"MIK" (space) message & send to 7575

اپنی ذات میں سِمٹنے کی وباء

حقیقی اور دیرپا مسرّت کی تلاش زندگی بھر جاری رہتی ہے۔ ہر انسان چاہتا ہے کہ اس کے حصے میں زیادہ سے زیادہ مسرّت آئے اور مسرّت بھی ایسی‘ جس کے پانے سے جینے کا مزا آجائے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے وہ محض سوچتا نہیں‘ بلکہ بہت کچھ کرتا بھی ہے۔ مسرّت یقینی بنانے کا عمل غیر معمولی سطح پر قربانیاں مانگتا ہے۔ بہت سے معاملات میں ایثار سے کام لینا پڑتا ہے۔ کبھی کچھ اپنانا ہوتا ہے اور کبھی کچھ ترک کرنا پڑتا ہے۔ ہم مسرّت تلاش تو کرتے رہتے ہیں ‘مگر کبھی اِس بات پر غور کرنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے کہ مسرّت تلاش کرنے کی نہیں‘ بلکہ خلق کرنے کی چیز ہے۔ مسرّت کہیں سے‘ کسی دکان یا بازار سے نہیں ملتی۔ یہ افکار و اعمال کا نتیجہ ہوا کرتی ہے۔ یہ کنواں کھود کر پانی نکالنے والا معاملہ ہے‘ یعنی ہم اپنے حصے کی مسرّت پیدا کرنے کے پابند ہیں۔ ہم جو کچھ بھی سوچتے اور کرتے ہیں‘ اُس کے کچھ نہ کچھ نتائج ضرور مرتب ہوتے ہیں۔ اِن نتائج ہی کی بنیاد پر یہ طے ہوتا ہے کہ ہمارے معاملات کیا رخ اختیار کریں گے۔ زندگی کے تمام معاملات کے حوالے سے ایک بڑی زمینی حقیقت تو یہی ہے کہ مسرّت پیدا کی جاتی ہے‘ کہیں سے تیار حالت میں نہیں ملتی۔ 
نفسی ساخت‘ افکار و اعمال اور مجموعی طور پر پوری زندگی پر حالات بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔ کبھی کبھی ہم ذاتی حالات کو کسی حد تک تبدیل کرنے میں کامیاب ہو پاتے ہیں‘ تاہم بیشتر معاملات میں حالات ہی ہمیں گھیرے رہتے ہیں ‘مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہر معاملے کو حالات کا نتیجہ قرار دے دیا جائے۔ ہر انسان کو حالات سے مطابقت رکھنے والی سوچ اپنانا پڑتی ہے اور اس سوچ ہی کی بنیاد پر وہ اپنے لیے اعمال کی شکل متعین کرتا ہے۔ 
انسان معاشرتی حیوان ہے‘ یعنی مل جل کر رہتا ہے۔ اُسے اسی انداز سے جینے کے لیے خلق کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ بھی ہم سے یہی چاہتے ہیں کہ ہم مل کر رہیں‘ ایک دوسرے کے دکھ درد کو سمجھیں‘ ایک دوسرے کی پریشانیوں کو شکست دینے کے حوالے سے اشتراکِ عمل کی راہ پر گامزن ہوں۔ جب ہم ایسا کرنے سے گریز کرتے ہیں تو دراصل اپنے رب کی نافرمانی کے مرتکب ہو رہے ہوتے ہیں۔ دوسرے معاشروں کی بات جانے دیجیے‘ ہم اپنے ہی معاشرے کو دیکھیں تو اندازہ ہوگا کہ لاکھوں نہیں‘ بلکہ کروڑوں افراد ایسے ہیں جو اپنی ذات میں سمٹ کر رہنا پسند کرتے ہیں۔ اُن کے نزدیک سانسیں اس لیے بخشی گئی ہیں کہ دوسروں سے بچتے بچاتے اور دوسروں کے بارے میں کچھ زیادہ سوچے بغیر جیا جائے۔ یہ سوچ معاشرے کے لیے زہرِ قاتل ہے۔ جب انسان اپنی ذات میں سمٹ کر سوچتا ہے تو کسی کے کام آنا چاہتا ہے‘ نہ ضرورت پڑنے پر کسی سے مدد کا خواہاں ہوتا ہے۔ کسی سے مدد چاہنے میں کوئی قباحت نہیں۔ اللہ تعالیٰ بھی ہم سے یہی چاہتے ہیں۔ جس طور ضرورت پڑنے پر کسی کی مدد کرنا ہم پر فرض ہے‘ بالکل اُسی طور ہم پر بھی لازم ہے کہ ضرورت پڑنے پر کسی سے مدد لیں۔ جو لوگ ایسا کرنے سے کتراتے ہیں ‘وہ محض اپنا نقصان نہیں کر رہے ہوتے‘ بلکہ اپنے خالق و رب کی رضا کے خلاف بھی جارہے ہوتے ہیں۔ جس طور ہمیں دوسروں کی مدد کرنے کا پابند کیا گیا ہے ‘اُسی طور دوسروں کو بھی پابند کیا گیا ہے کہ ضرورت پڑنے پر ہماری مدد کے لیے آگے بڑھیں۔ 
زندگی کے ہر معاملے میں ماحول ہم پر کسی نہ کسی حد تک ضرور اثر انداز ہوتا ہے۔ مسرّت اور اطمینانِ قلب کا تعلق صرف اِس بات سے نہیں کہ ہمارے پاس مال و دولت ہو ‘بلکہ اس بات سے بھی ہے کہ ہم مل جل کر رہنے کی عادت کو پروان چڑھائیں‘ ضروری محسوس ہونے پر مدد کریں یا مدد لیں۔ 
اپنی ذات تک محدود رہنے کی عادت بسا اوقات انانیت کو جنم دیتی ہے۔ ایسی حالت میں انسان صرف اپنے وجود کو مقدم رکھتا ہے اور دوسروں کے بارے میں سوچنے سے بھی کتراتا ہے۔ اگر یہ معاملہ وسعت اختیار کرے تو خرابیاں بڑھتی ہیں۔ جب خالق نے یہ طے کر رکھا ہے کہ ہم مل جل کر رہیں تو ہم کون ہوتے ہیں تنِ تنہا جینے والے؟ کوئی بھی انسان اپنے وجود کی تکمیل کی منزل تک اُسی وقت پہنچ سکتا ہے ‘جب وہ اپنے وجود سے دوسروں کو مستفید کرے اور دوسروں کی صلاحیت و سکت سے مستفید ہو۔ 
اپنی ذات میں سِمٹے رہنے کی وباء نے آج پورے معاشرے کو لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ اشتراکِ عمل ہر دور میں دنیا کی اٹل حقیقت اور تابندہ روایت رہی ہے۔ وہی معاشرے پنپتے ہیں ‘جن میں اشتراکِ عمل کو بنیادی قدر کی حیثیت سے اپنایا جاتا ہے۔ اسے بدقسمتی ہی سمجھا جائے گا کہ آج ہم میں اشتراکِ عمل کی روایت کمزور پڑتی جارہی ہے۔ اس روایت کے کمزور پڑنے سے جو خرابیاں پیدا ہوتی ہیں ‘وہ آج ہم ہر طرف دیکھ رہے ہیں۔ نفسا نفسی کا عالم ہے۔ عمومی چلن یہ ہے کہ کامیابی بھی انفرادی ہو اور اُس سے مستفید ہونے کا معاملہ بھی انفرادی ہی ہو۔ اس روش پر گامزن رہنے سے انسان میں انانیت بڑھتی جاتی ہے اور پھر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے‘ جب وہ اپنی ذات سے دیکھتا ہے‘ نہ سوچتا ہے۔ 
اللہ نے انسان کو ہر صورت مل جل کر رہنے کے لیے خلق کیا ہے‘ اس لیے مشاہدہ کیا جاسکتا ہے کہ دوسروں سے ہٹ کر اور کٹ کر زندگی بسر کرنے والے بیشتر وقت ناخوش رہتے ہیں۔ ہم جس ماحول کا حصہ ہیں‘ وہ اگر دکھوں سے بھرا ہوا ہو تو ہمارا ذاتی سکھ کسی کام کا نہیں۔ حقیقی خوشی وہی ہے‘ جو صرف اپنی ذات کے لیے نہ ہو‘ بلکہ سب کے لیے ہو۔ جب ہم اپنی خوشیوں میں دوسروں کو شریک کرتے ہیں‘ تب معاشرے کو مستحکم کر رہے ہوتے ہیں۔ اس طور اپنے دکھ بھول کر دوسروں کی پریشانیاں ختم کرنے کی کوشش میں مگن رہنے والے بھی معاشرے کے لیے اثاثہ ہوتے ہیں۔ دوسروں کے دکھ درد بھول کر اپنی خوشیوں میں مگن رہنے کا عمل کسی بھی اعتبار سے قابلِ ستائش نہیں۔ محتاط ترین الفاظ میں بھی اسے خود پسندی‘ خود پرستی اور خود غرضی ہی کہا جائے گا۔ جب انسان خود پسندی اور خود پرستی‘ یعنی انانیت کے دائرے سے نکلتا ہے‘ تب اُسے اپنی دنیائے فکر و عمل کے محدود ہونے کا اندازہ ہوتا ہے۔ ؎ 
انا کی گرد چَھٹی ہے تو ہم نے دیکھا ہے 
فریبِ ذات سے آگے بھی ایک دنیا ہے 
جب تک انسان اپنے وجود سے آگے نہ دیکھنے کی روش پر گامزن رہتا ہے‘ تب تک بہت کچھ اُس کی آنکھوں سے اوجھل رہتا ہے۔ وہ اپنے وجود ہی کو کُل کائنات سمجھ رہا ہوتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوتا ہے کہ وہ دوسروں کے دُکھ سُکھ سے بے نیاز ہوکر اپنے وجود کی دنیا میں گم رہتا ہے۔ یہ انتہائی رویہ ہے۔ ہم متوازن زندگی ‘اُسی وقت بسر کرسکتے ہیں جب اپنی ذات کو کائنات میں تبدیل نہ کریں اور محض اپنی بہبود کو بنیادی مقصد یا ہدف بنائے رکھنے کی بجائے دوسروں کی بہبود کے لیے بھی فکر مند ہوں۔ ایسی صورت میں یہ دنیا زیادہ پرکشش بنتی ہے۔ جب بیشتر افراد ایک دوسرے کے لیے فکر مند ہوں‘ ایک دوسرے کی بہبود یقینی بنانے کو بنیادی ہدف بنائیں تو دنیا امن و راحت کے مسکن میں تبدیل ہونے لگتی ہے۔ کسی بھی معاشرے میں یہ وصف خود بخود پروان نہیں چڑھتا ‘بلکہ لوگوں کو تحریک دینا پڑتی ہے۔ اس حوالے سے مطبوعہ‘ سمعی اور بصری مواد غیر معمولی حد تک کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں