"MIK" (space) message & send to 7575

خود غرضی بُری نہیں‘ مگر

دنیا کا ہر انسان گھوم پھر کر اپنی طرف ہی آتا رہتا ہے۔ سب کو اپنا مفاد عزیز ہوتا ہے۔ بھری دنیا میں کوئی ایک انسان بھی ایسا نہیں جو پورے یقین اور خلوص کے ساتھ کہہ سکے کہ اُسے اپنے مفاد سے کچھ غرض نہیں۔ کسی نہ کسی شکل میں اپنی ذات ہی ہے ‘جو گھوم پھر کر انسان کو محدود ہونے پر مجبور کرتی ہے۔ 
بہت سوں کے نزدیک یہ بات بہت بری ہے کہ انسان اپنی ذات کا بھلا چاہے‘ اپنے مفادات کی دہلیز ہی پر اٹک کر رہ جائے۔ ایک بنیادی سوال یہ ہے کہ ایسا کرنے میں ہرج کیا ہے‘ برائی کیا ہے۔ دنیا کا ہر انسان‘ حتمی تجزیے میں‘ اپنا ہی تو بھلا چاہتا ہے۔ جو لوگ کسی کو خود غرض ہونے کا طعنہ دیتے ہیں وہ بھی اگر اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں تو اندازہ ہوگا کہ اُن کی اپنی زندگی بھی اسی ڈگر پر چلتی آئی ہے۔ 
ہم سبھی اپنی اپنی خواہشات کے دائرے میں گھومتے ہوئے زندگی بسر کرتے ہیں۔ ہم چیزوں کو اُس روپ میں نہیں دیکھتے جس روپ میں وہ ہوتی ہیں‘ بلکہ اُس روپ میں دیکھتے ہیں جو ہم ہیں‘یعنی ہم سب کچھ اپنی خواہشات اور امنگوں کے آئینے میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ بالکل فطری بات ہے۔ بگاڑ صرف اُس وقت پیدا ہوتا ہے جب ہم کسی بھی معاملے میں حد سے گزرنے لگتے ہیں۔ حد سے گزرنے کا ایک مفہوم تو یہ ہے کہ ہم اپنے مفاد کی تقویت اور تحفظ یقینی بنانے کے لیے ساری دنیا کو ایک طرف ہٹادیں۔ اور دوسرا مفہوم یہ ہے کہ ہم اپنے مفاد کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے کسی اور کے مفاد کو داؤ پر لگانے سے بھی گریز نہ کریں۔ 
انسان صرف بولنے والا نہیں‘ سوچنے والا حیوان بھی تو ہے۔ معلوم کائنات میں صرف انسان ہے ‘جسے سمجھنے اور سوچنے کا وصف عطا کیا گیا ہے۔ اس وصف کی بنیاد ہی پر آج ہر شعبے میں ترقی کی عمارت کھڑی ہے۔ روئے ارض پر موجود ہر انسان بہت کچھ کرنا چاہتا ہے۔ وہ ایک طرف تو اپنی صلاحیت و سکت کے مطابق کچھ کرنے کا خواہش مند دکھائی دیتا ہے اور دوسری طرف اس بات کا آرزو مند بھی نظر آتا ہے کہ دوسروں سے بڑھ کر اور برتر دکھائی دے۔ 
اگر ہم خالص غیر جانب دارانہ سوچ کے ساتھ معاملات کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوگا کہ ہم بھی ایسے ہی واقع ہوئے ہیں۔ ہم میں سے بیشتر بھی تو یہی چاہتے ہیں کہ ہمیں بہت کچھ‘ بلکہ سب کچھ ملے اور دوسروں کے لیے کچھ زیادہ نہ رہے! اپنے لیے سوچنے اور صرف اپنے لیے سوچنے میں بہت فرق ہے۔ ہر انسان اول و آخر اپنا ہی بھلا چاہتا ہے۔ ہم سب اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں۔ مشکل ہے تو بس یہ کہ اپنا بھلا چاہتے چاہتے انسان دوسروں کا برا چاہنے کی طرف نکل جاتا ہے۔ 
ہر دور کی طرف آج کی دنیا بھی ہر اُس انسان کے لیے کمرۂ امتحان ہے ‘جو کچھ کرنا چاہتا ہو۔ کسی بھی شعبے میں اپنے وجود کو منوانا کسی کے لیے کل آسان تھا ‘نہ آج آسان ہے۔ پھر بھی لوگ اپنے لیے کوئی بڑا ہدف یا چند چھوٹے اہداف مقرر کرتے ہیں اور پھر اُن کا حصول یقینی بنانے کی راہ پر چل پڑتے ہیں۔ 
یہ سچ ہے کہ یہ دنیا ہر اس انسان کے لیے اپنی پیار بھری باہیں پسارتی ہے‘ جو کچھ کرنا چاہتا ہے۔ جب کوئی انسان کچھ کرنا چاہتا ہے تو دراصل دنیا کوکچھ دینے کی تیاری کر رہا ہوتا ہے۔ ہر دور میں انہیں احترام کی نظر سے دیکھا گیا ہے ‘جو کچھ کرنا اور دنیا کو کچھ دینا چاہتے ہیں۔ 
کسی بھی شعبے میں نمایاں کارکردگی کے ذریعے دنیا کو کچھ دینے کی خواہش رکھنے والے ہر انسان کے لیے چند ایک باتیں تو لازم ہوتی ہیں‘ مثلاً: یہ کہ وہ بھیڑ میں گم ہوکر نہ رہ جائے‘ یعنی اپنے وجود کو تمام امور پر مقدم رکھے۔ جب تک انسان اپنے وجود کو پہلے نمبر پر نہیں رکھے گا تب تک کچھ بھی کرنے کے قابل نہیں ہوسکے گا۔ کسی بھی کامیاب انسان کی زندگی کھنگال کر دیکھیے تو معلوم ہوگا کہ بھرپور کامیابی اسی وقت ملی ‘جب اس نے دنیا کو ایک طرف ہٹاکر اپنے وجود کو سب سے زیادہ اہمیت دی۔ جب کوئی اپنے وجود کو اولیت دیتا ہے تو اپنی ہر صلاحیت اور متعلقہ سکت کو بروئے کار لانے کی توفیق نصیب ہوتی ہے۔ 
دنیا تو بہت دور کی چیز ہے‘ اپنے ماحول ہی کا جائزہ لیجیے تو معلوم ہوگا کہ جو لوگ اپنے وجود کو ایک طرف ہٹاکر بھیڑ میں گم رہنا پسند کرتے ہیں‘ وہ کچھ بھی نہیں کر پاتے۔ اپنے وجود کو نظر انداز کرکے دوسروں میں غیر معمولی دلچسپی لینے والوں کو اپنی صلاحیتوں کے پروان چڑھانے کے لیے وقت نہیں مل پاتا۔ دوسروں کے معاملات میں گم رہنے سے انسان اپنے وجود کو بھی کھو بیٹھتا ہے۔ 
دنیا کو سمجھنا صرف اس وقت آسان ہوتا ہے جب انسان اپنے آپ کو سمجھتا ہے‘ اپنی ذات کی گہرائی میں اتر کر معاملات کو ان کی اصلیت کے ساتھ سمجھنے کی بھرپور کوشش کرتا ہے۔ ایسا اسی وقت ممکن ہے ‘جب انسان اپنے ذات تک محدود رہنے کی روش پر گامزن ہو۔ اپنی ذات تک محدود رہنے کا مطلب دوسروں کو نظر انداز کرنا نہیں ‘بلکہ اپنے لیے واضح‘ منطقی حدود کا تعین ہے۔ تمام کامیاب انسانوں میں ایک خصوصیت مشترک ملے گی ... یہ کہ وہ اپنے وجود کو باقی تمام باتوں یا امور سے آگے رکھتے ہیں۔ 
زندگی قدم قدم پر ہمارے لیے ''گلا کاٹ‘‘ قسم کے مقابلے کا اہتمام کرتی ہے۔ ہمیں باقی سب کچھ بھول کر صرف اپنے وجود کو مقدم سمجھنا ہوتا ہے۔ بھرپور کامیابی کے لیے اپنے آپ کو سمجھنا اور برتنا ناگزیر ہے۔ کسی بھی شعبے میں نام کمانے کے حوالے سے سنجیدہ ہونے والوں کو اس مرحلے سے گزرنا‘ بلکہ گزرتے رہنا پڑتا ہے۔ اپنے وجود کی گہرائی میں اترنے اور ڈوبنے والے ہی ڈھنگ سے ابھرنے کے قابل ہو پاتے ہیں۔ 
کسی بھی انسان کے لیے اصل خرابی اسی وقت پیدا ہوتی ہے جب وہ دوسروں سے نمایاں اور ممتاز دکھائی دینے کی خواہش کے تابع ہوکر اپنے آپ کو بے معنی اور لغو قسم کی خود غرضی کے حوالے کردے۔ ایسی حالت میں وہ اپنا بھلا تو کر پاتا ہے مگر دوسروں کی نظر میں گِر سا جاتا ہے۔ اپنے مفاد کو تحفظ فراہم کرنے اور صرف اپنے مفاد کو تحفظ فراہم کرنے میں بہت واضح فرق ہے۔ یہ دنیا بامعنی اُسی وقت ہو پاتی ہے‘ جب ہم اپنے ہوتے ہوئے بھی دوسروں کے ہوں۔ صرف اپنی ذات تک محدود ہو رہنے کا مطلب ہے دوسروں کو نظر اندازکرنا۔ یہ روش خرابی کی طرف لے جاتی ہے ‘کیونکہ معاشرے کا یہ مقصد ہے ہی نہیں۔ اللہ نے تمام انسانوں کو مل جل کر رہنے کے لیے خلق کیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سب کو اپنے اپنے مفاد کے ساتھ ساتھ دوسروں کے مفاد کا بھی اچھی خاصی حد تک خیال رکھنا ہے۔ ایسا اسی وقت ممکن ہے ‘جب انسان صرف اپنے وجود کو مقدم نہ رکھے ‘بلکہ دوسروں کا بھی بھلا سوچنے کا عادی ہو۔ 
نئی نسل کو یہ بات خاص طور پر سمجھنی چاہیے کہ بعض معاملات میں اپنی ذات تک محدود ہو رہنا لازم ہے‘ مگر ہر معاملے میں صرف اپنے وجود کو مقدم رکھنا کوئی بہت اچھی روش نہیں۔ بھرپور کامیابی کے لیے اپنے آپ پر متوجہ رہنا پڑتا ہے‘ مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ انسان دوسروں کو بالکل نظر انداز کرے‘ اُن سے ایسا لاتعلق ہو جائے گویا وہ موجود ہی نہیں۔ یہ معاملہ قابلِ رشک نوعیت کا توازن چاہتا ہے۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں