار سے تھوڑا بلند ہے تو اپنے معیار کو تھوڑا سا بلند کرنے پر متوجہ ہوتے ہیں۔ خیر‘ اس بات کا خاص خیال رکھا جاتا ہے کہ بلندی زیادہ نہ ہو۔ جیسے دوسرے ہیں ویسا ہی بننے تک معاملات کو روک دیا جاتا ہے۔ جب ہر طرف معاملات ٹھنڈے ٹھار ہوں تو جن لوگوں میں تھوڑا بہت جوش و خروش پایا جاتا ہے وہ بھی دبک کر گوشہ نشینی اختیار کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ایسے میں ذمہ داری قبول کرنے سے گریز‘ بلکہ فرار ہی کو ''فرمانِ ارض‘‘ کا درجہ حاصل ہو جاتا ہے۔ 
کمرے کے درجۂ حرارت کا اصول جہاں کارفرما ہو وہاں کسی بھی نئی بات کے لیے کم ہی گنجائش نکل پاتی ہے۔ لوگ غیر متعلق باتوں میں اُلجھ کر کام کرنے کی لگن سے محروم ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اہلیت نہ رکھنے والے جب اہم منصب پر دکھائی دیتے ہیں اور کوئی باضابطہ ہنر نہ رکھنے والے بہت کچھ پانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تب اہلیت رکھنے والوں کو اپنا وجود بے معنی سا دکھائی دینے لگتا ہے اور وہ بھی یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ جب سبھی کچھ یونہی چل رہا ہے تو محنت شاقہ کس لیے اور ہر معاملے کو عمدگی سے انجام تک پہنچانے کی فکر کیوں؟ 
جہاں مجموعی طور پر بے رغبتی کا چلن ہو وہاں لوگ اہم ترین معاملات کو نظر انداز کرنے کی روش پر گامزن ہوتے ہیں۔ ہمارے معاشرے کا ایک بنیادی المیہ یہ ہے کہ کسی بھی کام کے لیے مطلوب صلاحیت اور مہارت کا فقدان ہو تب بھی لوگ کسی نہ کسی طور کام نمٹاکر اپنا اُلو سیدھا کرنے میں کامیاب ہو ہی جاتے ہیں۔ زندگی بسر کرنے اور کامیابی حاصل کرنے کا یہ انداز بہت سوں کو عمل کی راہ سے ہٹانے کا سبب بھی بنتا ہے۔ جب انسان پر پورا ماحول بُری طرح اثر انداز ہو رہا ہو تب اپنے وجود اور ترجیحات پر متوجہ ہونے سے اجتناب برتنے کا رجحان تقویت پاتا ہے۔ ہمارے ہاں یہی ہو رہا ہے۔ لوگ معمولات پر تو خیر کیا توجہ دیں گے‘ زندگی کے لیے کوئی بڑا ہدف مقرر کرنے سے بھی گریزاں رہتے ہیں۔ دوسروں کے معاملات کا جمود دیکھ کر اپنا تحرّک بھی ختم ہوتا جاتا ہے۔ 
کمرے کے درجۂ حرارت کا اُصول ہم پر اتنے جوش و خروش سے اطلاق پذیر ہوا ہے کہ اکثریت محض کہنے کی منزل میں رک گئی ہے اور کچھ کرنے سے صاف جی چرا رہی ہے۔ لوگ یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ محض کہہ دینا کافی ہے‘ کرنا لازم نہیں۔ کیا یہ پوری کائنات کا اصول ہے؟ یقیناً نہیں۔ اس کائنات کے خالق نے ہر چیز کے لیے کوئی نہ کوئی عمل مقرر رکھا ہے۔ ہر مخلوق اپنے حصے کا کام کر رہی ہے۔ قدرت نے جو کچھ اصولوں کی شکل میں طے کر رکھا ہے اُس سے گریز اور انحراف ہمارے رگ و پے میں سرایت کرگیا ہے اور اس کا نتیجہ بھی ہم دیکھ اور بھگت رہے ہیں۔ اب ہم زندگی کا رُخ بدلنا چاہتے ہیں نہ سانچہ۔ حقائق سے نظر چرانے کا چلن بھی عام ہے۔ بہتر زندگی کے لیے جو تبدیلیاں ناگزیر ہیں اُن سے ہم حذر کرتے جاتے ہیں۔ یہ بات ہمارے ذہن سے نکل گئی ہے کہ نئے انداز اور نئی زندگی کے لیے ہمیںکچھ نہ کچھ کرنا ہی پڑتا ہے۔ ایسا کیے بغیر چارہ ہے نہ گزارا۔ 
اگر ہم اپنے فکر و عمل کے درجۂ حرارت کو آزاد چھوڑیں گے تو وہ کمرے کے درجۂ حرارت جیسا ہو جائے گا۔ اس کے بعد کسی بھی بڑی اور مثبت تبدیلی کی توقع رکھنا عبث ہے۔ آج ہم ایک ایسے موڑ پر کھڑے ہیں جہاں سے کئی راستے نکل رہے ہیں۔ ان میں خرابی کی طرف لے جانے والے راستوں کی تعداد زیادہ ہے۔ ایسے میں اعلیٰ درجے کی دانش پروان چڑھانا اور اُس کے مطابق اعمال کی تشکیل و تہذیب لازم ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں